پاکستان میں دماغی امراض سے متعلق حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں
دنیا بھر میں دماغی امراض کی نمائندہ تنظیم عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (WFN) اور چھ دیگر عالمی دماغی انجمنوں نے مشترکہ طور پر سال 2024ء میں منائے جانے والے عالمی یومِ دماغ کا مرکزی خیال ’’دماغی امراض سے بچاؤ آگاہی اور مؤثر و بروقت تشخیص سے ہی ممکن ہے اور یہی ہمارے مستقبل کی حفاظت ہے‘ ‘قرار دیا ہے۔
پاکستان میں دماغی امراض کے حوالے سے آبادی کی سطح پر قومی سروے موجود نہیں، کہ جس کی مدد سے دماغی امراض کے متعلق حتمی اعداد و شمار فراہم کیے جا سکیں۔
پاکستان بھر کے اسپتالوں میں ہونے والی تحقیقات کے توسط سے دستیاب اعداد و شمار کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ صرف فالج سے سالانہ کم و بیش پانچ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں مرگی کی شرح آبادی کا ایک فیصد ہے، اس حساب سے ملک کے طول و عرض میں پچیس لاکھ انسان مرگی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ سر درد بھی پاکستان میں ایک عام دماغی عارضہ ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف مائیگرین (دردِ شقیقہ) سے متاثرہ ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ ہیں۔
دماغی متعدی امراض مثلاً گردن توڑ بخار یا سرسام وغیرہ سے بھی سالانہ کروڑوں انسان متاثر ہوتے ہیں۔
ان دماغی عوارض کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں بڑھتا ہی جارہا ہے جبکہ طبی سہولیات و علاج پر اخراجات بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ دستیاب طبی سہولیات، تشخیصی ٹیسٹ و ادویہ کا بوجھ اور اس پر عوام کی اکثریت کی معاشی صورتِ حال اس بات کی شدید متقاضی ہے کہ حکومتی وسائل قومی سطح پر بیماریوں سے بچاؤ کی تدابیر و آگاہی پر بھی خرچ ہوں، یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے نتیجے میں دماغی امراض کے تناسب کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ہر سال 22 جولائی کو عالمی یوم دماغ منایا جاتا ہے۔ امسال منایا جانے والا یہ 11 واں عالمی یوم دماغ ہے (سال 2014ء میں اس دن کو منانے کا آغاز کیا گیا تھا)۔
امسال مرکزی خیال کا مقصد مشترکہ طور پر عالمی سطح پر اس پیغام کو عام کرنا ہے کہ دماغ کی صحت کے لیے دماغی عوارض سے بچنے کے پہلے سے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان امراض میں حتی الامکان کمی لائی جا سکے۔
عالمی ادارۂ صحت جو مرگی اور دیگر اعصابی عوارض پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک مربوط پلان جسے انٹرسیکٹرل گلوبل ایکشن پلان (IGAP) کا نام دیا گیا ہے، کے تحت عالمی سطح پر دماغی عوارض کے بارے میں ہر سطح پر آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ تمام قابلِ ذکر اعصابی عوارض دراصل انسانی زندگی پر عملی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں جس کے باعث روزمرہ زندگی کے امور متاثر ہوتے ہیں، نتیجتاً معاشی، اقتصادی و سماجی مسائل رونما ہوجایا کرتے ہیں جو فالج، دردِ شقیقہ، الزائمر (یادداشت کی بیماری)، گردن توڑ بخار اور مرگی جیسے عوارض کے ذریعے عالمی سطح پر انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان عوامل کو آگاہی، رسائی و تعلیم کی مربوط کاوشوں کے ذریعے بہت حد تک روکا جا سکتا ہے۔ ان میں خاص طور پر 90 فیصد فالج، 40 فیصد ڈیمینشیا (یعنی یادداشت کی بیماری)، اور 30 فیصد مرگی جیسے امراض روکے جا سکتے ہیں، جبکہ دردِ شقیقہ (آدھے سر کا درد)، سر درد کی دیگر اقسام، اور دماغی متعدی (انفیکشن) امراض کے لیے مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے سے تناسب میں مناسب کمی لائی جاسکتی ہے۔
پیر 22 جولائی 2024ء کو ہمارے ساتھ اس آواز میں شامل ہوں، جب ہم سب دماغی صحت اور اس سے متعلق امراض کی روک تھام کے لیے متحد ہوں۔ افراد، برادریوں اور قوموں کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند دنیا بنانے کے لیے بااختیار بنائیں۔WHO کی طرف سے بچاؤ یعنی روک تھام (prevention) سے مراد صحت مند سرگرمیوں و طرز زندگی کا فروغ تاکہ انسانی عوارض کے تناسب میں کمی لائی جا سکے ہے۔
اس سلسلے میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے بحیثیت مجموعی معاشرے سے لیکر انفرادی سطح تک بیماریوں کے متعلق اور ان سے بچنے کے لیے مربوط و مسلسل شعور کی کاوشوں شامل ہیں۔ بیماریوں کے اثرات اور اس سے منسلک خطرے کے عوامل کو کم کرنے کے لیے بنیادی اور ثانوی روک تھام کے تناظر میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی بچاؤ (Primary Prevention)
بنیادی بچاؤ سے مراد یہ ہے کہ بیماریوں کے شروع ہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کے امور پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بنیادی بچاؤ کی کوششوں سے معاشرے میں بیماریوں کے بجائے صحتمند عوامل کی آگاہی پر زور دینا ہوگا۔ اس کے لیے سماجی و اقتصادی عوامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دینے کے اقدامات کو ہر سطح پر سر انجام دینے کی ضرورت ہو گی. اس میں سب سے اہم اقدام تو معاشرے کی اصلاح و صحت مند رہنے کے لیے رویوں کی عملی تبدیلی بنیاد ہے۔ نیز بچاؤ کے اقدامات کے ساتھ بیماریوں کے نتیجے میں ہونے والے طبی خطرات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، کمیونٹی کی سطح پر بہتری کے اقدامات کو نافذ کرنا، غذائیت اور خوراک کی اضافی پیشکش کرنا، منہ اور دانتوں کی صفائی کو فروغ دینا، نیز بچوں، بڑوں اور بزرگوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں جیسی طبی حفاظتی خدمات فراہم کرنا شامل ہے۔
ثانوی بچاؤ (Secondary Prevention)
ثانوی روک تھام صحت کے مثبت نتائج کو بڑھانے کے لیے جلد پتہ لگانے پر زور دیتی ہے۔ اس میں بیماری کا پتہ لگانے اور پیدائشی خرابی کی روک تھام کے لیے شواہد پر مبنی اسکریننگ پروگرام شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بیماری کے ابتدائی مراحل میں ثابت شدہ مؤثر انسدادی ادویات کے علاج کا انتظام کرنا۔
عالمی یوم دماغ 2024ء دماغی صحت کو ترجیح دینے اور اس کے تحفظ کی عالمی کوششوں کے لیے ایک ریلنگ نقطے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بیداری پھیلا کر، تعاون کو فروغ دے کر، اور احتیاطی تدابیر کی وکالت کرکے ہم اجتماعی طور پر سب کے لیے ایک صحت مند مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
بنیادی و ثانوی بچائو کے ضمن میں پانچ اہم نکات:
1- دماغی صحت، اور عوارض کی روک تھام: دماغی عوارض کا جلد پتا لگانے اور مؤثر انتظام کے ذریعے ان عوارض کے تناسب میں معتدبہ کمی لائی جا سکتی ہے۔
2- آگاہی: دماغی صحت کے بارے میں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے بڑے پیمانے پر آسان زبان و انداز کے ذریعے آگاہی نہ صرف قومی بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے۔
3- رسائی: سماجی و اقتصادی حیثیت یا جغرافیائی محلِ وقوع دماغی عوارض کی روک تھام کے لیے رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔
4- تعاون: صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد، محققین اور پالیسی ساز عالمی دماغی و اعصابی بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
5- تعلیم اور وکالت: دماغی صحت کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا ہمارے مشن کا مرکز ہے۔
دماغی صحت… مگر کیسے؟
وہ کون سے اہم، آسان و بنیادی نکات ہیں جن کو اختیار کرنے سے نہ صرف ہم اپنے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ دماغی و دیگر عوارض کے تناسب میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ درج ذیل امور جو کہ نہایت آسان ہیں، انہیں ہر سطح پر عوام الناس اختیار کریں تاکہ بیماریوں کے تناسب میں کمی لائی جائے۔
بچاؤ ہی دماغی صحت کی کنجی ہے۔ سمجھ بوجھ و یادداشت کی کمی کو روکنے اور دماغ کی بہتر صحت کو ترجیح دینے کے لیے ضروری اقدامات لازمی کریں، جن میں:
1- باقاعدگی سے ورزش: جسمانی ورزش دماغ کے لیے خون کے بہتر بہائو کا باعث ہے، جس کے نتیجے میں دماغی خلیے نشو و نما پاتے ہیں اور انسانی دماغ کی صلاحیت و سمجھ بوجھ میں بہتری آتی ہے۔
2- سماجی طور پر جڑے رہیں: سماجی طور پر انسان جتنا مؤثر ہوگا، اس کا دماغ اتنا ہی بہتر کام کرے گا۔ دوست، احباب، عزیز، رشتے داروں سے جڑے رہیں۔ سماجی تعلق قائم رکھیں۔ یہ جذباتی بہبود اور صحت مند دماغ کے لیے ضروری امر ہے۔
3- ہر قسم کی نشہ آور اشیاء سے مکمل پرہیز: کسی بھی قسم کی تمباکو نوشی، ماوا، گٹکا وغیرہ کا استعمال دماغ کے خلیوں کے لیے نقصان دہ ہے، نیز شراب نوشی بھی انسانی سمجھ بوجھ کے مسائل کا سبب ہے، لہٰذا ان اشیاء کے استعمال کو ترک کرنا دماغی صحت کا باعث ہے۔
4- تنائو میں جسم و دماغ کے آرام کے لیے مختلف جہتوں پر عمل کرنے سے دماغ کو ایک تازگی ملتی ہے۔ ان میں روزمرہ بنیاد پر تھوڑے سے وقت کو استعمال کرکے گہرے سانس لینا، مراقبہ یا یوگاکرنا شامل ہے۔ اس سے تنائو میں کمی آئے گی کیونکہ تنائو دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور بہت سے عوارض کا باعث بنتا ہے۔
5- سر کی حفاظت: کسی بھی قسم کی سواری یا کھیل کے دوران اپنے سر کی مؤثر حفاظت ضروری ہے۔ لہٰذا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ، اور گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ لازمی استعمال کریں تاکہ خدانخواستہ حادثے کی صورت میں دماغ یا سر کی چوٹ سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔
6- پانی یا پانی والی اشیاء و دماغی تندرستی: دن بھر میں (تجویز کے طور پر صبح سے شام 7 بجے تک) پانی یا پانی والی اشیاء کا مناسب مقدار میں استعمال ضروری ہے، نیز ایسی دماغی سرگرمیوں کا حصہ بنیں جو خوشی و تازگی کا باعث ہوں۔
7- نیند کو ترجیح دیں: رات کو کم و بیش سات سے نو گھنٹے تک پُرسکون نیند لینا ایک صحت مند دماغ کے لیے ضروری ہے۔ روزانہ رات کی معیاری نیند نہ صرف دماغی فاسد مواد کو ختم کرنے کا سبب ہے بلکہ انسانی یادداشت کو بہتر بنانے میں معاونت کرتی ہے۔
8- متوازن غذا: دماغی عوارض سے بچنے کے لیے متوازن، معیاری و سادہ غذائی عادات انتہائی ضروری ہیں۔ بے وقت کھانا پینا، مرغن و غیر متوازن اشیاء کا استعمال انسانی جسم بشمول دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا سادہ و متوازن اشیاء جن میں موسمی سبزیاں و پھل شامل ہیں، استعمال کریں۔ اس کے علاوہ اناج، گوشت، مرغی، مچھلی و ضروری چکناہٹ کا محدود استعمال کیا جانا چاہیے۔