خیبر پختون خوا کے اہم جنوبی شہر بنوں اور اس کے گرد و نواح میں پے درپے پیش آنے والے بدامنی اور تشدد کے واقعات سے جہاں پورے صوبے اور بالخصوص جنوبی اضلاع میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے، وہاں اہلِ بنوں بھی پہلے پُرتشدد اور اب منظم سیاسی احتجاجی دھرنے کے ذریعے اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ بنوں ویسے تو پچھلے کئی سالوں سے بدامنی اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے جب سے دہشت گردی کی نئی لہر نے سراٹھایا ہے، یہاں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں سیکورٹی اور پولیس اہلکاروں سمیت سول آبادی بھی بڑے پیمانے پر تشدد کا نشانہ بنی ہے۔ اس حوالے سے جلتی پر تیل کا کام وفاقی حکومت کی جانب سے عزم استحکام آپریشن کے اعلان اور اس پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے، پہلے عدم اعتماد اور بعد ازاں صوبائی اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کے ذریعے اپنی واضح مخالفت کے اظہار نے کیا ہے۔ شاید یہی وہ بنیادی عامل ہے جس نے منتخب وفاقی حکومت کے ترجمان کے بجائے افواجِ پاکستان کے ترجمان کو باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے اس پوری صورتِ حال اور اس کے پس منظر کو قوم اور پوری دنیا کے سامنے رکھنے پر مجبور کیا ہے۔
واضح رہے کہ فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بنوں میں ہونے والے احتجاج کے بارے میں کہا ہے کہ انتہائی سنجیدہ ایشوز کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، عزم استحکام بھی اسی کی مثال ہے، سیاسی مافیا چاہتا ہے کہ عزم استحکام کو متنازع بنایا جائے، فوج دہشت گردوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کے سامنے کھڑی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن نہیں، دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے، ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں 2021ء کے نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا ہے کہ اجلاس میں متعلقہ وزراء، وزرائے اعلیٰ، چیف سکریٹریز موجود تھے، اجلاس میں تمام سروسز چیفس بھی موجود تھے، ایپکس کمیٹی اجلاس کا ایک اعلامیہ بھی جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ہمیں قومی اتفاقِ رائے سے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی بنانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عزم استحکام پر سیاست کی جارہی ہے، کیوں ایک مافیا، سیاسی مافیا اور غیر قانونی مافیا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اس کو ہم نے نہیں ہونے دینا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہر سنجیدہ معاملے کا سیاست کی وجہ سے مذاق بنایا جاتا ہے، عزم استحکام سے متعلق 24 جون کو وزیراعظم آفس سے ایک واضح بیان جاری کیا گیا کہ پہلے نوگوایریاز کی وجہ سے لوگ بے گھر ہوئے تھے، جبکہ اِس بار ملک میں کوئی نو گوایریا نہیں، اس لیے کسی کو گھر سے نکالا نہیں جائے گا، اس کے باوجود ایک بہت بڑا سیاسی مافیا کھڑا ہوگیا کہ یہ آپریشن عزم استحکام نہیں کرنے دینا، ایک مضبوط متحرک لابی چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے مقاصد حاصل نہ ہوں۔ عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں، اس کو متنازع کیوں بنایا جارہا ہے!
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شدت کے ساتھ لڑی گئی، چار سے پانچ آپریشن ہم ہر گھنٹے میں کررہے ہیں، 16 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، اب بھی 50 فیصد مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں، کیا یہ فوج کو کرنا ہے؟ 32 ہزار سے زائد مدارس پاکستان میں ہیں، ان کے علاوہ دیگر مدارس کہاں ہیں؟ کون ان کو چلا رہا ہے؟ نیکٹا کے مطابق کے پی میں اے ٹی سی کورٹس 13 اور بلوچستان میں 9 ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے من گھڑت خبروں اور پاک فوج کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، بڑھتے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے پیش نظر ہم تواتر سے پریس کانفرنس کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا واقعہ ہوا تو ایک انتشاری ٹولے نے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ فوج نے گولی کیوں نہ ماری؟ بنوں میں فوج نے ریسپانس ایس او پیز کے مطابق بالکل درست دیا، اگر کوئی انتشاری ٹولہ آتا ہے تو اس کو پہلے وارننگ دی جاتی ہے پھر ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، اگر وہ انتشاری ٹولہ نہ رکے تو پھر اس کے ساتھ جو کرنا ہو وہ کیا جاتا ہے، بنوں واقعہ اس لیے ہوا کہ ہمارا عدالتی و قانونی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار مزید پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم کو کنٹرول کرنا فوج کی ذمے داری نہیں صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے، بنوں کا واقعہ ہوا، اس پر عوام کا پُرامن احتجاج ہوا، بالکل ہونا چاہیے، ان دہشت گردوں کے خلاف مارچ کریں، بالکل کریں، جیسے ہی یہ واقعہ ہوتا ہے سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے، ڈیجیٹل دہشت گرد کس طرح اصل دہشت گردوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آڈیو کال میں خارجی نور ولی کو سنا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، نورولی آڈیو میں کہہ رہا ہے کہ اسکول، اسپتال، گھر اڑائو، دھماکے کرو لیکن میرا نام نہیں آنا چاہیے۔ ان میں اتنا ظرف نہیں کہ کہہ سکیں کہ ہم ذمے داری لیتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جو دھرنا ہوا، حکومت اور ادارے حساسیت اور جذباتیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کررہے تھے، کل اگر جماعت اسلامی غزہ کے معاملے پر آکر بیٹھے گی تو بھی آپ کہیں گے کہ اسے فوج نے بٹھایا ہے، دھرنے والے آرام سے چلے گئے تو کہا گیا اس کے پیچھے کچھ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ فیک نیوز اس قدر ہے کہ جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ دیتا ہے، سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں، ڈیجیٹل دہشت گردوں کو قانون نے روکنا ہے، ڈیجیٹل دہشت گرد کو قانون کے مطابق سزا دے کر روکنا ہے۔ ایک خارجی ٹولہ افغانستان میں بیٹھا ہے، بھارت موقع کی تاک میں ہے کہ کب پاکستان کی فوج اور ادارے کمزور ہوں اور وہ واردات کرے، اگر یہ سب چلتا رہا اور ہم اس کے سامنے کھڑے نہ ہوئے تو اس کو مزید اسپیس ملے گی، وقت آگیا ہے کہ پوری قوم کو کھڑا ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 22 ہزار 409 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے ہیں، ان آپریشنز کے دوران 31 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ ادارے روزانہ کی بنیاد پر 112 آپریشنز انجام دے رہے ہیں، پوری قوم شہید ہونے والے بہادر جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
جمعہ کو بنوں قامی اولسی پاسون کے زیراہتمام احتجاجی مظاہرین پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ تاجروں کے امن مارچ میں کچھ منفی عناصر اور مسلح افراد شامل ہوگئے تھے جن کی فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے۔ اُن کے مطابق ان عناصر نے نہ صرف ریاست اور فوج مخالف نعرے لگائے بلکہ جس جگہ چھاؤنی پر دھماکہ ہوا تھا وہاں سے دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جہاں سے کچھ لوگ داخل ہوئے اور انھوں نے فوج کے سپلائی ڈپو کو لوٹا اور وہاں سے آٹا اور چینی اُٹھا کر لے گئے۔ سیکورٹی اہلکاروں نے انھیں منتشر کرنے کے لیے قواعد کے مطابق ہوائی فائرنگ کی۔ یاد رہے کہ گزشتہ جمعہ کو بنوں میں احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ اور بھگدڑ سے ایک شخص ہلاک اور تقریباً 25 افراد زخمی ہوگئے تھے جس کا الزام سیکورٹی اداروں پر لگایا گیا تھا، تب سے اس واقعے کے خلاف شہر کے مرکزی چوک میں عوامی احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں روزانہ ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔
مسلح افواج کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بنوں کی امن کمیٹی کے عمائدین مقامی انتظامیہ سے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد پشاور میں ایک 45رکنی نمائندہ کمیٹی کے توسط سے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور سے ملاقات کرچکے ہیں جس میں انہوں نے یہ معاملہ صوبائی حکومت کی جانب سے قائم ایپکس کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بنوں امن دھرنا نے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے 45 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں موجودہ اور سابق اراکین اسمبلی، تاجر برادری، سیاسی و مذہبی شخصیات شامل ہیں۔ ناصر خان بنگش کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی میں رکن قومی اسمبلی مولانا سید نسیم علی شاہ، صوبائی وزیر ملک پختون یار خان، ایم پی اے زاہد اللہ وزیر، ایم پی اے عدنان وزیر، سابق صوبائی وزیر سید حامد شاہ تیمور بازخان ایڈووکیٹ، انجینئر ملک احسان خان، ظفر حیات، حاجی عبدالصمد خان، مولانا عبدالغفار قریشی، ڈاکٹر عبدالرئوف قریشی، غلام تیباز خان و دیگر شامل ہیں۔ بنوں میں ایک ہفتے سے جاری دھرنا دراصل گزشتہ جمعہ کو شہر میں قیام امن کے لیے ہونے والے عوامی مارچ پر سیکورٹی فورسز کی فائرنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے خلاف دیا جارہا ہے جس نے ایک منظم احتجاج کی شکل اختیار کرلی ہے اور بات اب مقامی انتظامیہ کے اختیار سے نکل کر براہِ راست وزیراعلیٰ اور اُن کے توسط سے ایپکس کمیٹی سے مذاکرات تک پہنچ گئی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ احتجاج 15جولائی کو بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے کے خلاف کیا گیا تھا جس میں 8 فوجی جوان شہید ہوگئے تھے، اور جوابی کارروائی میں 10 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے متعلق پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ 15 جولائی کی صبح 10 دہشت گردوں نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کیا تاہم اس دوران سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنادی جس پر دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چھاؤنی کی دیوار سے ٹکرا دی تھی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے خودکش دھماکے میں 8 بہادر جوان شہید ہوگئے تھے جبکہ کلیئرنس آپریشن میں سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور فورسز کی بھرپور جوابی کارروائی میں تمام 10 دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردی کی یہ گھناؤنی کارروائی حافظ گل بہادر گروپ نے کی ہے جو افغانستان سے کام کرتا ہے، یہ گروپ ماضی میں بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان کی عبوری حکومت ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرے، افغانستان سے آنے والے ان خطرات کے خلاف مناسب سمجھے جانے والے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔
دریں اثناء بنوں کنٹونمنٹ پر دہشت گردوں کے خودکش حملے کے روز ہی صوبے کے ایک اور جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی دہشت گردی کا ایک المناک واقعہ پیش آیا جس میں شہر کے ایک رورل ہیلتھ مرکز پر حملے میں 5 شہری اور 2 سپاہی شہید ہوگئے، جبکہ جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رورل ہیلتھ سینٹر کڑی شموزئی میں دہشت گردوں کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز، دو بچے اور ایک چوکیدار سمیت پانچ بے گناہ شہری شہید ہوگئے جب کہ فورسز کی موثر کارروائی کے سبب تین دہشت گردوں کو موقع پر ہلاک کردیا گیا۔
خیبر پختون خوا کے شہر بنوں سمیت جنوبی اضلاع میں تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن بھی کیے گئے ہیں لیکن تادم تحریر امن و امان کی گمبھیر صورتِ حال پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بنوں کی صورتِ حال ایک یا دو روز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہاں کشیدگی ایک عرصے سے جاری ہے۔ ماضی میں جن شدت پسندوں نے سرنڈر کیا یا ہتھیار ڈال دیے تھے وہ اب ان علاقوں میں کھلے عام رہ رہے ہیں اور لوگوں کے کاموں میں مداخلت بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ شمالی وزیرستان کے ساتھ واقع ہے جہاں سے مسلح لوگ آسانی سے آ جا سکتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں صوبائی حکومت بے بس نظر آتی ہے جس کی وجہ سے اب لوگ خود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن کا مطالبہ صرف اور صرف امن کا قیام ہے، یہ لوگ مسلح افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت ان مسلح افراد کو کنٹرول کرے۔ اور یہ مسئلہ صرف بنوں میں نہیں ہے، باقی تمام اضلاع میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس احتجاج کو یہ رنگ دینا کہ یہ حکومت کے خلاف ہے یا سیکورٹی فورسز کے خلاف ہے تو ایسا نہیں ہے، بلکہ عام لوگ بدامنی سے تنگ آکر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کا مظاہرہ اس سے قبل سوات اور باجوڑ سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے بعض دیگر اضلاع میں بھی ہوچکا ہے۔ دراصل حکومت کو اس ساری صورتِ حال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور اگر صورتِ حال ایسے ہی رہی تو اس کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان مسائل کا حل ریاست تلاش نہیں کرے گی تو پھر اس سے سوالات لازماً اٹھیں گے۔ لہٰذا حکومت کو عوام کی بات سننا ہوگی اور ان کے جان و مال کے تحفظ کے بنیادی مسائل حل کرنے ہوں گے، بصورتِ دیگر یہ احتجاج سارے صوبے میں پھیل کر ریاستی رٹ کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔