مسلم لیگ (ن) جسے چند سال پہلے اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا وہ اب خود انہی کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے جیسے اس نے سیاسی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا
عام انتخابات سے قبل رائے تھی کہ انتخابات ہوجائیں تو ملک میں سیاسی بحران ختم ہوجائے گا، لیکن فرائیڈے اسپیشل نے اُس وقت بھی تجزیہ دیا تھا کہ جب تک کنواں پاک نہیں ہوگا، بحران ختم بھی نہیں ہوگا بلکہ بڑھ جائے گا۔ آج ملک میں ہر گلی، کونے، قصبے، دیہات اور شہر میں صرف ایک سوال ہے کہ سیاسی بحران کیوں بڑھ رہا ہے اور ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟ آج بھی ہمارا تجزیہ یہی ہے کہ کنواں پاک کرنے کی جو شرط ہے اسے پورا کردیا جائے تو سیاسی بحران بھی حل ہوجائے گا اور ملک بھی آگے چل پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کنواں کیسے پاک ہو؟ یہ کنواں صرف اسی صورت میں پاک ہوگا جب عوام کو کسی انتظامی مداخلت کے بغیر صرف اور صرف آئین کے سائے میں اپنے ووٹ سے اپنی نمائندہ قیادت منتخب کرنے کا جمہوری روح کے عین مطابق موقع دے دیا جائے۔ اس طرح کنواں بھی پاک ہوجائے گا اور سیاسی بحران بھی حل ہوجائے گا۔
آئی ایم ایف کے پروگرام کو آخری قرار دینے کا عہد کرنے والوں نے سات ارب ڈالر قرض کا آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق بھاری ٹیکس لگیں گے۔ پاکستان میں خصوصی طور پر مالی معاملات میں آئی ایم ایف کی مداخلت حد سے بڑھ رہی ہے۔ عوام بدترین مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں جس نے اُن پر عرصۂ حیات تنگ کرکے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کے ستائے ایک باپ نے قبیح فعل کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردیا۔ کئی شہروں میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں، جبکہ مہنگائی، بجلی اور ناروا ٹیکسوں کے خلاف 26 جولائی کو جماعت اسلامی نے بھی اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کررکھا ہے۔
قومی معیشت کتنی دبائو میں ہے اس بارے میں موڈیز کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ موڈیز کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے ایس ایل اے (اسٹاف لیول معاہدے) کو اس کے ایگزیکٹو بورڈ نے ہری جھنڈی دکھا دی ہے، اور وہ اس بات کی تعریف کرتا ہے کہ اس سے ’’پاکستان کے فنڈنگ کے امکانات بہتر ہوں گے‘‘، اس کے باوجود حکومت کے لیے سب اچھا نہیں ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج ٹیکس کے نظام میں ناانصافی کا پہلو ہے۔ حکومت تنخواہ دار طبقے اور وہ جو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں، انہی پر چھری چلارہی ہے۔ بزنس کمیونٹی اور تنخواہ دار طبقے پر اتنا ٹیکس ڈال دیا گیا کہ لوگ کنگال ہوگئے ہیں۔ غربت سے سسکتے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ماہرینِ معاشیات بجٹ کو غریبوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہے ہیں کہ جس میں حکمرانوں نے امرا اور اشرافیہ کو مراعات دیتے ہوئے ایک بار پھر کسمپرسی میں زندگی گزارتے غریب عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنادیا ہے۔ اس بجٹ کے نفاذ کے 20 دن کے دوران عوام کو بیسیوں بجٹ آفٹر شاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس ’’غریب مٹائو‘‘ بجٹ کا صلہ حکومتِ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے نئے قرض پروگرام پر معاہدے کی صورت میں ملا ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں یہ سفر اتنی تیزی پکڑے گا کہ معاشی ماہرین کے مطابق مزید ڈیڑھ کروڑ عوام خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ بجٹ کے نفاذ سے قبل ہی بجلی، گیس مہنگی کردی گئی تھی، لیکن جیسا کہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے، تو آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ دہرایا، یعنی امریکہ نے ’’ڈومور‘‘ کا اختیار آئی ایم ایف کو دے دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر قیمتوں میں اضافے پر یکم جولائی سے قبل عمل درآمد بھی کردیا گیا، جہاں بچوں کے دودھ اور غذائی اشیاء پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے، وہیں حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ بھی کردیا گیا۔ ایوانِ صدر، وزیراعظم ہائوس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہائوسز کے اخراجات بڑھ گئے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات رواں مالی سال کے لیے 21 ارب ڈالر اور 2025-26ء کے لیے مزید 23 ارب ڈالر ہیں، جب کہ اس وقت ذخائر صرف 9.4 بلین ڈالر ہیں۔ یہ ادائیگیاں صرف اور صرف اس صورت میں ہوں گی جب حکومت ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لے گی۔ آئی ایم ایف پروگرام EFF محض اس لیے ہے کہ ڈیفالٹ کو زیادہ دیر تک مؤخر کیا جاسکے، اور حکومت یا ہمارے پاس بحیثیت قوم بہت کم وقت ہے،2030ء تک تو مہلت ہے اس کے بعد کا پتا نہیں۔
اسلام آباد میں یہ تاثرگہرا ہوتا جارہا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں اُن لوگوں سے مشورہ کیا جن کو زمینی حقائق کا علم ہی نہیں۔ تین ماہ اور چھے ماہ بعد پوزیشن اتنی بدل جائے گی کہ پھر واپسی کا راستہ ممکن نہیں ہوگا، حالات کنڑول سے باہر ہوجائیں گے، اور اوپر سے تحریک انصاف پر پابندی کا ایشو چھیڑ دیا گیا ہے، گویا بے بسی کی حالت میں اٹھایا گیا یہ قدم بڑے مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا حکومتی فیصلہ انتہائی احمقانہ اور خود اس کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ خودکشی سے کم نہیں۔ اس فیصلے پر عمل درآمد ہوگا یا نہیں لیکن اس کا حکومتی سطح پر اعلان کیا جاچکا ہے اور اس نے موجودہ سیاسی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے، جبکہ دوسری جانب حکمران اتحاد پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وفاقی وزیر عطا تارڑ نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا بلکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق صدر عارف علوی کے خلاف غداری کے مقدمات چلانے کا بھی اعلان کیا ہے، حکومت کو ادراک ہی نہیں کہ حالات کس قدر بدل رہے ہیں، مخصوص نشستیں ملنے کے بعد پی ٹی آئی ایوانِ زیریں کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔ یہ شاید مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت کی اکثریت پر اثرانداز نہ ہو لیکن دو درجن مخصوص نشستیں واپس لیے جانے سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی دو تہائی اکثریت ختم ہوسکتی ہے جوکہ آئین میں ترمیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) جسے چند سال پہلے اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا وہ اب خود انہی کی آلہ کار بنی ہوئی ہے جیسے اس نے سیاسی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مسلم لیگ (ن) یہ دعوے کررہی ہے کہ پابندی کے فیصلے پر تمام حکمران جماعتیں ایک پیج پر ہیں، لیکن کچھ جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات سے تقسیم واضح ہورہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے سے متعلق ان کی جماعت سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اس بیان کے باوجود اس کی پوزیشن مبہم ہے۔ زیادہ ٹیکسوں، توانائی کے نرخوں میں مستقبل کی ایڈجسٹمنٹ اصلاحات پر دباؤ ڈال سکتی ہے جبکہ مشکل اصلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کا مضبوط انتخابی مینڈیٹ نہ ہونا خطرات پیدا کرسکتا ہے۔
ممکنہ ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے بھی بازگشت ہورہی ہے۔ ملک میں آمریت کے گہرے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ایسا کوئی قدم ملک کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتا ہے جسے پہلے ہی متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ نہ صرف ہماری معیشت تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے بلکہ ملک میں بڑھتے دہشت گرد حملے بھی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور حکومت کے مایوس کُن فیصلے خود اُس کے لیے خطرناک ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے 11 ججوں نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کو ایک سیاسی پارٹی تسلیم کیا جس کے ساتھ ہی اتحادی حکومت نے پارٹی پر مکمل پابندی لگانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اگر حکومت کا گمان یہ تھا کہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے ذریعے اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو اس معاملے میں وہ غلط ہے۔ اس پریس کانفرنس نے تاثر دیا کہ حکومت صرف بے بس اور سہمی ہوئی ہے جو اپنے اردگرد اٹھتے طوفان سے خود کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب امید ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ اعلان کرکے حکومت یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس طرح کے اقدام پر کیا ردعمل سامنے آئے گا۔ سیاست میں مکمل فتح شاذ و نادر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے مذاکرات کے راستے بند نہیں ہونے چاہئیں۔
معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت 18 ماہ تک برقرار رہے گی۔ پاکستان کی معیشت کے لیے بیرونی ادائیگیوں کا دبائو معاشی رسک ہے، رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ حکومت نے بجٹ میں مشکل ترین معاشی اہداف مقرر کیے ہیں، حکومت مالیاتی خسارہ 7 اعشاریہ 4 سے کم کرکے 6 اعشاریہ 7 فیصد پر لانا چاہتی ہے۔ شرح سود میں کمی کی توقع ہے، شرح سود 14 فیصد تک لائی جاسکتی ہے۔ فچ رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ساری معاشی اصلاحات کرے گی، موجودہ حکومت ختم ہوئی تو پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت آئے گی۔ پاکستان کے شہروں میں مظاہرے معاشی سرگرمیاں متاثر کرسکتے ہیں، رواں مالی سال کے ٹیکس سے بھرپور بجٹ اور مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد توجہ سیاست سے معیشت کی جانب مبذول ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے نئے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی شرائط پوری کرنے کی ملک کی صلاحیت پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ اسی لیے یہ سوال ہے کہ آیا حکومت 7 ارب ڈالر قرض کے معاہدے کی شرائط کو پورا کرسکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ملک کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے، بلکہ ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے صورت حال کو مزید خراب کررہی ہے۔ ٹیکس میں اضافے سے برآمد کنندگان بھی غیر مطمئن ہیں۔ حکومت نے بجٹ کے بعد کہا تھا کہ غیرملکی سرمایہ کاری آنے والی ہے، لیکن ابھی تک تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے ساتھ ڈیل کے باوجود خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی نجکاری ہوئی ہے، یوں ملک میں معاشی بحران بڑھ رہا ہے، اور مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کرکے حالات مزید گمبھیر بنا دیے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے پہلے جن سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی انہیں ختم کیا جا سکا؟ یا عوام کے دلوں سے اس طرح کے اقدامات سے کسی لیڈر یا سیاسی جماعت کی مقبولیت کو کم کیا جا سکتا ہے؟