ایک نئی رپورٹ میں اس بات کا انکشافط کیا گیا ہے کہ بھارت میں کورونا وبا کے پہلے سال میں جس مقامی طبقے نے زیادہ اموات کا سامنا کیا وہ مسلمان ہیں۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے پر مبنی ایک تحقیقی مقالے میں پایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں 2019ء اور 2020ء کے درمیان 5.4 سال کی کمی واقع ہوئی جو کہ تمام ہندوؤں یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہے، بالخصوص اونچی ذات والوں سے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو اور تحقیقی مقالے کے شریک مصنفین میں سے ایک، ڈاکٹر اشیش گپتا نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی بھارت میں پسماندگی زیادہ نمایاں ہوگئی ہے۔
انہوں نے مثال کے طور پر 2020ء کے آغاز میں دہلی میں فسادات کا حوالہ دیا جس کے بعد مسلمانوں کی دگرگوں حالت میں شدت آئی اور مسلم اکثریتی علاقوں کو ہیلتھ کیئر سہولیات سے مکمل طور پر منقطع کیا گیا۔
اشیش گپتا نے کہا کہ دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو بھی نشانہ بنایا گیا اور اسے وبا پھیلنے کا حکومت نے گڑھ قرار دیا۔ مذہبی اجتماع مارچ 2020ء میں دہلی کے نظام الدین علاقے میں ہوا تھا، اس سے کچھ دن پہلے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے جماعت کو کورونا انفیکشن کا گڑھ قرار دینے کے بعد افواہوں اور جعلی خبروں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا۔