وطنِ عزیز اس وقت شدید اندرونی و بیرونی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے… معیشت کی زبوں حالی اور اداروں کی باہمی چپقلش نے ان مسائل کی شدت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک کی تمام مقتدر قوتیں، سیاسی رہنما اور مختلف آئینی و قومی اداروں کے ذمہ داران، اتحاد و اتفاق سے مل بیٹھ کر ان مسائل سے نجات کے لیے متفقہ لائحہ عمل طے کریں، خصوصاً جس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آئے روز ہمارے دفاعی اداروں کو سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ پوری قوم اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہو، تاکہ ہمارے بہادر جوان بیرونی دشمنوں کا خاتمہ کرنے کے لیے یکسوئی سے اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں، مگر بدقسمتی سے صورتِ حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے جس کے سبب مسائل اور ان کی سنگینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس دکھ اور تشویش کا اظہار پاک فوج کے ترجمان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پیر کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں نمایاں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک برس کے دوران مسلح افواج نے 22409 انٹیلی جنس آپریشن کیے جن میں 31 انتہائی مطلوب سمیت 398 دہشت گرد ہلاک جب کہ 137 افسر اور جوان شہید ہوئے، اسی دوران حالیہ کچھ عرصے میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈے اور جھوٹی خبروں میں اضافہ ہوا۔ 22 جون کو قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عزم استحکام اور قومی اتفاقِ رائے سے انسدادِ دہشت گردی پالیسی بنانے کا فیصلہ ہوا، مگر انتہائی سنجیدہ معاملات کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے، یہ فوجی آپریشن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے، مگر اس پر سیاست کی جارہی ہے۔ ایک مافیا، سیاسی مافیا اور غیر قانونی مافیا کھڑا ہوگیا کہ اس کو ہم نے ہونے نہیں دینا۔ اپنی طویل گفتگو میں پاک فوج کے ترجمان نے 9 مئی کے حوالے سے ملک کے عدالتی و قانونی نظام کو بھی ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ عدالتی نظام 9مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور کیفرِ کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار مزید پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ خود فوجی ترجمان کی طرف سے یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ عزم استحکام مسلح آپریشن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس آپریشن کی مخالفت کرنے والے حلقوں کی طرف سے بھی اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے، اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم ترجمان پاک فوج کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں، اگر سیاسی حکومت اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد اتفاقِ رائے سے فیصلے کرے تو کنفیوژن جنم نہیں لے گا، جماعت اسلامی کا یہ اصولی مؤقف ہے کہ فوجی آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ ملک کسی فوجی آپریشن کا متحمل ہوسکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ ردعمل نہایت بروقت اور مثبت ہے، تاہم اس ضمن میں یہ یاددہانی ضروری ہے کہ وزیراعظم نے ’’عزم ِاستحکام‘‘ کے معاملے پر کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا مگر اب اس کا کہیں ذکر نہیں، اور یہ بہت سے دیگر حکومتی اعلانات کی طرح طاقِ نسیاں کی زینت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ یہ کانفرنس منعقد کرلی جائے تاکہ ’’عزم استحکام‘‘ سے متعلق پائے جانے والے ابہام اور شبہات دور ہوسکیں اور اس سے متعلق اختلافِ رائے کا اظہار کرنے والے قومی، سیاسی رہنمائوں کے خدشات کا بھی ازالہ ہوسکے۔ یہاں اس جانب توجہ دلانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک ذمہ دار قومی ادارے کے ذمہ دار افسر کی جانب سے کسی معاملے میں اختلافِ رائے کا اظہار کرنے والے محترم سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ’’مافیا، سیاسی مافیا اور غیر قانونی مافیا‘‘ جیسے الفاظ اور القاب کا استعمال بہرحال تہذیب و اخلاق کے تقاضوں کے منافی ہے، اعلیٰ منصب پر موجود شخص کو الفاظ کے چنائو میں احتیاط اور تہذیب و شائستگی کا دامن کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
محترم جنرل احمد شریف صاحب نے اپنی گفتگو میں ملک کے عدالتی اور قانونی نظام کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے کہ عدالتی نظام نو مئی والوں کو ڈھیل دے گا تو مزید انتشار پھیلے گا۔ اس ضمن میں شاید یہ مشورہ غلط نہیں ہوگا کہ بہتر ہے ہر ادارہ اپنی آئینی و قانونی حدود کے اندر رہ کر اپنا کام کرے۔ جنرل صاحب کے ادارے کے بارے میں ماتحت ہی نہیں اعلیٰ عدلیہ کے محترم جج انفرادی اور اجتماعی طور پر باقاعدہ یہ شکایت اور احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں کہ طاقتور ادارہ عدلیہ کے کام میں زور زبردستی اور مداخلت کرتا ہے، بہتر ہوگا مزید شکایات کا موقع نہ دیا جائے، عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیں اور آپ ملکی سرحدوں کے دفاع و تحفظ پر تمام تر توجہ مرکوز رکھیں۔ اسی طرح جنرل صاحب کے ادارے نے 2024ء کے انتخابات میں بھی اُسی غلطی کو دہرایا ہے جو 2018ء کے عام انتخابات میں کی گئی تھی اور فارم 47 کے ذریعے ایسے سیاسی عناصر کو عوام پر بطور حکمران مسلط کردیا گیا ہے، جنہیں عوام نے منتخب نہیں کیا… حالانکہ 2018ء میں ایسی ہی من مانی کے نتائج نو مئی کا بنیادی اور حقیقی سبب ہیں۔ اگر جنرل صاحب کے ارشادات کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ خدانخواستہ نو مئی والے ملک دشمن یا فوج جیسے اہم قومی و آئینی اور حساس دفاعی حیثیت کے حامل اداروں کے مخالف ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو قوم پر مسلط کرنے اور زمین سے اٹھاکر آسمان کی بلندیوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر اُس وقت آپ کا ادارہ اپنی آئینی حدودِ کار سے تجاوز کرتے ہوئے غلط فیصلہ نہ کرتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ بزرگ فرما گئے ہیں کہ ہاتھوں کی دی ہوئی گانٹھیں بعض اوقات دانتوں سے کھولنا بھی مشکل ہوجاتی ہیں۔ اللہ کرے معاملہ یہیں تک رہے، ورنہ بزرگوں کا فرمانا تو یہ بھی ہے کہ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘۔ (حامد ریاض ڈوگر)