شبلی نعمانی محقق تھے، انہوں نے محققانہ اور مدرسانہ اسلوب میں لکھا۔ مسعود حسن رضوی صاحب نے لکھا تو مذہبی رنگ غالب تھا۔
اب ہمارے پاس تو عزیزم کاظم ناصری کی محبت بھری فرمائشوں کے سوا کوئی سرمایہ نہیں، لہٰذا ہم بس لکھنے کے لیے لکھ رہے ہیں۔
قبل اس کے کہ ہم کہیں اور جا نکلیں، آئیے اپنے موضوع پر بات کرتے ہیں۔
کربلا، ہندوستان اور میر انیس… یہ مثلث ناگزیر اور اجتناب ناپذیر سا ہوگیا ہے۔
سچ یہ ہے کہ میر انیس نے کربلا کے ہر منظر اور مضمون کو ہزار ڈھنگ اور سو رنگ سے باندھ کر زمینِ سخن کو آسماں کردیا۔
بات کربلا کی ہو تو تنہائی کا تصور یونہی ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ آپ غور کیجیے تو میر انیس بھی آپ کو دنیائے شعر و ادب میں اپنے آقا و مولا کی طرح یکا و تنہا ہی نظر آئیں گے۔
اس میں کچھ دخل تو ان کی انفرادیت کو ہے اور کچھ اُس محدودیت کو جو ان کی مسلکی و مذہبی وابستگی کا لازمی نتیجہ تھی۔
نہ جانے کب رثائی ادب اور مرثیے پر عزاداری کی رسوم سے منسلک ہوکر مسلکی چھاپ گہری ہوگئی، اور یوں یہ صنف مذہبی منافرت اور تعصبات کی نذر ہوکر کچھ محدود سی ہوگئی ہے۔
افسوس کہ میر انیس بھی ایسے ہی ایک مخصوص مذہبی طبقے اور کچھ مذہبی رسومات تک محدود ہوکر رہ گئے… وہ محدود ہوئے اور ہم محروم!
خونِ جگر سے نمو پانے والے ایک معجز ہنر سے محروم!!!
بات ادبیات سے جمالیات تک آ ہی گئی ہے تو کہے دیتے ہیں کہ:
عاشقی کچھ کسی ذات کی نہیں۔
میر انیس سب کے ہیں اور اُن سے محرومی ایک تہذیب کی روح سے محرومی ہے جو ایک مہذب فرد کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔
عالمی رزمیہ شعری روایت میں ہومر، ملٹن اور فردوسی کے ساتھ اگر ہمارا کوئی شاعر انہی کی صف میں اسی ہم قامتی کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف میر انیس ہیں۔
خیر ہم نے شاہنامہ فردوسی کی کیا قدر کرلی تھی جو میر انیس کی کرلیتے! یہ ناقدری اور اپنی قدآور شخصیات سے یہ عدم التفات شاید ہمارے اجتماعی کردار کا لازمہ ہی بن گیا ہے۔
ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ فردوسی کے بعد اظہار کے مختلف النوع پیرایوں پر جو قدرت ہمارے یہاں میر انیس کو حاصل ہے، اُن کے سوا کوئی اور اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔
پھر یہ کہ مسلمانوں میں تہذیب سازی کا جس قدر بھی potential موجود تھا وہ اپنی نہائی سطح پر اودھ اور لکھنؤ کی تہذیبی تشکیل میں بروئے کار آگیا، جہاں مسلمانوں نے سماج کے جملہ تضادات کو برقرار رکھ کر ایک تہذیبی وحدت تشکیل دی اور اسے پورے رچاؤ کے ساتھ نباہ کر دکھایا۔
اس عظیم الشان تہذیبی تشکیل میں اگر کسی کا سب سے زیادہ کردار ہے تو وہ میر انیس ہیں۔
کسی بھی فکر اور نظریے کا اوجِ کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ تہذیب کی حیثیت اختیار کرلے یا ایک تہذیب کا جوہر بن کر ایک زندۂ جاوید حیثیت اختیار کرلے۔
فکر ایک جیتی جاگتی، زندۂ جاوید، روزمرہ میں برتی جانے والی تہذیب میں ڈھل جائے۔
کسی معاشرے کا اجتماعی وجود اس نظریے کوinternalize کرلے اور پھر وہ نظریہ معاشرے کے تہذیبی وجود میں خون بن کر دوڑنے لگے۔
ہمارے یہاں میر انیس نے یہ عظیم کارنامہ کامیابی سے کر دکھایا۔ انہوں نے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ عزاداری کو اودھ اور لکھنؤ کی تہذیب کا جوہر بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ تو شیعہ وہاں کے سنی بھی تعزیہ داری کرتے تھے اور اہلِ ہنود ماتم دار تھے۔
ہماری پوری شعری روایت میں اس سطح کی تہذیبی اثراندازی کسی کے حصے میں نہیں آئی جو میر انیس کا حصہ ہے۔ ہمہ گیر تہذیبی اثرات مرتب کرنے میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ اس ضمن میں اگر عالمی سطح پر ان کا تقابل ممکن ہے تو وہ صرف ہومر کے ساتھ!
ہومر کے بعد کوئی شاعر اس قدر ہمہ گیر تہذیبی اثرات مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو انیس نے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ مرتب کر دکھائے۔
اردو، اودھ اور لکھنؤ کی تہذیب اگر ایک درخت ہے تو اس کی غذائیت اور آبیاری کا سب سے بڑا ذریعہ میر انیس ہے۔ پس اگر شجرِ تہذیب انیس سے غذائیت لینا چھوڑ دے تو مرجھا کر سوکھ جائے گا، سوکھ کر جل جائے گا، جل کر راکھ ہوجائے گا، اور راکھ زمانے میں یہاں، وہاں اڑتی پھرے گی۔
ہماری تہذیبی تاریخ میں میر انیس اُن شخصیتوں میں شامل ہیں کہ جنہیں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ زمانہ ماقبل انیس اور زمانہ ما بعد انیس کا اجمالی سا ہی تقابل کیجیے:
وہی اودھ ہے، وہی شاعری ہے، وہی ثقافت، وہی رسم و رواج، وہی تہذیبی اوضاع… مگر آپ کو ایک واضح فرق نظر آئے گا۔ سماجی علوم اور عمرانیات کے طلبہ کے لیے اس فرق میں مطالعے اور تحقیق کے بہت سے موضوعات مضمر و پنہاں ہیں۔
باقی چھوڑیے، صرف عزاداری کو ہی لیجیے تو یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
غرض یہ کہ اگر میر انیس نہ ہوتے تو شاید ہند مسلم تہذیب کے لیے اس کا اوجِ کمال ناممکن الحصول تھا۔
لہٰذا آج اگر ہم اپنے تہذیبی زوال کے تدارک کے لیے کوئی کاوش کرنا چاہیں تو میر انیس کے بغیر ایسی ہر کوشش نامکمل رہے گی۔
بات طویل ہوگئی، عرض یہ کرنا تھا کہ فروغِ مرثیہ کی ایسی ہی ایک کوشش میں ہمارے دوست کاظم ناصری سرگرم عمل ہیں۔ میر انیس سے ان کا عشق اور ان کی محبت و مودت اس درجے کی ہے کہ اس کے سامنے ہماری سہل انگاری اور بہانے بازی کو ہمشہ ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی اس ناکامی پر خوش ہیں۔
کاظم ایک باغ و بہار شخصیت ہیں، ان کے دم قدم سے لاہور میں ایک چھوٹا سا لکھنؤ آباد ہوگیا ہے، خدا اسے دائم آباد ہی رکھے۔