برطانوی انتخابات اور مسلمان

مسلمانوں کو اندر سے دوبارہ تقسیم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔

برطانوی الیکشن میں 23 مسلمان اراکین کی جیت نے نہ صرف تبدیلی کا رخ متعین کیا ہے بلکہ مسلمان ووٹرز نے پہلی بار اپنا ووٹ بحیثیتِ مجموعی لیبر پارٹی کے خلاف استعمال کیا۔ لیبر پارٹی کو مسلمان ووٹرز نے براہِ راست پانچ نشستوں پر شکست دی جس سے یہ بہت حد تک واضح ہے کہ مسلمان اب اپنی صفوں کو مرتب کررہے ہیں۔ برطانیہ میں موجود مسلمانوں کی پہلی نسل کا تعلق مزدور طبقے سے تھا جو کہ اچھے معیارِ زندگی کے لیے یہاں آئے اور برطانوی صنعتوں میں بطور مزدور کام کرتے رہے۔ اس وجہ سے انہیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نہ تھا، لیکن جو کام اس پہلی نسل کے مسلمانوں نے کیا وہ برطانیہ کے طول و عرض میں مساجد کا قیام ہے، یہ وہ بنیادی کام تھا جس کی وجہ سے برطانیہ میں مسلمانوں نے بطور مسلمان نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھا بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اسلام کو بحیثیت نظامِ زندگی اپنانے کی ترغیب دی۔ پہلی نسل کے مسلمانوں کا تعلق پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش سے تھا جو برطانیہ میں آباد تو ہوگئے لیکن ان کے درمیان وطنی قومیت کی بنیادیں برقرار رہیں۔ اس کے علاوہ مسلک و فرقے کی بنیاد پر بھی مساجد کی تقسیم مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرتی رہی۔ اس پر بھی بس نہ ہوا تو ذات برادری کے جھگڑے بھی برصغیر سے یہاں در آئے۔ اس کو مسلمانوں کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ رواں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان میں بین الاقوامی قوتوں کی براہِ راست شرکت نے شاید برطانیہ کے مسلمانوں کو بحیثیت امت سوچنے کا پہلا موقع فراہم کیا، کہ جہاں ان کو رنگ، نسل، زبان و مسلک کے بجائے صرف مسلمان کے نام سے جانا پہچانا اور مختلف قسم کی نفرتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اسلاموفوبیا کی لہر نے مغرب کے مسلمانوں کی شناخت کی بازیافت کے سفر میں جس عمل انگیز کا کردار ادا کیا ہے وہ بے مثال ہے۔

نائن الیون کے بعد سے برطانیہ کے مسلمانوں میں ایک خوف کی فضا تھی، لندن دھماکوں کے بعد اس خوف میں مزید اضافہ ہوا۔ اس خوف میں رہنے والے مسلمانوں کو معاشرے میں ایک عجیب المیے کا سامنا کرنا پڑا کہ جہاں نفرت اور انتقام کی آگ چہار جانب موجود تھی، ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیا گیا اور اسلام کو بالعموم بطور دہشت گرد مذہب پیش کیا گیا۔ اس پورے تناظر میں جو نسل پروان چڑھی اس نے اپنے طور پر دین کو سمجھنے اور معاشرے میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دینے کے لیے علم کا راستہ اپنایا اور دلیل کی بنیاد پر ان الزامات کا جواب دیا۔ اب یہ تیسری نسل اسی مکالمے کا حصہ ہے جو مغرب میں جاری ہے، اور اِس مرتبہ یہ نسل آگے بڑھ کر دفاع کے بجائے اقدام پر یقین رکھتی ہے، یعنی قانون کے دائرے میں رہ کر اسلام پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کے بجائے مغرب سے اُس کے سیاہ کارناموں پر بازپرس کی جائے۔ یہی معاملہ امریکہ میں سیاہ فام نسل کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف تحریک کا محرک بن گیا کہ جس کو Black live Matters کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ گوکہ پوری دنیا اس کو post Decolonization کے نام سے جانتی ہے اور اس پر دنیا میں تحقیقات کی جارہی ہیں کہ کس طرح علم و نصابِ تعلیم میں شامل کالونیل دور کے مواد کو خارج کرکے ایک ایسا نصاب و علم تیار کیا جائے جوکہ تمام نسلی امتیازات سے پاک ہو۔

کم و بیش یہی کام مغرب میں مسلمانوں کی تیسری نسل کررہی ہے، لیکن وہ یہ کام کسی خاص نسل، رنگ یا فرقے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی مسخ شدہ شکل جو کہ مغرب میں پیش کی گئی، اس کے بجائے اسلام کا اصل چہرہ پیش کرنے کے لیے کررہی ہے۔ یہ کام دو بنیادوں پر جاری ہے، ایک علمی دوسرا سیاسی۔ علمی طور پر مسلمان اپنے طور پر انفرادی یا کسی حد تک کسی گروپ کی صورت میں دہشت گردی کے الزامات کا جواب عقلی و نقلی دلیلوں کے ساتھ جب دیتے ہیں تو دوسری جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں بن پاتا۔ یہ صورتِ حال غزہ کے معاملے میں رہی اور پورے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب کوئی نہیں دے پایا۔ گویا جو مسلمان کل تک سوالات کی زد میں تھے وہ آج ان ہی بنیادوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہ بہت بنیادی تبدیلی ہے جس نے برطانیہ کے مسلمانوں کو بڑا حوصلہ دیا، اور عمومی طور پر مسلمانوں کی بات کو سمجھا گیا اور ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اب برطانوی معاشرے میں موجود ہے۔ دوسرا سیاسی کام یہ ہوا کہ مسلمانوں نے غزہ کے معاملے پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوکر ازخود اپنی راہ متعین کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ یہ پہلی کاوش تھی اور پیچھے کوئی بنیادی تنظیم موجود نہیں تھی لہٰذا اس میں کہیں نہ کہیں کمی ضرور رہی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں نے بہت بڑی تعداد میں کسی رنگ، نسل، ذات و برادری کے بجائے غزہ کے معاملے پر یا یوں کہیں بطور مسلمان اپنے بنیادی نظریات پر ووٹ دیا۔

مسلمانوں کی اپنے نظریے کی بنیاد پر ووٹ کی بازگشت اب چہار جانب ہے اور کچھ عناصر اس کو معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم قرار دے رہے ہیں۔ لیکن سیکولر جمہوریت میں آپ کسی کو کسی خاص جماعت کو ووٹ دینے کا پابند نہیں کرسکتے اور ہر فرد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں آزاد ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ حکمران جماعت لیبر پارٹی گوکہ وہ جیت گئی لیکن مسلمانوں کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے وہ اب فرنٹ لائن پر مسلمان وزرا کو لا رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں دو اہم ترین وزارتیں وزارتِ قانون شبانہ محمود، اور وزارتِ کمیونٹی واجد علی کے حوالے کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سابق وزیر کمیونٹی مائیکل گوو نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے برطانیہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم مسلم کونسل آف بریٹن پر پابندی کا عندیہ دیا تھا اور شدت پسندی کی نئی تعریف متعین کرنے کے لیے تھنک ٹینک قائم کرنے کی قانون سازی کی تھی۔ اب یہ دونوں وزارتیں.. یعنی وزارتِ قانون کہ جہاں سے قانون سازی کی جائے گی اور وزارتِ کمیونٹی کہ جہاں سے سفارشات مرتب کی جائیں گی.. مسلمان وزراء کے پاس ہیں۔ یہ اقدام اس لیے کیا گیا تاکہ مسلمانوں کے غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ مسلم کونسل آف بریٹن نے ان دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک شاندار مہم چلائی جس میں مسلمان ووٹرز کو ابھارا گیا کہ وہ ووٹ دیں۔ اور برطانوی الیکشن میں اِس سال مسلمانوں کے ووٹ ڈالنے کی شرح بلند ترین رہی۔

یہ دونوں وزارتیں مسلمانوں کے پاس ہونے کا یہ قطعی مقصد نہیں کہ مسلمانوں اور اہم ترین افراد و تنظیموں کے خلاف کہ جنہوں نے غزہ پر آواز بلند کی ہے، کوئی کارروائی نہ ہو۔ بس اتنا ہوگا کہ اس کاطریقہ کار تبدیل کردیا جائے گا اور مسلمان جب خود مسلمانوں کے خلاف کارروائی کریں گے تو اس کو ایک خاص مذہبی عصبیت سے نہیں دیکھا جاسکے گا۔

اس ضمن میں مسلم کونسل آف بریٹن کے اثر کو محدود کرنے کے لیے اب برطانوی حکومت کی جانب سے اس کے متبادل فورم مسلم لیڈرشپ کونسل کو مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ کے سابق فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف جنہوں نے فلسطین کے حق میں تاریخی مہم جوئی کی اور ان کی جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی کی جنگ بندی کی قرارداد بالآخر برطانوی ہاؤس آف کامنز میں منظور ہوئی، ان جرائم کی پاداش میں ان کے خلاف ایک نیا مقدمہ بنایا جارہا ہے جس میں الزام یہ ہے کہ حمزہ نے بطور فرسٹ منسٹر غزہ میں امدادی کارروائیوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کو ڈھائی لاکھ پاؤنڈ کی جو رقم دی وہ قواعد کی خلاف ورزی تھی۔ اس پر ایک مہم جوئی اسرائیل کے حامی میڈیا میں شروع کردی گئی ہے اور شاید جلد ہی حمزہ کے خلاف کوئی کارروائی بھی ہوجائے۔ اس کے علاؤہ حمزہ کے اسکاٹ لینڈ میں اثر کو توڑنے کے لیے لیبر پارٹی نے انس سرور جوکہ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے بیٹے ہیں، کو آگے کیا تاکہ مسلمانوں کو آپس میں ہی الجھایا جائے۔ موجودہ انتخابات میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کو اس وجہ سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ماضیِ قریب میں بھی لارڈ نذیر کے خلاف مقدمہ مسلمانوں کی جانب سے بنایا گیا تھا اور لارڈ نذیر اس مقدمے کی وجہ سے جیل میں ہیں۔

لہٰذا اس شاندار کارکردگی کے بعد مسلمانوں کو اندر سے دوبارہ تقسیم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس میں مسلک اور فرقے کے علاؤہ برادری کی بنیاد پر تقسیم اور مسلم لیڈرشپ پر شکوک پیدا کرنا شامل ہے۔ موجودہ برطانوی سیاست میں مسلمانوں کی کارکردگی کا چہار جانب چرچا ہے اور اب موجودہ حکومت اگر ان مسلمان اراکین کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی قانون سازی یا اقدامات کرے گی تو اس کا ردعمل بہت شدید ہوسکتا ہے۔

برطانیہ میں مسلم سیاست کی نئی جہت کا احیاء ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں پیدا شدہ اعتماد اور علم سے وابستگی مغرب میں مسلمانوں کو ایک قابلِ عزت مقام دلوانے کی کاوشوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ لیبر پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو اگر ساتھ لے کر چلے تو نہ صرف اس کے لیے آئندہ باقی نشستوں پر آسانی ہوگی بلکہ معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والے نفرت کا بھی خاتمہ ہوگا۔

اسکاٹ لینڈ کے سابق فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) حمزہ یوسف کو اہلِ غزہ کے حق میں آواز بلند کرنے پر نشانِ عبرت بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ 14 جولائی 2024ء کے اخبار سنڈے ٹیلی گراف میں حمزہ یوسف کی جانب سے بین الاقوامی امدادی تنظیم کو اسکاٹ لینڈ کی حکومت کی جانب سے 250000 پاؤنڈ کی رقم کی ادائیگی کو خلاف ِقانون قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ حمزہ یوسف نے یہ رقم غزہ کے مظلوموں کی امداد کے لیے قانونی طور پر بین الاقوامی ایجنسی کے حوالے کی تھی۔

آج کے ہی سنڈے ٹیلی گراف میں بلیک برن گریٹر مانچسٹر سے منتخب رکن اسمبلی عدنان حسین.. جوکہ غزہ کے حوالے سے لیبر پارٹی کو شکست دے کر منتخب ہوئے ہیں.. کے خلاف بھی دس سال پرانی تقاریر پر پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے اس سے قبل سلمان رشدی کو سر کا خطاب دینے اور اسرائیل کی مخالفت کرنے والے لارڈ نذیر کو بھی من گھڑت مقدمے میں جیل بھیجا جا چکا ہے۔