پروفیسر خورشید احمد ماہر اقتصادیات، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور اسلامک فائونڈیشن برطانیہ کے بانی چیئرمین، اور جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اسلام، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کے حوالے سے بہت سا کام کیا۔ دورانِ تعلیم سے اچھی اچھی کتب جمع کرنے کا شوق بھی رہا، اور طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کے پاس اچھی خاصی لائبریری رہی ہے اور اب بھی یہ شوق جاری و ساری ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ عالم اسلام کی اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین سے ان کے روابط گہرے رہے ہیں۔
’’اسلامی نظریۂ حیات‘‘ ان کی وسعتِ مطالعہ اور غیر معمولی فکر و نظر کا شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ آپ ملک کی نظریاتی بنیادوں کے استحکام کے لیے اہلِ علم کو ہر اہم موضوع پر زیادہ سے زیادہ فکری و تحقیقی مواد فراہم کرکے ان کی صحیح بنیادوں پر تربیت کا کام بھی سر انجام دیتے رہے ہیں۔
اب ان کی نئی کتاب ’’یادیں ان کی، باتیں ہماری… مسلم دنیا کے قائدین کے ساتھ میری یادیں‘‘ منصۂ شہود پر آئی ہے جس میں مسلم دنیا کے قائدین کے تذکرے موجود ہیں۔ یہ کتاب تحریکِ احیائے اسلام کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جس میں دنیائے اسلام کے مختلف خطوں میں اسلامی تحاریک کے سیاسی حالات، ابتلا، آزمائش، کارکنوں اور راہنمائوں کی استقامت اور قربانیوں، غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی خاموشی جیسے موضوعات پر فکر انگیز تجزیہ موجود ہے۔ اس حکایتِ عزیز میں عالم اسلام کی اُن شخصیات کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے اپنے اپنے خطوں میں باطل کے خلاف اسلام کی حمایت میں پھانسی کے پھندوں کو بھی چوما ہے اور باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ظلم کو سہا بھی اور عظمت اور عزیمت کے چراغ بھی روشن کیے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
’’بیسویں صدی کے آغاز میں مغرب کی مادی تہذیب اور بلاایمان دانش کے مقابلے میں امتِ مسلمہ کی راکھ کے ڈھیر سے کچھ چنگاریاں نمودار ہوئیں، جنہوں نے مغرب کی مادہ پرستانہ فکر کے مقابل آسمانی ہدایت کی روشنی میں، عصرِ حاضر کے جملہ مسائل کی تعبیر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان صاحبانِ فکر و نظر نے صدیوں سے بند اجتہاد کے دروازے کھولنے کی کوشش کی اور عہدِ حاضر میں اسلامی تعلیمات کی تشکیلِ نو کا بیڑا اٹھایا۔ اس شان دار احیائی جدوجہد میں علامہ محمد اقبالؒ، سید حسن البناؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام بہت نمایاں ہیں۔ اقبال نے شاعری کے ذریعے غلامی اور مایوسی کی شکار امت کو رجائیت کا پیغام دیا:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
جب کہ حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے نہ صرف اپنی نثری تحریروں میں اسلام کو ایک قابلِ عمل نظام زندگی کے طور پر پیش کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی فکر کی بنیاد پر تنظیم سازی کا تجربہ بھی کیا۔
اخوان المسلمون کی بنیاد 1928ء میں، جب کہ جماعت اسلامی کی بنیاد 1941ء میں رکھی گئی۔ زمینی فاصلوں اور باہم رابطوں کے فقدان کے باوجود فکری ہم آہنگی کے باعث یہ دونوں تحریکیں یک جان دو قالب کی صورت پوری دنیا میں احیائے اسلام کی لازوال جدوجہد میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ مشرق ہو یا مغرب… معلوم دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو جو اس فکر کی روشنی سے محروم ہو۔
آغازِ سفر سے ابتلا و آزمائش سے ان تحریکوں کا سامنا رہا۔ اس باب میں اخوان المسلمون، جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور مقبوضہ کشمیر کے قائدین اور کارکنان نے قربانی اور عزیمت کی جو مثالیں قائم کی ہیں، بلاشبہ وہ قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔
ساٹھ سال سے زائد عرصے پر پھیلے اس تحریکی، دعوتی اور تنظیمی سفر کے دوران میں اسلامی تحریکوں کے قائدین سے ملنے اور ساتھ کام کرنے کے مواقع میسر آئے، جو میری زندگی کا یادگار سرمایہ ہیں۔ اپنے اس تعلقِ خاطر کی بنیاد پر گزشتہ ساٹھ برسوں میں پاکستان اور عالمِ اسلام کی اہم شخصیات کی وفات پر ان سے اپنے تعلق اور ان کی عظیم تر خدمات کے بارے میں خاکے لکھے ہیں، جو اُن سے میرے تعلق کے ساتھ ساتھ اُن کی علمی، ادبی، سیاسی اور تحریکی خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔‘‘
جناب خالد رحمن چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ’’تعارف‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت ہمہ گیر ہے۔ ملک و قوم کے مسائل ہوں یا عالمی سیاست اور تہذیبی کش مکش… عالمی اسلامی تحریک کے ایک راہنما کی حیثیت سے ان کی خدمات کا دائرہ کم و بیش سات عشروں پر پھیلا ہوا ہے۔ دوسری جانب علم و تحقیق کی دنیا میں بھی وہ ایک ایسے بلند مقام پر فائز ہیں جس کا موازنہ کم ہی لوگوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ سماجی علوم میں فلسفۂ حیات اور معاشرت کے مسائل ہوں یا اقتصادیات، سیاست اور آئین و قانون کے معاملات… انہوں نے ہر دائرے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔ علمی و عملی دائرے میں اس قدر تحرّک، سرگرمی اور مقام کے نتیجے میں ان کا رشتہ و رابطہ ایسے بے شمار لوگوں سے ہوتا رہا ہے جو خود بھی اپنے اپنے میدان میں غیر معمولی کردار کے حامل رہے۔ ’’یادیں ان کی، باتیں ہماری‘‘ ایسے ہی کچھ لوگوں کے بارے میں پروفیسر خورشید احمد کی تحریروں پر مشتمل سلسلے کا نام ہے۔ یہ تحریریں اس معنی میں بے ساختہ ہیں کہ یہ بالعموم ان غیر معمولی شخصیات کی وفات پر لکھی گئی ہیں۔ ان میں شامل پہلا مضمون 1992ء کا ہے، جبکہ آخری مضمون 2022ء میں شائع ہوا، یوں یہ کم و بیش تین عشروں کے دورانیے پر محیط ہیں۔‘‘
اس کتاب کی پہلی فہرست میں جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں ان پُرعزیمت شخصیات کا تذکرہ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭مولانا سعد الدینؒ، مجاہد الاسلام قاسمیؒ، سید ابوالحسن ندویؒ (علی میاں)، حکیم غلام نبیؒ، مجاہد الاسلام قاسمیؒ، فاضل محمد نورؒ، محمد ایوب ٹھاکرؒ، فضل الرحمٰن آفریدیؒ، محمد افضل گوروؒ، عبدالقادر ملاؒ، ابوالکلام محمد یوسفؒ، مطیع الرحمٰن نظامیؒ، سید علی گیلانیؒ، ٭سید جلال الدین عمریؒ، نجات اللہ صدیقیؒ
اس کتاب کی دوسری فہرست میں عالمِ عرب اور مشرق وسطیٰ کی اُن شخصیات کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے عظمت کے پہاڑ کی بلندیوں کو چھوا۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حسن البناؒ، مصطفیٰ احمد زرقاؒ، مصطفیٰ مشہورؒ، مامون الہضیبیؒ، ابوبدر عبداللہ علی الطوّعؒ، ٭ احمد العسالؒ، نجم الدین اربکانؒ، محمد قطبؒ، محمد مرسیؒ، یوسف القرضاویؒ
اور آخری باب ’’ہر ملک، ملکِ ماست‘‘ میں ان شخصیات کا تذکرہ جلیل ہے: اسماعیل راجی الفاروقی، محمد اسدؒ، محمد حمید اللہؒ
ان عظیم شخصیات کے دنیا سے چلے جانے کے باوجود ان کی یادوں کی خوشبو ان سے وابستہ ہر شخص کے دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے۔ عظیم شخصیات کا انتقال یقیناً ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارا قیام بھی اِس دنیا میں عارضی ہے اور ہمیں بھی جلد اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے، جس کی بارگاہ میں جاکر ہمیں اپنے اعمال کے حوالے سے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ لہٰذا ہمیں اس فانی دنیا میں اپنے دل کو اس انداز میں نہیں لگانا چاہیے کہ ہم اپنی موت کو فراموش کردیں۔ ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہیے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہوگیا وہ حقیقی کامیابی حاصل کرگیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان عظیم شخصیات کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں بھی اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔