مخصوص نشستیں اور عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ مفاہمت اور مکالمہ کی ضرورت

جیسے مخصوص نشستوں کے سلسلے میں غلطی درست کی گئی ہے اسی طرح 8 فروری کے انتخابات سے متعلق غلطیاں بھی درست کرنا ہوں گی

سپریم کورٹ کے 13 رکنی لارجر بینچ کا مخصوص نشستوں پر8/5 سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ تاریخی ہے۔ اس فیصلے سے عملاً ایک بڑی سیاسی اور قانونی غلطی درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو8 فروری 2024ء کے انتخابات سے ایک بڑی جماعت کو باہر رکھنے، اسے انتخابی نشان سے محروم کرنے، انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہ دینے، عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے اور عوامی مینڈیٹ کے بجائے اپنی مرضی اور منشا کی بنیاد پر حکومت سازی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ عوام نے مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، مگر نہ تو اس کے مینڈیٹ کو قبول کیا گیا اور نہ ہی اسے مخصوص نشستیں دی جارہی تھیں۔ اس کے بجائے یہ نشستیں جو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بنیاد پر 77کے قریب بنتی تھیں، ایک خاص سیاسی حکمت ِعملی کے تحت الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین میں بانٹ کر اسے عددی برتری سے محروم کردیا تھا۔ اس سارے عمل میں عدالتوں سمیت الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی مخالفت میں استعمال کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے اپنی مخصوص نشستوں کو یقینی بنانے کے لیے ایک حکمتِ عملی سنی اتحاد کونسل میں اپنے ارکان کی شمولیت کی بنیاد پر بھی اختیار کی، مگر اس کا بھی کوئی سیاسی حل نکالنے کے لیے الیکشن کمیشن تیار نہ تھا۔ اسی لیے جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو تین رکنی بینچ کے بجائے اسے فل کورٹ میں تبدیل کیا گیا۔ ایک خاص مقصد کے تحت کوشش کی گئی کہ اس مقدمے میں جتنی بھی تاخیر کی جاسکتی ہو، کی جائے تاکہ فیصلہ جلدی نہ آسکے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں یہ فیصلہ کرکے اسے دوتہائی اکثریت والی حکومت بنادیا تھا، اور خیال تھا کہ حکومت ان مخصوص نشستوں کو اپنی طاقت بناکر ایسی قانون سازی کرنا چاہتی ہے جو اس کو سیاسی فائدہ دے سکے اور اس کے سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچایا جاسکے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے۔ عدالت اور مخصوص ججوں پر بہت زیادہ دبائو تھا، اور یہ دبائو محض ججوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے گھر والوں اور اہلِ خاندان پر بھی تھا۔ ججوں کو باقاعدہ دھمکیاں دی گئیں جس پر ججوں نے تحریری طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی لکھا کہ ان پر نہ صرف دبائو ہے بلکہ انہیں آزادانہ فیصلے کرنے سے روکا جارہا ہے اور عدالتی عمل میں مداخلت کی جارہی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں عدالتی نظام کو ماضی کی طرح نظریۂ ضرورت کے تحت کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمومی طور پر عام لوگوں سمیت سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور طاقت ور حکمران عدلیہ اور ججوں سے ایسا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو ان کے مفادات کو تقویت دے سکے۔ لیکن یہاں داد دینی ہوگی کہ سپریم کورٹ کے زیادہ ججوں نے تمام تر دبائو اور دھمکیوں کے باوجود ایک ایسا فیصلہ کیا جو عملی طور پر حکمرانوں یا طاقت ور طبقوں کو پسند نہیں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بنیاد بناکر مسلم لیگ ن کی جانب سے ججوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ اس فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس جماعت کو انتخابی نشان کی بنیاد پر انتخابی عمل سے بطور جماعت باہر رکھنا بھی درست فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا تو مخصوص نشستوں کی بھی وہی حق دار بنتی ہے۔ اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا۔ تحریک انصاف کو پندرہ دن میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع کرانے، ارکان سے پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دینے اور الیکشن کمیشن کو پارٹی وابستگی کی تصدیق کے لیے سات دن کی مہلت دی گئی ہے۔ حکمران طبقے کے بقول تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے وہ ریلیف ملا ہے جو اس نے مانگا ہی نہیں تھا، اور ان کے بقول عدالت کا فیصلہ سیاسی اور مبہم ہے جو سیاسی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ حکومتی مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے جان بوجھ کر ایک سیاسی جماعت کی حمایت کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا 8 فروری کے انتخابات میں لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیا؟ اورکیا اُس کے ارکان آزاد حیثیت میں نہیں جیتے تھے؟ اور اگر جیتے تھے تو کیا مخصوص نشستیں ملنا ان کا حق نہیں تھا؟ اس پورے عمل میں سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ جس میں پی ٹی آئی سے اُس کا انتخابی نشان بلا چھینا گیا اور عملاً اسے بطور جماعت انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا جس میں مجموعی کردار الیکشن کمیشن کا تھا، وہی سیاسی بحران کا سبب بنا ہے۔ آج بھی جو سیاسی بحران ہے اس کا تعلق براہِ راست اُن فیصلوں سے ہے جن کے تحت پی ٹی آئی کو انتخابی اور سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ جن لوگوں نے مخصوص نشستوں کے مقدمے کی کارروائی دیکھی اور سنی ہے انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ فیصلہ کسی بھی صورت میں حکومت یا الیکشن کمیشن کے حق میں نہیں آئے گا۔ خود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کو بھی ججوں کی جانب سے کوئی قبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ چیف جسٹس اس پورے عمل میں تنہائی کا شکار ہوئے ہیں اورعدالتی کارروائی میں وہ باقاعدہ ایک فریق کے طور پر نظر آئے۔ اب سوال یہ نہیں کہ مخصوص نشستوں کے حصول کے بعد پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں برتری ہوگئی ہے، بلکہ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد کیا پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی حکمت عملی مزید کامیاب ہوسکے گی؟ کیونکہ اس عدالتی فیصلے کے بعد پی ٹی آئی پارلیمان سمیت میدانِ سیاست میں بھی اہم ہوگئی ہے اور اس فیصلے نے پارٹی کو نئی سیاسی آکسیجن فراہم کی ہے۔ اس فیصلے سے حکومتی سطح پر دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر آئینی ترامیم کے عمل کو نقصان پہنچا ہے، اور اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور جو بیانیہ حکومت یا پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین نے عمران خان یا پی ٹی آئی کے خلاف بنایا تھا وہ بھی بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس فیصلے سے اسٹیبلشمنٹ، چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور حکومت کو بڑا سیاسی دھچکہ لگا ہے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ کیا عدالت کے اس فیصلے کو حکومت، اتحادی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ قبول کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے، یا اسے اپنی شکست سمجھ کر نئی منفی حکمت عملی ترتیب دی جائے گی؟ اصولی طور پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہر سطح پر قبول ہونا چاہیے اور اسی کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مفاہمت اور مکالمے کی بنیاد پر ہی بات کو آگے بڑھانا خود ان کے بھی مفاد میں ہوگا،کیونکہ اگر اس فیصلے کو قبول نہ کیا گیا اور مزید منفی حکمت عملیاں اپنائی گئیں تو ان کے نتائج بھی سیاسی و قانونی دونوں محاذوں پر مزید نئے مسائل کو جنم دینے کا سبب بنیں گے۔ اس لیے عدالت کے اس فیصلے کو کسی کی فتح اور کسی کی شکست کی بنیاد پر نہ دیکھا جائے، بلکہ اس فیصلے کو بنیاد بناکر تمام فریق آگے بڑھیں، یہی ہماری ریاست کے مفاد میں ہے۔ جو لوگ بھی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو نئی حکمت عملی کے تحت مزاحمت کا مشورہ دے رہے ہیں وہ ان کے لیے حالات کو اور زیادہ خراب کریں گے۔ کیونکہ اب یہ بات اچھی طرح سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کے حالات اور طاقت کے مراکز میں بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے۔ لوگ سوالات بھی کررہے ہیں اور اس کا ردعمل بھی ان میں بہت سخت ہے۔ عدالتوں کو بھی احساس ہے کہ اگر انہیں اپنی خودمختاری کو یقینی بنانا ہے تو اپنے فیصلوں میں نظریۂ ضرورت کے بجائے شفافیت کا عمل پیدا کرنا ہوگا۔ جو کچھ بہت عرصے سے ہماری عدلیہ میں ہورہا تھا یا ہورہا ہے اس پر عدالت سمیت ججوں میں خاصا سخت ردعمل موجود ہے۔ سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت کے طور پر اپنا وجود رکھتا ہے اور یہاں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ ریاستی و حکمرانی کے نظام کو ہر محاذ پر چیلنج کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہے کہ جو کچھ بھی ملک میں ہورہا ہے وہ غلط ہے، اور وہ اس کی حمایت کرنے کے بجائے مزاحمت کررہے ہیں۔ یہ مزاحمت کمزور ضرور ہے مگر اس کے باوجود اہمیت رکھتی ہے۔ 8فروری کو بھی عوام نے اسی مزاحمت کی بنیاد پر ووٹ ڈالے تھے، اور جب ووٹ کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کو تسلیم نہیں کیا گیا تو لوگوں میں اس کا ردعمل نظر آتا ہے۔ اس لیے بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا نظام تبدیل ہورہا ہے اور یہ عمل آہستہ آہستہ اپنا سیاسی رنگ بھی دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں اور جس طرح سے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اس پر بھی لوگوں میں سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آخری نہیں بلکہ مزاحمتی سیاست کا یہ عمل سیاست اور ریاستی اداروں کے درمیان مزید دیکھنے کو ملے گا اور لوگ اپنی اپنی سطح پر سخت یا کمزور ردعمل دیتے رہیں گے۔

اب خبر آئی ہے کہ عدالت نے عمران خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست جو 8 فروری کے انتخابات کے پوسٹ مارٹم کی ہے، اسے قبول کرلیا ہے اور امکان ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے بعد اس پر کارروائی کا آغاز ہوگا۔ عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ سے دو ہی مطالبے کیے جارہے تھے۔ اول: 9مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل، اور دوم: 8فروری کے انتخابات کی تحقیقات۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان نے عملی طور پرچیف جسٹس پر عدم اعتماد کردیا ہے اورکہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے متعلق مقدمات سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ عمران خان کے سامنے دونوں چیلنج اہم ہیں جن میں سیاسی اور قانونی جنگ شامل ہے۔ قانونی جنگ میں بھی ان کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے اوربعض معاملات میں کافی شرمناک ہورہا ہے اس کا تعلق قانون سے زیادہ سیاست سے ہے۔ جو لوگ بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کو باہر نکال کر سیاسی نظام چلایا جاسکتا ہے وہ عملی طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان بھی دیگر سیاسی قوتوں کی طرح ایک بڑی سیاسی حقیقت ہیں اور ان کا مقابلہ بھی پس پردہ سازشوں یا عملاً طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی حکمت عملی سے ہی کرنا ہوگا۔ عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست اور قانون میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے، اوراس کو اگر بنیاد بنا لیا جائے تو ہم مستقبل کے مسائل کو بھی حل کرسکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے جو بھی سیاسی بندوبست نئی حکومت سازی کی صورت میں کیا تھا اصولی طور پر اِس فیصلے کے بعد وہ ناکام ہوگیا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے مسائل کا حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات کے نعرے کی بنیاد پر سامنے آئے گا۔ جیسے مخصوص نشستوں کے سلسلے میں غلطی درست کی گئی ہے اسی طرح 8 فروری کے انتخابات سے متعلق غلطیاں بھی درست کرنا ہوں گی، اور اس کا ایک ممکنہ حل اگلے برس نئے عام انتخابات ہیں۔ لیکن منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے نئے رولز آف گیمز تیار کرنے ہوں گے، اور یہ کام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اسٹیبلشمنٹ یا حکومت اس نکتے پر بضد رہتی ہے کہ اس سیاسی بندوبست اور حکومت کو اپنی پانچ برس کی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے اور عمران خان سمیت سب اس حکومت کو جائز حکومت قبول کرلیں تو یہ ممکن نظر نہیں آتا، اور اس بنیاد پر سیاسی بحران بدستور جاری رہے گا۔ اس بحران سے صرف سیاست ہی خراب نہیں ہوگی بلکہ معیشت سمیت سیکورٹی کے نظام کو بھی عملی طور پر دھچکہ لگے گا۔ اس لیے طاقت ور حلقے اس عوامی مزاحمت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسا کچھ کرنے سے گریز کیا جائے جو ریاستی بحران مزید بڑھانے کا سبب بنے۔ کیونکہ لوگ اب روایتی اور فرسودہ سیاست اور اس سے جڑے فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔