معاشرے کے عروج و زوال کے لیے جو پیمانہ مقرر ہوگا ضروری نہیں کہ وہ کسی تہذیب کے عروج و زوال کے اندازے کے لیے بھی کفایت کرے۔
خودساختہ ڈاکٹر، مبارک علی نے پاکستان میں کم و بیش ایک ’’جید‘‘ مؤرخ کی حیثیت حاصل کرلی ہے، انھوں نے تاریخ کے موضوعات پر اتنی کتابیں لکھ ڈالی ہیں کہ اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والا انسان اتنی غلطیاں بھی نہیں کرسکتا۔
انھیں مسلمانوں کے سوادِ اعظم اور مسلمانوں کی تاریخ سے اتنی شکایتیں ہیں کہ ان کی تحریروں میں شکایتوں کے سوا کچھ اور تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی خوش بختی دیکھیے کہ انھیں اس روش سے نقصان کے بجائے فائدہ ہوا ہے۔ اس فائدے کا لبِ لباب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب مذکورہ روش کے باعث ایک Radical مؤرخ اور ایک Radical دانش ور سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اُردو کے علاوہ انگریزی میں بھی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قدرت رکھتے ہیں، تاہم ہمارے عزیز دوست طیّب زیدی کو ڈاکٹر صاحب پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ غلط انگریزی لکھتے ہیں اور اس طرح ان کی انگریزی تحریریں مافی الضمیر کے اظہار کے بجائے ’’معافی الضمیر‘‘ کے اظہار کا مظہر بن جاتی ہیں۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہ انگریزی آتی ہے اور نہ ہم ابھی تک اُردو ہی سیکھ سکے ہیں، چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں زبان و بیان کی خامیاں ہماری دل چسپی کے دائرے سے خارج ہیں، البتہ ان کے خیالات سے ہمیں ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ دل چسپی رہی ہے۔ آج کا یہ کالم اسی دل چسپی کا شاخسانہ ہے۔
اس شاخسانے کی وجہِ تسمیہ ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ڈاکٹر صاحب کی تحریر ہے۔ تحریر کا عنوان ’’زوال اور احیا‘‘ ہے اور حسبِ سابق یہ تحریر شکایتوں سے پُر ہے۔ تحریر پر گفتگو سے قبل ضروری ہے کہ تحریر کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدا میں ایک معروف لغت کے حوالے سے زوال کی تعریف بیان کی ہے جس کے مطابق زوال معاشرے میں ارتباط یا ہم آہنگی کے فقدان کا دوسرا نام ہے جس سے عمومی بدامنی پیدا ہوتی ہے، سیاسی طاقت ہوا ہوجاتی ہے، معاشرہ اقتصادی وسائل سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر طرف سماجی انتشار پھیل جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول پاکستانی معاشرہ اس تعریف کی بہترین مثال ہے۔
معاشرے کی اصطلاح استعمال کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب اچانک چھلانگ لگا کر تہذیب کی اصطلاح پر جا اترتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تہذیبوں کا عروج و زوال کوئی نئی بات نہیں ، یہ عمل ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ بقول ڈاکٹر صاحب کے، جو تہذیبیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں وہ تاریخ کے دائروی (Cyclic) تصور پر زیادہ یقین رکھنے لگتی ہیں اور تاریخ کے خطِ مستقیم میں آگے بڑھنے کے تصور (Linear) کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ نتیجہ یہ کہ ایسی تہذیبیں ماضی پرستی کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ماضی کا احیا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ان کے تمام مسائل کا حل بھی ہے۔
احیا کا تصور زوال پذیر قوموں کو اس لیے عزیز ہوجاتا ہے کہ انھیں کچھ بھی خلق کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی بلکہ وہ ماضی کے تصورات اور اداروں کی تشکیلِ نو کو کافی سمجھتی ہیں۔
ان خیالات کے اظہار کے بعد ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کے معاشرے کی خبر لی ہے اور فرمایا ہے کہ مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد یہ معاشرہ زوال پذیر ہے، اور اگرچہ اس معاشرے نے سلطنتِ عثمانیہ کی عظمت میں پناہ حاصل کی، تاہم سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برصغیر کا معاشرہ خود کو بے یارو مددگار سمجھنے لگا۔ تاہم برصغیر میں ایک نئی مملکت کے قیام کے تصور نے مسلمانوں کو کچھ امید دلائی تھی، تاہم نئی مملکت کا جو حال ہوا اس نے ماضی پرستی کے رجحان کو تقویت پہنچائی اور برصغیر کے مسلمان ابھی تک اس خیال میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں کہ انھوں نے اس سرزمین پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی ہے۔ پاکستان میں احیا کی تحریکیں اس ابتدائی مسلم معاشرے کے احیا کے لیے سرگرم ہیں جسے وہ مثالی سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح اسلام نے ابتدائی زمانے میں معاشرے کی قلبِ ماہیت کردی تھی اسی طرح مذہب آج بھی معاشرے کی قلبِ ماہیت کر سکتا ہے۔
احیا کی تحریکوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ تبدیلی یا تغیر کی مخالف ہیں اور انھیں نئے اداروں کے قیام اور نئی روایات قائم کرنے سے بیر ہے۔ وہ پرانے اداروں اور روایات کو ازسرنو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ احیا کی تحریکوں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کے نفاذ کے لیے طاقت کو ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اس کی بہترین مثال طالبان ہیں جو طاقت، خوف اور ہراساں کرنے کے عمل کو اپنے مقاصد کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔
پاکستان میں احیا کی تحریکیں ایران اور افغانستان سے متاثر ہیں اور وہ ان ملکوں کے تجربات کو اپنے یہاں دہرانا چاہتی ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ جو تہذیب ایک بار زوال پذیر ہوگئی اس کا احیا نہیں ہوسکتا۔ احیا کی تحریکوں کی مسلسل ناکامیوں سے معاشرے میں بے یقینی پیدا ہوتی ہے اور معاشرہ تھکا ماندہ دکھائی دیتا ہے۔ ایسے معاشرے کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ ماضی کے بوجھ کو اتار پھینکے اور نئی ابتدا کے لیے نئے تصورات اختیار کرے۔
یہ ڈاکٹر مبارک صاحب کے مضمون کا تفصیلی خلاصہ ہے جو ہم نے اس لیے پیش کیا ہے کہ تمام اہم نکات کا احاطہ ہوجائے۔ ممکن ہے کسی جگہ ان کے خیالات کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی نہ ہوئی ہو، لیکن اس بات کو کسی اور چیز کے بجائے ہمارا عجز سمجھنا چاہیے۔ بہرحال آئیے اب ڈاکٹر صاحب کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اس تجزیے کے سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ مبارک علی صاحب نے زوال اور احیا کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ محض الفاظ نہیں ہیں، ان کی حیثیت تصورات کی ہے، اور تصورات کا تعلق براہِ راست طور پر پیمانوں اور معیارات سے ہوتا ہے۔ مثلاً جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فلاں قوم عروج پر ہے یا فلاں قوم کو زوال ہوگیا تو سوال یہ ہے کہ یہ بات کس پیمانے کی رُو سے کہی گئی؟ ڈاکٹر مبارک کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے عروج وزوال اور احیا کے الفاظ استعمال کرکے انھیں ہر تہذیب پر یکساں طور پر منطبق کردیا۔ حالانکہ مبارک علی صاحب نے مغرب میں مرتب ہونے والی جس لغت سے زوال کی تعریف برآمد کی ہے، اس کے مرتبین نہ سہی ان کے بھائی برادر سہی… یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ دنیا کی تمام تہذیبوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں، اس لیے کہ تہذیبی تنوع ایک حقیقت ہے۔
فی زمانہ اقتصادی وسائل کو عروج و زوال کے پیمانے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقتصادی وسائل محض اقتصادی وسائل نہیں ہیں، بلکہ اس تصور میں وسائل پیدا کرنے والے تمام آلات اور ذرائع بھی شامل ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں اقبال نے بہت پہلے ایک بات کہی تھی، انھوں نے کہا تھا:
سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ کم از کم مسلمانوں کی تاریخ میں اس پر اجماع ہے کہ جس چیز کو مسلمانوں کا زوال کہا جاتا ہے اس کا بے زری سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ امر کوئی راز نہیں کہ معاشرے اور تہذیب کی اصطلاحوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن مبارک علی صاحب نے اپنی تحریر میں اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ وہ پاکستانی معاشرے کے زوال کا ذکر کرتے کرتے اچانک برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اچانک اسلامی تہذیب کے زوال کی بات کرنے لگتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی معاشرے میں اسلامی تہذیب کا حصہ ہے، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ کسی تہذیب کا کوئی گوشہ رو بہ زوال ہو، مگر وہ تہذیب رو بہ زوال نہ ہو۔ پھر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ معاشرے کے عروج و زوال کے لیے جو پیمانہ مقرر ہوگا ضروری نہیں کہ وہ کسی تہذیب کے عروج و زوال کے اندازے کے لیے بھی کفایت کرے۔
یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ مبارک علی صاحب نے برصغیر کے معاشرے کو زوال آمادہ قرار دیا اور کہا کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ کی عظمت میں پناہ حاصل کیے رہا مگر جب سلطنتِ عثمانیہ زوال پذیر ہوگئی تو برصغیر کا مسلم معاشرہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرنے لگا۔ یہ بات ہوسکتا ہے کہ اپنی جگہ درست ہو… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مبارک علی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ نئی مملکت کے قیام کے تصور نے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی امید پیدا کی۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرے کوزوال پذیر تسلیم کرلیا گیا اُس کے بارے میں یہ کیسے فرض کیا جاسکتا ہے کہ وہ نئی امید سے ہم کنار ہوگا؟ پاکستان کا جو بھی حال ہوا لیکن تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، یہ ایک نئی زندگی کا خواب تھا اور کوئی زوال پذیر معاشرہ اور کوئی مُردہ قوم نئی زندگی کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ بے شک مسلم لیگ خواص کی جماعت تھی لیکن تحریکِ پاکستان خواص کی نہیں بلکہ عوام کی تحریک تھی اور اس تحریک کی پشت پر مسلمانوں کا ماضی ایک اثر انگیز قوت کی حیثیت سے کام کررہا تھا، بلکہ یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تحریکِ پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل ایک اکائی بن گئے تھے اور اس بات کی توقع کسی زندہ قوم ہی سے کی جاسکتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مبارک علی صاحب کا یہ مفروضہ درست نظر نہیں آتا کہ برصغیر کا معاشرہ ایک زوال پذیر معاشرہ تھا۔ تاہم اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو پھر تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی توجیہ ناممکن ہوجاتی ہے۔
مبارک علی صاحب نے تاریخ کے دو تصورات کا بھی ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک تصور کا لبِ لباب یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ دائرے کی صورت میں حرکت کرتی ہے اور دائرے میں تہذیب احیا کے عمل سے گزرتی ہے، جبکہ تاریخ کے دوسرے تصور کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ خطِ مستقیم میں ہمیشہ آگے کی جانب سفر کرتی ہے اور اس میں دہرائے جانے کے عمل کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ مبارک علی صاحب کا کہنا ہے کہ جو تہذیب زوال پذیر ہوجاتی ہے وہ ماضی کی جانب دیکھتی ہے بلکہ ماضی پرست ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں فکری اور تاریخی اعتبار سے اتنی گمراہ کن ہیں کہ کسی سنجیدہ شخص سے ان کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تاریخ کا Cycle یا دائروی تصور دنیا کی تمام روایتی تہذیبوں یا مذہبی تہذیبوں کا مشترکہ تصور ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تمام مذہبی تہذیبیں اپنے عروج کے زمانے میں بھی اسی تصور کو درست تسلیم کرتی رہی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس تصور کا لازمی طور پر زوال سے کوئی علاقہ نہیں۔ مثلاً ہندوؤں کے یہاں چار ادوار کا تصور ہے: پہلا دور ست یُگ یعنی روحانی عروج کا دور ہے۔ دوسرا دور دواپریُگ ہے۔ اس دور میں روحانیت کم ہوجاتی ہے۔ تیسرا دور ترتیا یُگ ہے اور چوتھا دور کل یُگ یعنی مکمل عہدِ زوال ہے۔ تاہم تاریک عہد کے اختتام پر وقت کا ایک دائرہ مکمل ہوجاتا ہے، لیکن جس نکتے پر دائرہ مکمل ہوتا ہے وہیں سے ایک نیا عہد عروج شروع ہوتا ہے۔ یہ باتیں ہندوئوں نے اپنے عہدِ زوال میں اختراع نہیں کیں، بلکہ یہ ان کی مقدس کتابوں میں روزِ اوّل سے موجود ہیں۔ اسلام میں ختمِ نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دائرہ جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگیا۔ یہ اس تصویر کا ایک پہلو ہے… دوسرا پہلو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں دورِفتن سے متعلق کثرت سے احادیث موجود ہیں جن میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا ہوگا اور پھر اُس کے بعد کیا ہوگا… یہاں تک کہ دجال اور بعدازاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا اور ’’بہترین دور‘‘ پھر لوٹے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تصورات بھی مسلمانوں کی اختراع نہیں اور ان کا مسلمانوں کے نام نہاد عہدِ زوال اور اس کے تجربے اور احساس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں بہترین زمانہ عہدِ رسالت ہے۔ پھر عہدِ خلافت۔ پھر عہدِ ملوکیت اور کاٹ کھانے والی آمریت۔ اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کے ایک قول کے مطابق زمانہ ایک بار خلافت علی منہاج النبوۃ کی جانب جائے گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف جدید مغربی تہذیب ہی دنیا کی واحد تہذیب ہے جو تاریخ کو خط ِمستقیم میں آگے کی جانب بڑھتے دیکھتی ہے، لیکن یہ تصور ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے ماخوذ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلسل آگے بڑھنے کی بات میں دلکشی تو بہت ہے لیکن لوگ اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ آخر تہذیب کا کوئی اصلِ اصول بھی تو ہوگا۔ چنانچہ جو تہذیب مسلسل آگے بڑھ رہی ہے وہ اپنے اصلِ اُصول سے تو بہر حال دور ہوتی جا رہی ہوگی، اور جو تہذیب اپنے اصلِ اُصول سے دور ہوتی جارہی ہو اس کا تعلق بالآخر اصل اُصول سے منقطع ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بالآخر تاریخ اپنی جڑ بنیاد سے محروم ہوگئی… اور جو تاریخ اپنی جڑ بنیاد سے محروم ہو جائے اس کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے! جڑ سے محروم ہو کر تو درخت درخت نہیں رہتا محض لکڑی بن جاتا ہے۔ گھر گھر نہیں رہتا، ملبے کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخ بھی جڑسے محروم ہو کر تاریخ کیا رہتی ہوگی۔ لیکن مبارک علی ہوں یا ان جیسے دیگر لوگ، اس سوال پر غور نہیں کرتے۔
ہمارے ترقی پسند اور ریڈیکل دانشور کا رویہ اس اعتبار سے عجیب ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جو تہذیب زوال پذیر ہوجائے اس کا احیا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب قدیم یونانی تہذیب کا احیا ہے۔ جب اُن سے کہیے کہ اگر قدیم یونانی تہذیب کا احیا ممکن ہے تو پھر اسلامی تہذیب کا احیا کیوں ممکن نہیں؟ تو وہ تیزی سے پوزیشن بدلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب یونانی تہذیب کا احیا ضرور ہے لیکن اس کے اُصول نئے ہیں۔ یہ بات درست ہے یا ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس تہذیب کے اُصول نئے ہوں وہ کسی دوسری تہذیب کا احیا کیسے ہو سکتی ہے؟ مطلب یہ کہ اِس سرے سے اُس سرے تک پیچیدگیاں ہی پیچیدگیاں ہیں، ابہام ہی ابہام ہے اور غلط بیانیاں ہی غلط بیانیاں ہیں۔ اتفاق سے یہ ساری خوبیاں مبارک علی صاحب کی زیر بحث تحریر میں موجود ہیں، اس لیے کہ انھوں نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسلامی تہذیب کا احیا ممکن نہیں۔
مبارک علی صاحب نے احیائی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ تحریکیں نئے اداروں اور نئی روایات کے قیام کی مخالف ہیں اور ماضی کے اداروں کا احیا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بات محض ایک الزام ہے۔ اسلام میں تجدید کا تصور یہ ہے کہ زندگی کا دھارا کسی بھی وجہ سے حرکت کرتا ہوا اگر اصل اُصول سے دور نکل گیا ہے تو اسے از سرِ نو اصل اُصول سے مربوط کردیا جائے اور بس! اسلام میں اصل مسئلہ کسی چیز کی روح کا ہے، ہیئت کا نہیں۔ ہیئت بدل سکتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ ہی نہیں بلکہ یہ تو زندگی کی ضرورت ہے، لیکن روح یا اصل اُصول نہیں بدلنا چاہیے۔ اس لیے کہ روح بدل گئی تو پھر سمجھو کہ سب کچھ بدل گیا۔ اسلامی تاریخ میں اسلام نے ہمیشہ یہی کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کہاں کہاں نہیں پھیلا، لیکن اس نے مقامی تہذیبوں اور ثقافتوں کے ڈھانچے اور سانچے کو فنا نہیں کردیا بلکہ اس نے یہ کیا کہ کسی سانچے میں اپنی روح داخل کردی اور اسے جوں کا توں رہنے دیا، یا ضرورت پڑی تو اس سانچے میں معمولی ردو بدل کردیا۔ البتہ وہ چیزیں جو اس کے اصل اُصول کے یکسر خلاف تھیں، اسلام نے انھیں قبول نہیں کیا۔ پوری اسلامی تاریخ میں اکابرعلما کی غالب ترین اکثریت کا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے اور کوئی معروف تحریک ایسی نہیں جو اس مؤقف کے سوا کوئی مؤقف رکھتی ہو۔
مبارک علی صاحب نے احیا پسند تحریکوں پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ تبدیلی اور تغیر کی مخالف ہیں۔ یہ بات کئی اعتبار سے بڑی دلچسپ ہے۔
تبدیلی اور تغیر زندگی کی بنیادی حقیقت ہیں، لیکن تبدیلی منفی بھی ہوتی ہے اور مثبت بھی۔ تاہم مذکورہ فقروں میں تبدیلی کی بات اس انداز سے کہی گئی ہے کہ منفی اور مثبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف ’’ تبدیلی‘‘ سامنے رہ جاتی ہے، اور اس مجرد تبد یلی کو تقدس فراہم ہوجاتا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک احمقانہ بات ہے اور خالص عقلی نقطہ نظر سے بھی اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
جدید مغربی تہذیب کے جو اصل اُصول ہیں ان میں آزادی، جمہوریت، مساوات اور رواداری کے تصورات شامل ہیں۔ یہ تصورات مغربی دنیا کے لیے پیمانوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہاں ہر تغیر اور تبدیلی کو انھی پیمانوں کے ذریعے ناپا تولا جاتا ہے۔ جو تبدیلی ان پیمانوں کے مطابق ہولیکن مثبت نہ ہو ، اسے منفی قرار دیا جاتا ہے۔ اب تبدیلی تو یہ بھی ہوگی کہ امریکہ میں مارشل لا لگ جائے، لیکن امریکہ میں کون ہوگا جو اس تبدیلی کا خیرمقدم کرے گا؟ عجیب بات یہ ہے کہ مبارک علی صاحب اور ان جیسے لوگ ہر قوم اور ہر تہذیب کے بارے میں یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ اس کے کچھ پیمانے ہوں گے۔ لیکن انھیں مسلمانوں کے بارے میں کسی پیمانے کو تسلیم کرتے ہوئے وحشت ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے مجرد تبدیلی اور مجرد تغیر تجویز کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں طالبان کا بڑا ذ کر ہوا، اور اس ذکر کا ہدف یہ تھا کہ اہلِ پاکستان کو طالبان سے جتنا خوف زدہ کیا جا سکے، کیا جائے۔ اس ذکر میں طالبان کی مذمت ہوتی، اور اس کے ساتھ ہی یہ انتباہ کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں جس تبدیلی کی بات کرتی ہیں وہ یقینا طالبان کے تجربے سے مختلف نہیں ہوگی۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ سراسر ایک گمراہ کن بات ہے ، اس لیے کہ پاکستان اور افغانستان کے معاشرے میں بڑا فرق ہے۔ پاکستان کا معاشرہ اچھا ہو یا برا لیکن یہاں افغانستان کا تجر بہ بہرحال نہیں دہرایا جاسکتا اور یہ بات مذہبی جماعتیں بھی سمجھتی ہیں، لیکن اس کے باوجود مبارک علی صاحب نے اپنا مضمون ختم کرنے سے پہلے طالبان کا ذکر ضروری سمجھا۔ لیکن ان کے مضمون کا اختتام مسلمانوں کو دیے گئے اس مشورے پر ہوا ہے کہ ماضی کو بھول جائو ، نئے اصول اپنائو۔ تا ہم مبارک علی صاحب کو معلوم ہے مسلمان بہت ڈھیٹ ہیں، وہ سب کچھ بھول سکتے ہیں مگر ماضی کو نہیں۔ کیوں کہ ماضی کا مطلب ان کے لیے اصل اُصول ہے، اور اصل اُصول کو بھول کر مسلمان مبارک علی تو بن سکتے ہیں لیکن وہ نہیں بن سکتے جو وہ بننا چاہتے ہیں۔