حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” افضل جہاد جابر (ظالم) بادشاہ کے سامنے کلمہ عدل کہنا ہے یا ظالم امیر کے سامنے (کلمہ حق کہنا ہے)“
(سنن ابی داوُد ،جلد سوئم کتاب الملاحم :4344)
حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، کہا کہ ”میں بزدل اور کمزور ہوں“۔ آپؐ نے فرمایا: ”آئو ایسے جہاد کی طرف جس میں اسلحہ نہیں ہے، وہ حج ہے“۔ (طبرانی)
سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو۔……
اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی۔ آغاز کار میں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملک کے تمام ذرائع و وسائل‘ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ‘ ملک کے سارے نظامِ تعلیم‘ اور حکومت کی پوری انتظامی پالیسی کو اس غرض کے لیے استعمال کریں کہ مسلمانوں میں اسلام کا علم وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے اور ان کی عام اخلاقی حالت کو درست کیا جائے۔ جس قدر اسلام کا علم پھیلے گا اور عام اخلاقی حالت درست ہوتی جائے گی اتنی ہی زمین اسلامی نظام کے لیے تیار ہوتی چلی جائے گی۔
یہی چیز تھی جس کی ہم توقع رکھتے تھے کہ اگر انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ اس طریق کار کو اختیار کرے گی۔ ذرائع ابلاغ کی پوری طاقت عام مسلمانوں میں ایمان اور صحیح اسلامی اخلاق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گی۔ نظامِ تعلیم کو ایک اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کے کارکن اور شہری تیار کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ الحاد پیدا کرنے والی تعلیم کو بدلا جائے گا اور اس کی جگہ خدا پرستی کی تعلیم کو رائج کیا جائے گا۔ عام لوگوں کے اندر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان میں سے کوئی توقع بھی پوری نہیںہوئی۔ اگر اُس وقت حکومت اپنے تمام ذرائع و وسائل کو اِس کام کے لیے استعمال کرتی تو آج حالت بالکل مختلف ہوتی۔
اب ہمیں گویا بالکل نئے سرے سے کام کرنا ہے۔ بے شک اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کیجیے۔ قوانین اسلامی کو مدون بھی کیجیے تاکہ ہماری عدالتیں ان کے مطابق فیصلے کر سکیں۔ مگر بس یہی ایک کام ایسا نہیں ہے جس سے اسلامی نظام قائم ہو جائے۔
ذرائع ابلاغ کی اصلاح
سب سے زیادہ زور جس بات پر صَرف کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ابتدائی اور ثانوی مدرسوں اور ہمارے تمام کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اسلامی تعلیم دی جائے۔ ذرائع ابلاغ کو فحش اور بے حیائی‘ بداخلاقی اور جرائم پھیلانے کے بجائے مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی عقائد سمجھانے اور ذہن نشین کرنے پر صَرف کیا جائے۔ عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور کافرانہ اخلاق کیا اور دونوں قسم کے اخلاقوں میں فرق کیا ہے۔
اسلامی نظام تو قائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا‘ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی‘ پورے معاشرتی نظام کی‘ پورے معاشی نظام کی‘ پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اٹھائی گئی تھی۔ اب اگر ہم اس مثالی دور کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسی ترتیب سے پلٹنا چاہیے۔
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان‘ رسولؐ پر ایمان‘ قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات بنانے میں پولیس اتنی مہارت رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو چیلنج دے سکتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں کوئی جھوٹا مقدمہ بناکر دکھائے۔ گواہوں کا حال یہ ہے کہ عدالت میں جا کر صحیح گواہی دینا گویا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالت تو ہے ہی جھوٹی شہادت دینے کی جگہ۔
پولیس خود بھی جھوٹے گواہوں کا ایک پورا گروہ تیار رکھتی ہے۔ یہی دو چیزیں اگر نگاہ میں رکھی جائیں تو آپ اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے ہاں اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا‘ جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کر دیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔