ایک بنیادی نوعیت کا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد یا طاقت کے مراکز میں جاری لڑائی، سیاسی کشمکش یا سیاسی و مالی مفادات کی جنگ کو ہم کیسے عوامی مفادات کے حصول کی جنگ میں تبدیل کرسکتے ہیں؟ یہ بات پوری قوم کے سامنے واضح ہو چکی ہے کہ کا ہمارا سیاسی، حکمرانی اور ریاستی و انتظامی نظام عوام دشمنی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ عوام کو اس نظام میں مختلف نوعیت کے استحصال سے گزرنا پڑتا ہے۔ حالیہ بجٹ نے ایک بار پھر عام طبقات یا سفید پوش طبقے سمیت عام آدمی کو خاصا مایوس کیا ہے انہیں انتہائی سفاک اور بے رحم لہجے میں بتا دیا گیا ہے کہ موجودہ نظام میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ حکومت، حزبِ اختلاف، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت میڈیا کی لڑائی میں عام آدمی خود کو تنہا محسوس کررہا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ اس نظام میں اُس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
حالیہ بجٹ2024-25ء میں ٹیکسوں کی بھرمار نظر آتی ہے اور یہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے سمیت ہر اُس چیز اور فرد پر لگایا گیا ہے جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے، اس کا اعتراف وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی کیا ہے۔ اُن کے بقول ہم سمجھتے ہیں کہ نئے ٹیکسوں کی وجہ سے عام لوگ دبائو میں ہیں۔ لیکن اُن کے بقول موجودہ حالات میں یہ کڑوے فیصلے عوام کو برداشت کرنے پڑیں گے اور جیسے ہی موقع ملے گا ہم تنخواہ دار طبقے کو ہی ریلیف دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکمران طبقات کا سارا زور کمزور اور محروم طبقوں پر ہی کیوں چلتا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے گریز کیا جاتا ہے؟ اِس بجٹ کو دیکھیں، نہ تو طاقت ور طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے اورنہ ہی ریاستی و حکومتی سطح پر غیر ترقیاتی اخراجات، اپنے غیر ضروری خرچوں یا حکومتی سائز میں کمی کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک کمیٹی حکومتی سطح پر غیر ضروری اخراجات میں کمی کے حوالے سے بنائی گئی اورکہا گیا کہ اس کمیٹی کے فیصلوں کا اطلاق اسی بجٹ میں کیا جائے گا، مگر عملی طور پر ایسا نہ ہوسکا، اور اس کمیٹی کی سفارشات کو حسبِ معمول کمیٹی کے کھیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ کھیل حکومت کی دو اہم اتحادی جماعتوںکی سیاست کی صورت میں دیکھنے کومل رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی عملاً اس حکومت میں اتحادی کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے براہِ راست حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی، مگر حکومت کے اندر اختیارات کے حصول کا وہ شاندار کھیل، کھیل رہی ہے۔ دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں اس کی صوبائی حکومتیں، صدارتی منصب، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنرز، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر سمیت کئی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی مسلم لیگ ن کی مدد سے اس کے پاس موجود ہے، مگر اس حکومت کی مالی یا سیاسی مشکلات میں وہ حصے دار بننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک وقت میں حکومت اور دوسرے وقت میں اپوزیشن کے کردار کو سیاسی منافقت ہی کہا جاسکتا ہے۔ بجٹ پر بھی پیپلزپارٹی نے شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اورکہا کہ یہ تاریخ کا بدترین بجٹ ہے۔ لیکن اس بجٹ کو منظور کروانے میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنا حصہ خوب ڈالا ہے۔ پیپلزپارٹی کو احساس ہے کہ وہ اس وقت بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے اور مسلم لیگ ن پر دبائو ڈال کر وہ اپنے سیاسی کارڈ بہتر کھیل سکتی ہے۔ بہت سے لوگ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی اس سیاسی حکمت عملی کے قائل ہیں اور ان کے بقول پیپلزپارٹی سب سے زیادہ فائدے میں ہے۔ یہ تجزیہ درست ہے، مگر بادی النظر میں اگر پیپلزپارٹی کو دیکھیں تو وہ بھی ذاتیات پر مبنی سیاست کررہی ہے، اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کی قربانی دینے میں وہ بھی برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ ن کی مجبوری یہ ہے کہ اگر اسے اس سیاسی و حکومتی بندوبست کو چلانا ہے تو اُس کے پاس پیپلزپارٹی کی بلیک میلنگ کو قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں۔ مسلم لیگ ن میں ایک گروپ موجود ہے جو سمجھتا ہے کہ اس مشکل وقت میں پیپلزپارٹی کا رویہ مفاہمتی سے زیادہ مفاداتی ہے، اوروہ سمجھتے ہیں اس مفاداتی سیاست کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہی اٹھانا پڑرہا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ جب عوام کا معاشی قتل کیا جارہا تھا، پیپلزپارٹی عملاً ترمیم پیش کررہی تھی کہ ارکانِ اسمبلی کو اور زیادہ مالی مراعات دی جائیں۔
مفاداتی سیاست کا مظاہرہ ہمیں ایوانِ صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز کے سالانہ اخراجات میں اضافے کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے، جبکہ دوسری طرف مسلسل بجلی، گیس، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافے نے واقعی عام آدمی کو نڈھال کردیا ہے۔ طے شدہ یونٹ میں ایک یونٹ اضافے کی بنیاد پر لوگوں سے ہزاروں روپے اضافی لیے جارہے ہیں۔ اب ایک بار پھر پیٹرول کی قیمت میں 7روپے 45پیسے، جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 9روپے 56پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک بار پھر فی یونٹ بجلی کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ حکومت کی بہت بڑی سیاسی ڈکیتی ہے جو ریاستی و حکومتی نظام کی مدد سے عوام کے ساتھ کی جارہی ہے۔ اس بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی دس کلو آٹے کی قیمت میں سو روپے کا اضافہ کیاگیا ہے جس پر فلور ملز ایسوسی ایشن بھی اجتجاج کررہی ہے، جبکہ تاجر برادری نے بھی ہڑتال کی کال دے دی ہے، تعمیراتی سیکٹر کی ایسوسی ایشن نے بھی 15 جولائی کو ہڑتال کی کال دی ہے اور ان کے بقول بجٹ میں ٹیکس کی جو تجویز شامل نہیں تھی اسے بھی شامل کرکے تعمیراتی شعبے کو بری طرح خراب کیا جارہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو بھی ٹیکسوں کی بھرمار نے مفلوج کردیا ہے۔ کاروباری افراد بھی رونا رو رہے ہیں کہ ہمیں مارا جارہا ہے اور ان حالات میں پاکستان میں کاروبار کرنا یا سرمایہ کاری کرنا ممکن نہیں رہا۔ ہمارے ایک کامرس رپورٹر شہباز رانا جو معیشت کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اُن کا موجودہ معاشی صورتِ حال پر تبصرہ بڑا شاندار ہے۔ اُن کے بقول موجودہ حالات میں اگر کسی کے پاس کوئی آپشن موجود ہے تو اسے اِس ملک کو چھوڑنا ہوگا۔ تنخواہ اگر ملتی ہے تو کوشش کریں وہ آپ کو بینک کے بجائے کیش کی صورت میں ملے۔ اپنے سارے اثاثے یا پراپرٹیز کو ظاہر نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کو بھاری ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کوشش کریں خود کو ٹیکس نیٹ میں نہ لائیں، اور اپنی بقا کے لیے ملک میں موجود ایک طاقت ور گروپ یا مافیا کے ساتھ منسلک ہوجائیں۔ یہ ہیں ہماری معیشت کے حالات، اور ان حالات کی بنیاد پر خود کو فرار کرنے کا کھیل۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے یا لوگ سوچ رہے ہیں کہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ان حالات میں خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں اور اپنی ناکامی یا مفاداتی کھیل کا سارا ملبہ عام آدمی یا تنخواہ دار طبقے پر ڈالا جارہا ہے۔
بنیادی مسئلہ آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کا ہے، جب تک اس معاملے پر توجہ نہیں دی جائے گی عام آدمی کے معاشی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ کیونکہ جب ملک میں معاشی پہیہ ہی نہ چل رہا ہو اور ہم دوسروں کی محتاجی کی بنیاد پر معاشی نظام چلا رہے ہوں اور طاقت ور طبقے پر بوجھ نہ ڈالنے کی حکمت عملی ہو تو اس کا نتیجہ ایک بڑے انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ابھی تو بجٹ منظور ہوا ہے، اس بجٹ کی منظوری کے خطرناک اثرات اگلے چند ہفتوں میں قوم کے سامنے آئیں گے جب مزید معاشی بوجھ لوگوں پر ڈالا جائے گا، اور یہ معاشی بوجھ حکمرانوں کی سیاسی عیاشی کی صورت میں عام آدمی کو اٹھانا ہے۔ یہ ایک طبقاتی معاشی نظام ہے جس میں عام آدمی پر بوجھ ڈال کر طاقت ور طبقات کے مفادات کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں ہماری مجموعی طاقت ور اشرافیہ شریک دار ہے ان کے سامنے ریاستی، حکومتی اور عام آدمی کے مفادات اہمیت نہیں رکھتے، اور نہ ہی یہ معاملات ان کی سیاسی ترجیح کا حصہ ہیں۔ اس کھیل میں ہمیں سیاسی جماعتیں کہیں بھی عوامی مفادات کی بنیاد پر سرگرم نظر نہیں آتیں، اور وہ یا تو کہیں کھوگئی ہیں یا غیر اہم ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد کمزور ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں نے خود کو عوامی مسائل اور ان کے حل کی بنیاد پر نہ تو منظم کیا اور نہ ہی کام کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کو نظرانداز کرکے سیاسی طاقت کے کھیل کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس کھیل میں عوام کو نظرانداز کرکے طاقت ور طبقات کو خوش رکھنا اور ان کی خوشنودی کی بنیاد پر اقتدار کا کھیل کھیلنا ہی ان کی ترجیحات کا حصہ بن گیا ہے۔ آج جو کچھ عوام کے ساتھ ہورہا ہے سیاسی جماعتیں اور اُن کی قیادتیں عملاً ان معاملات پر لاتعلق نظر آتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ طاقت ور طبقات کے ساتھ ملنے میں ہی ان کی سیاسی بقا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام دشمنی پر مبنی پالیسی کا یہ کھیل بدستورجاری رہے گا اور حکمرانوںکے سامنے کوئی بڑی مزاحمت نہیں آسکے گی؟ کیونکہ حکمرانوں کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ایسا تقسیم کردیا ہے کہ ان میں اپنے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی جدوجہد کی اہلیت کا بھی فقدان ہے۔ لوگ شور تو مچاتے ہیں سوشل میڈیا پر، اور حکمرانوں پر سخت لعن طعن بھی کرتے ہیں لیکن نہ توباہر نکلنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی وہ کسی بڑی تحریک کو پیدا کرنے کے لیے سامنے آنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک اور المیہ سیاسی جماعتوں کی بے حسی بھی ہے، کیونکہ جب سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں خود باہر نہیں نکلیں گی تو لوگ خود کیسے باہر نکلیں گے! آج بھی جن حالات سے عام پاکستانی گزر رہا ہے اسے بہت مشکل دور کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر واقعی سیاسی اور معاشی نظام میں بنیادی نوعیت کی یا عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر کچھ بڑی تبدیلی لانی ہے تو یہ کام محض بیان بازی سے ممکن نہیں ہوگا، ہمیں مجموعی طور پر ریاستی و حکومتی نظام کو آئینی، قانونی اور سیاسی نظام میں رہتے ہوئے چیلنج کرنا ہوگا اور ان پر ایک بڑے دبائو کی سیاست کو پیدا کرنا ہوگا، اور یہ پیغام دینا ہوگا کہ موجودہ نظام اپنی سیاسی اورمعاشی ساکھ کھوچکا ہے اور اس نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائے بغیر عام آدمی کے حالات نہیں بدل سکتے۔اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کو نہ صرف چیلنج کرنا ہوگا بلکہ ان کو ہر محاذ پر جواب دہ بھی بنانا ہوگا۔کیونکہ نظام میں جو بھی خرابیاں ہیں وہ اسی طاقت ور اشرافیہ کی وجہ سے ہیں۔اشرافیہ کا یہ طبقہ اگر عام آدمی کو طاقت ور نہیں بنائے گا تو اس کا نتیجہ محرومی کی صورت میں سامنے آئے گا جو قومی سطح پر ایک بڑا سیاسی اور معاشی انتشار پیدا کرے گا جو ریاستی نظام کو مزید کمز ور کرنے کا سبب بھی بنے گا۔