بجٹ، عوامی مشکلات اور حکمران

قومی اسمبلی کا منظور کردہ 2024-25ء کا بجٹ صدر آصف علی زرداری کے دستخطوں کے بعد یکم جولائی سے نافذالعمل ہوچکا ہے۔ یہ بجٹ بین الاقوامی ساہوکار آئی ایم ایف کی ہدایات اور کڑی شرائط کا پلندہ ہے جس پر نواز لیگ کی حکومت نے انگوٹھا لگاکر اسے قوم پر مسلط کردیا ہے۔ بجٹ کے لاگو ہوتے ہی مہنگائی کی نئی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اشیائے ضروریہ و آسائش کی قیمتیں جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کررہی تھیں، اب نہایت تیز رفتاری سے مزید بلندیوں کی جانب گامزن ہیں۔ تکلیف اور پریشانی کا یہ پہلو نہایت اذیت ناک ہے کہ حکومت ،مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل پر قابو پانا جس کے بنیادی فرائض میں شامل ہوتا ہے، وہ اپنا یہ فرض ادا کرنے کے بجائے ازخود وہ جواز اور اسباب فراہم کررہی ہے جو جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں، چنانچہ حکومت نے ایک طرف جہاں بجٹ میں کئی نئے ٹیکس لگاکر اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے گرانی کو ہوا دی ہے، وہیں نئے مالی کے آغاز یعنی یکم جولائی سے بجلی، پیٹرول و ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے، جب کہ قدرتی گیس اور ایل پی جی کی قیمتوں ہی میں ناقابلِ برداشت اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی شدید قلت سے بھی بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ گیس کی عدم دستیابی کے سبب صنعتی و گھریلو صارفین شدید مشکلات سے دوچار ہیں، جب کہ پیٹرولیم ڈیلرز نے بھی ایڈوانس ٹیکس کے نفاذ کے خلاف کاروبار بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے، جس کا مطلب ملک بھر میں پہیہ جام کی کیفیت کے سوا کچھ نہیں۔ نواز لیگ کے اپنے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے موجودہ حکومت کے بجٹ کو تاریخ کا بدترین بجٹ قرار دیا ہے اور اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا، ٹیکس کا یکساں نظام نافذ ہونا چاہیے تھا مگر حکومت اپنے اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں، برآمد کنندگان اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈال کر معیشت کی ترقی کا راستہ روک دیا گیا ہے، حکومتی خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ حکمرانوں کے پاس عیاشیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو دکان دار حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں ان پر نصف فیصد، جب کہ غیر رجسٹرڈ تاجروں پر ڈھائی فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ٹیکس کی شرح جو بھی ہو، یہ بہرحال صارفین ہی پر بوجھ اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔ انہوں نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ارکانِ اسمبلی کو پانچ سو ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر دینے کا کیا جواز ہے جب کہ معیشت پہلے ہی ڈوب رہی ہے!

تاجر برادری جو عام طور پر نواز حکومت کی حامی اور پشتی بان تصور کی جاتی رہی ہے اُس کی جانب سے بھی بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسوں اور بجلی کے بھاری بھرکم ناقابلِ برداشت بلوں کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے اور ملک گیر احتجاج اور یومِ عاشور کے بعد بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وطنِ عزیز کی منظم ترین اور عوامی امنگوں کی ترجمان جماعت اسلامی نے بھی وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ ملک بھر سے منصورہ میں جمع ہونے والی جماعت کی ہر سطح کی قیادت سے مشاورت کے بعد جماعت کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے پریس کانفرنس کے دوران ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ 12 جولائی جمعۃ المبارک کے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ناروا ٹیکسو ں کے نفاذ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان بھی کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے عوامی احتجاج کے اگلے مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ہم شٹر ڈائون ہڑتال کے لیے بھی عوامی، سماجی اور تجارتی حلقوں سے مشاورت کررہے ہیں جس کے مکمل ہونے پر کسی بھی وقت عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ہوش کے ناخن لے، اسے پیچھے ہٹنا ہوگا، عوام کی سہولت کے لیے ٹیکسوں میں کمی اور بجلی کے بلوں میں آئے روز اضافوں کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔ بجلی کے بل ادا کرنا عوام کے بس میں نہیں رہا۔ لوگ ناقابلِ برداشت بھاری بلوں کی ادائیگی کی خاطر اپنے گھروں کا سامان اور خواتین اپنے زیور تک بیچنے پر مجبور ہوچکی ہیں جب کہ دوسری جانب حکمران طبقات، اراکینِ اسمبلی، سول و فوجی بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے ارکان اپنی مراعات کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئے ہیں، چنانچہ وہ آئے روز اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بالائی طبقات کی مراعات میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی نے متنبہ کیا کہ عوام کو دبانے، فوجی آپریشنز اور فارم 47 کے ذریعے من پسند افراد کو قوم کی گردنوں پر مسلط کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ حربے مسائل میں اضافے کا سبب بنیں گے اور ان سے عوامی مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے حکمران طبقات اور اربابِ اقتدار و اختیار کے رویّے کا بالکل درست تجزیہ کیا ہے، مگر دوسری جانب وزیراعظم اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے خوشامدیوں کو ساون کے اندھے کی طرح ہر جانب ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے، چنانچہ حالات کی خرابی کی موجودہ تباہ کن صورتِ حال میں بھی جناب وزیراعظم کا تازہ فرمان یہی ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، ہماری کاروبار دوست پالیسیوں کی بدولت ملکی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ملک کی کاروباری شخصیات کے ایک وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیح ہے۔ ملکی صنعت، زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں ترقی سے معیشت کو مزید استحکام حاصل ہوگا۔ وزیراعظم جس ماحول میں صبح شام بسر کرتے ہیں انہیں حق حاصل ہے کہ وہ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے اس طرح کے دعوے کریں، تاہم ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ خوشامدیوں کے نرغے سے نکل کر آزاد فضا میں حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اہتمام کریں تو شاید انہیں عام آدمی کی مشکلات اور مسائل کا احساس ہوسکے، ورنہ اگر حالات یہی رہے تو عوامی غم و غصہ کسی بھی وقت ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ (حامد ریاض ڈوگر)