حقیقی مسائل بمقابلہ مصنوعی سیاسی مہم

ملک بھر کی طرح آزادکشمیر کے عوام کے مسائل بھی جائز اور جینوئن ہیں، اور جائز مسائل کے حل کے لیے آزادکشمیر کے عوام اور نوجوانوں کے مطالبات بھی اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ مسائل اور مایوسی کی وجہ سے جس تیزی سے ملک بھر سے برین ڈرین ہورہا ہے آزادکشمیر بھی اس میں پوری طرح شامل ہے۔ یہاں کے نوجوان یورپ، امریکہ اور خلیجی ملکوں کا رخ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ ریاست کی پالیسی تو یہ لگتی ہے کہ جن لوگوں کو یہاں مسائل کے انبار نظر آتے ہیں وہ ایک ایک کرکے بیرونِ ملک سدھار جائیں اور یہاں روبوٹ نما آبادی پر مشتمل ایک ایسی سوسائٹی وجود میں آئے جو بٹن دبنے پر ہنسے اور بٹن دبنے پر روئے، اور مسائل کی جگہ اُسے چہار سو سب کچھ ہرا ہرا ہی دکھائی دے۔ گویا کہ ایک نیا آزادکشمیر اور نیا پاکستان تشکیل پائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سسٹم کو بہتر بنانے اور نوجوانوں کو امید دلانے کی سنجیدہ کوششیں کسی جانب سے نہیں ہورہیں۔

آزادکشمیر کا نوجوان امن پسند ہے اور صرف اپنی تیرہ بختی سے متعلق پُرامن انداز میں سوال پوچھ رہا ہے۔ اس نوجوان کا موڈ بگڑنے کا معمولی سا نظارہ حالیہ تحریک میں دیکھا جا چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حقیقی مسائل اور جائز مطالبات کا علاج مصنوعی بیانیوں اور مہمات میں تلاش کیا جارہا ہے۔ آزادکشمیر کی حالیہ خونیں تحریک کے بعد پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں کے پیچھے چھپنے کی حکمتِ عملی اختیار کی جارہی ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’سوال گندم، جواب چنا‘‘۔ آزادکشمیر کا نوجوان اپنے مسائل اور جائز مطالبات کی بات کرتا ہے تو حکمران طبقات الحاقِ پاکستان اور یک جہتیِ پاکستان کا پرچم کچھ سیاسی ہمنوائوں کو تھما دیتے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ الحاقِ پاکستان یا خودمختار کشمیر کا نہیں، نہ یہ نظریاتی بحث ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سری نگر مادی ترقی اور وسائل کے لحاظ سے آگے جا رہا ہے اور مظفرآباد اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ جس مظفرآباد کو سری نگر کے لوگوں کے لیے ماڈل ہونا چاہیے تھا وہ راہنما نمونے کے بجائے ’’نمونۂ عبرت‘‘ بنتا جارہا ہے۔ یہ ایسا چیلنج ہے جو اِس وقت خوردبین سے ایک معمولی سا نقطہ دکھائی دیتا ہے مگر آنے والے دنوں میں یہ کھلی آنکھوں سے دکھائی دینے والا دائرہ بن جائے گا۔

آزادکشمیر کا نوجوان اِس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ کے باعث برپا ہونے والے طوفان کی لہروں میں بہہ رہا ہے۔ یہ نوجوان اس عالمگیر تحریک کا حصہ ہے جو جدید ذرائع ابلاغ کی دین ہے اور جس میں نوجوانوں کا مرکزی کردار ہے۔ نوجوان انقلابات برپا کرنے اور کچھ کرگزرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں، بس ایندھن کو دیا سلائی دکھانے کی دیر ہوتی ہے۔ دنیا میں جا بجا ایسے ہی حالات پیدا ہوتے نظر آتے ہیں جہاں نوجوان محرومیوں اور ریاستوں کی جابرانہ پالیسیوں کے ردعمل میں جدید ذرائع ابلاغ کو ہتھیارکے طور پر استعمال کرکے اتھل پتھل میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ نوجوانوں کی محرومیوں کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے اُن کے جذبات کو معتدل رکھنا اور مثبت راستوں پر لگانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ آزادکشمیر کی آج کی سوسائٹی کو بھی یہ چیلنج درپیش ہے۔ ایک طرف حالات کے باعث معاشرے سے برین ڈرین کا عمل تیزی سے جاری ہے تو دوسری طرف حالات سے عاجز آکر جانے والے نوجوان اپنی محرومیوں اور مواقع اور امکانات نہ ہونے کی وجہ سے ردعمل کا شکار ہیں اور اپنی سوسائٹی میں ردعمل کی لہروں کو تیز کرنے میں کوشاں ہیں۔ اس طرح آزادکشمیر کو بطور علاقہ تنی ہوئی رسّی پر سفر درپیش ہے۔ بے چینی اور اضطراب کی لہریں اگر حد میں نہ رہیں تو قریب تاک میں اور گھات لگائے بیٹھا دشمن حالات سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی تاخیر نہیں کرے گا۔

اس صورتِ حال کے مقابلے کے لیے آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کو بیانیوں اور جھنڈوں یعنی نظریات اور وسائل دونوں سے لیس کرکے میدان میں اُتارا گیا۔ مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد خان اور پیپلزپارٹی کے چودھری یاسین نے حکومت کی مدد سے الحاقِ پاکستان ریلیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومت کے ٹکرائو کے باعث نوجوانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ کیل سے بھمبر تک نوجوانوں کی سوچ کے دھارے ایک ہی انداز میں بہہ رہے تھے۔ سوسائٹی میں کھلے بندوں پاکستان اور حکومتِ پاکستان کی پالیسیوں کا دفاع کرنے والا یا تو کوئی نہیں تھا، یا ہر کوئی اس کام سے احتراز اور اغماض برت رہا تھا۔ بہت سے سیاست دان دفاعی پوزیشن اختیار کرچکے تھے یا پھر حالات کے آگے بے بس دکھائی دیتے تھے۔ خیال یہ تھا کہ اس طرح معاشرے کے ان طبقات کو حوصلہ اور ولولہ ملے گا جو نظریاتی طور پر الحاقِ پاکستان پر تو یقین رکھتے ہیں مگر موجودہ حالات کی لہر کے باعث مدافعانہ پالیسی یا خاموشی اور لاتعلقی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں یک طرفہ نظریاتی ٹریفک چل رہی تھی۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ حالات کے اس دھارے کو موڑنے کا کام جن ہتھیاروں سے لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ عرصہ ہوا سیاسی طور پر کُند ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس عوام کے سوالوں کا جواب ہے نہ ان کے مسائل کا حل۔ بس انہیں عوامی جذبات کے آگے جھنڈے تھماکر کھڑا کردیا گیا ہے اور اپنے تئیں یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس سے نظریاتی اور فکری لام بندی ہورہی ہے اور نوجوانوں کے ذہن بدل جائیں گے، جو محض خام خیالی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل حیات خان اور جنرل عبدالرحمان کی حکومتوں کے دوران میں تعلیمی اداروں میں قوم پرستی کی ایک لہر آئی تھی، اور یہ وہی دور تھا جب جنرل ضیاء الحق نے قومی سیاست اور قومی سوچ کا ناطقہ بند کرکے علاقائی اور قبائلی سیاست کو راہ ہی نہیں دکھائی بلکہ ہوا بھی دی تھی، جس کے اثرات ملک بھر میں مرکز گریز رجحانات کی صورت میں سامنے آرہے تھے۔ آزاد کشمیر بھی اس صورتِ حال سے الگ نہیں رہ سکتا تھا اور یہاں بھی تعلیمی اداروں میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا غلبہ ہورہا تھا تو اس لہر کا سیاسی انداز سے مقابلہ کرنے کے لیے سردارعبدالقیوم خان میدان میں اُترے تھے، انہوںنے سال بھر میں کیل سے بھمبر تک نوجوانوں کو منظم کیا تھا اور یوں وقت کا دھار ا بڑی حد تک مڑ گیا تھا۔ اس راہ میں اُن کی مزاحمت ہوئی تھی۔ ڈڈیال میرپور جو اُس وقت قوم پرست طلبہ سیاست کا گڑھ تھا سردار عبدالقیوم خان کے جلسے پر حملہ کرکے اسے اُلٹ دیا گیا تھا، مگر سردار عبدالقیوم خان جیسی جرات مند شخصیت نے حالات کا دھارا موڑ کر ہی دم لیا تھا، جس کے بدلے اگلے ہی برس انتخابات میں مسلم کانفرنس انتخابی کامیابی حاصل کرکے حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی تھی یا اس خصوصی انعام کی مستحق قرار پائی تھی۔ اب پلوں تلے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ جائز مطالبات کے مقابل ایسی سیاسی مہمات جو پہلی نظر میں ہی اسپانسرڈ اور فیک معلوم ہوں، اپنا رنگ نہیں جما سکتیں۔