حکومت نے خاصے پُرعزم انداز میں ’’آپریشن عزمِ استحکام‘‘ کا اعلان کیا تھا مگر ’’اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘‘۔ حکومت کی عزمِ استحکام کی حکمتِ عملی آغاز سے قبل ہی اختلافات کا شکار ہوگئی ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے آپریشن سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اگرچہ آپریشن کا دائرۂ کار پورا ملک بتایا گیا ہے مگر اس کا اصل مرکز و محور صوبہ خیبر ہی کو بننا ہے جہاں کی حکومتی جماعت نے آپریشن سے متعلق اپنے عدم اطمینان کا اظہار کردیا ہے۔ صوبے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے آپریشن کی منظوری دینے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اجلاس کے دوران آپریشن کا ذکر ہی نہیں ہوا۔ اُن کا بجا طور پر مؤقف ہے کہ اس بارے میں عوام اور صوبوں کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ صوبے کی ایک اور اہم جماعت، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام دراصل آپریشن عدم استحکام ثابت ہوگا۔ اُن کے بقول اس وقت ملک میں ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں جمہوریت اور پارلیمنٹ اپنا مقدمہ ہار چکی ہیں، ان کے خلاف مسلح تنظیمیں اپنا مؤقف تسلیم کروا رہی ہیں، شہبازشریف وزیراعظم نہیں، وہ صرف کرسی پر بیٹھے ہیں اور اسی میں خوش ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں کئی آپریشن ہوئے ہیں، ہمیں ان کے نتائج سامنے رکھنے چاہئیں۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیوں بے بس ہوگئے ہیں؟ صوبہ خیبر میں سورج غروب ہوتے ہی پولیس تھانوں میں بند ہوجاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے استفسار کیا کہ ملک کو مزید کمزور کیوں کیا جارہا ہے؟ ایپکس کمیٹی کیا ہے؟ ہم ان حالات کو بھگت رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہر شعبے میں اپنی بالادستی ختم کرنا ہوگی۔ کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ ہم غلامی کریں گے؟ جس طرح وہ ہمیں چارہ ڈالیں گے ہم قبول کریں گے؟ آپریشن کا فیصلہ کوئی اور کرے گا اور ذمہ داری سیاسی جماعتیں اٹھائیں گی۔ تحریک تحفظِ آئین کے صدر محمود خان اچکزئی نے بھی آپریشن عزمِ استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اب اگر آپریشن ہوا تو ملک کے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار نے گورنر خیبر پختون خوا سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں واضح کیا کہ آپریشن عزمِ استحکام کا فیصلہ یک طرفہ ہے، اب لوگوں کو مذاکرات اور آپریشن دونوں پر یقین نہیں رہا۔ ان کی رائے یہ بھی تھی کہ دہشت گردوں کی جڑیں پنجاب میں ہیں۔ صوبے میں متحرک و فعال کردار کی حامل جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بھی اس ضمن میں مدلل، جامع اور مبنی بر حقائق مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کو فوجی آپریشن کی نہیں بلکہ سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ امن، معاشی اور سیاسی استحکام عوام کی رائے سے بننے والی حکومت ہی کے ذریعے آسکتا ہے۔ امن کا قیام، دہشت گردی کا خاتمہ اور بیرونی مداخلت کا سدباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول اور اعتماد کی بحالی، چین اور دوست ممالک کے سرمایہ داروں اور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والوں کی حفاظت پوری قوم کی ذمہ داری ہے، پاکستان خصوصاً صوبہ خیبر اور بلوچستان کے قبائلی عوام فوجی آپریشن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ امیر جماعت اسلامی نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آپریشن کا فیصلہ کرتے وقت مجلسِ شوریٰ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے اور قومی، سیاسی، جمہوری قیادت سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ماضی کی تاریخ واضح ہے کہ اس طرح کے آپریشن ناکام ثابت ہوئے ہیں جس کے باعث خود اداروں کی نیک نامی پر حرف آیا اور عوام اور فوج کے مابین خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ انٹیلی جنس، پولیس اور عدالتی نظام کو فعال اور مؤثر بنایا جائے، کیونکہ آپریشن کے بعد بھی تو معاملات سول اداروں ہی کو سنبھالنے ہیں۔ جن سول اداروں کا یہ کام ہے انہیں مضبوط بنایا جائے، اور پاکستان اپنے دوست ممالک سے بات چیت کے ذریعے خطے کے امن کو بحال کرے۔
صوبہ خیبر کی تمام نمائندہ اور مؤثر سیاسی جماعتوں کے ردعمل سے ظاہر ہے کہ وہ ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کو ملک و قوم کے مفاد میں تصور کرتی ہیں اور نہ اس کے نتیجے میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے خاتمے کی امید رکھتی ہیں۔ کسی بھی عسکری کارروائی کی کامیابی کا لازمی تقاضا ہے کہ اس پر قومی ہم آہنگی کا اہتمام کیا جائے اور اسے علاقے کی سیاسی قوتوں کا بھرپور اعتماد حاصل ہو۔ حکومت اور فیصلہ سازوں کو اس آپریشن کا اعلان کرنے سے قبل اس کا اہتمام کرنا چاہیے تھا اور تمام متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لیا جانا لازم تھا۔ اگر حسبِ روایت اس میں کوتاہی کی گئی ہے اور اب تمام اہم سیاسی جماعتوں کی طرف سے آپریشن سے متعلق شدید نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے تو بہتر ہوگا کہ معاملے کی سنگینی اور حساسیت کے پیش نظر مجوزہ آپریشن پر مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے علاوہ ایوان کے اندر اور باہر کی تمام اہم جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے اور جہاں ضروری ہو وہاں آپریشن کے منصوبے میں تبدیلی میں ہچکچاہٹ کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ کھلے دل سے سیاسی جماعتوں کی آرا کا احترام کرتے ہوئے قومی مفاد کی روشنی میں سنجیدگی سے فیصلے کیے جائیں۔ اس ضمن میں اس امر کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی کی سوچ اور انتہا پسندی کے رجحانات کے فروغ کے پسِ پردہ اسباب کیا ہیں؟ ان کا گہرائی سے جائزہ لے کر حکومتی اور ریاستی سطح پر ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کے اعادے سے نہ صرف گریز کیا جائے بلکہ ان کے ازالے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ اسی طرح اس حقیقت کو بھی کسی مرحلے پر فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہمارے دشمن ممالک اس دہشت گردی کی سرپرستی اور فروغ میں اپنا پورا زور صرف کررہے ہیں۔ اس کی سرکوبی کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جانا چاہیے، کہ ہمہ نوع اور ہمہ گیر اقدامات کے بغیر دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سدباب ممکن نہ ہوسکے گا۔
(حامد ریاض ڈوگر)