خسرہ اور نگلیریا کا بڑھتا پھیلائو علامات، علاج اور احتیاطی تدابیر

قومی ادارۂ صحت نے خسرہ اور نگلیریا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے متعلقہ اداروں کو ایڈوائزری جاری کی ہے۔ اس ایڈوائزری میں خسرہ سے بچائو کے لیے حفاظتی ٹیکے لگوانے کی تاکید کی گئی ہے، جبکہ نگلیریا سے بچائو کے لیے پانی سے متعلق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گرمی کے موسم میں خاص طور پر بڑے شہروں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے تاکہ ان بیماریوں کا پھیلائو روکا جا سکے۔

خسرہ کیاہے؟
خسرہ جسے روبیلا (Rubella) بھی کہا جاتا ہے، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق خسرہ کے باعث دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 1,42,000 اموات ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر اموات پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہیں۔

یہ ایک وائرل یا متعدی بیماری ہے جو سانس کی اوپری نالی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کرسکتی ہے، لیکن 15 سال سے کم عمر بچے جو حفاظتی ٹیکے نہیں لگواتے، وہ اس انفیکشن کا خاص طور پر شکار ہوسکتے ہیں۔ بچوں کی بیمایوں کے معروف ڈاکٹر اظہر چغتائی کہتے ہیں کہ ’’ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ خسرہ یعنی Measles زندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے۔ اگر آپ کو زندگی کے کسی بھی حصے میں خسرہ ہوچکی ہے، یا آپ خسرہ کی ویکسی نیشن پروگرام کے مطابق کم از کم دوبار کروا چکے ہیں، تو آپ کو خسرہ بار بار نہیں ہوسکتی۔‘‘

خسرہ بند جگہوں میں سانس یا متاثرہ افراد کی ناک اور گلے کی رطوبتوں کے ساتھ براہِ راست رابطے سے پھیلتی ہے۔ ڈاکٹر اظہر اس ضمن میں کہتے ہیں کہ ’’خسرہ ایک وائرل بیماری ہے اور چھوٹے بچوں میں تیزی سے پھیلتی ہے۔ یہ بیماری ہوا کے ذریعے (Air Born) پھیلتی ہے، اور مریض کے جسم سے نکلنے والی رطوبت یعنی بچہ جب چھینکتا اور کھانستا ہے، اور اس طرح بہتی ہوئی ناک کو ہاتھ سے صاف کرکے ہاتھ کسی چیز پر لگاتا ہے اور دوسرا کوئی بچہ اُس جگہ کو ٹچ کرنے کے بعد اپنی ناک کو ٹچ کرتا ہے تو بیماری اس میں منتقل ہوجاتی ہے۔ جس کمرے میں خسرہ کا کوئی مریض ہوتا ہے تقریباً دو گھنٹے تک اس کے جراثیم موجود رہتے ہیں اور دیگر لوگوں کو بیماری میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ خسرہ لگنے کے تقریباً دس سے پندرہ دن بعد ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

خسرہ کی علامات میں بخار، کھانسی، ناک بہنا، آنکھوں میں سرخی اور جسم پر دانے شامل ہیں۔ بخار اور دانے عام طور پر انفیکشن کے 10 سے 12 دن بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اظہر کے مطابق ’’دانے ظاہر ہونے سے چار دن پہلے اور خسرہ کے دانے ظاہر ہونے کے تقریباً چار دن بعد تک مریض خسرہ کو پھیلاتا رہتا ہے۔ خسرہ چونکہ ایک وائرل بیماری ہے اس لیے اس کا باقاعدہ کوئی علاج نہیں، سوائے اس کے کہ آپ اس دوران بچے کو علامات کے حساب سے انفرادی طور پر علاج فراہم کرتے ہیں یعنی Supportive Treatment۔ مثلاً بچہ بالکل کچھ نہیں کھا پی رہا تو ڈرپ کے ذریعے گلوکوز اور پانی دیں۔ مسلسل پتلے موشن ہوں تو ڈرپ کے ذریعے گلوکوز اور نمکیات والا پانی دیا جائے۔ کھانسی یا نمونیا کی صورت میں جو کہ خسرہ میں بہت عام ہے، نیبولائزر ٹریٹمنٹ۔ آکسیجن کی ضرورت میں آکسیجن۔ نمونیا کے لیے اینٹی بایوٹک جو کہ عام طور پر اسپتال میں انجکشن کی صورت میں دی جاتی ہے۔ دانوں کی وجہ سے خارش کے لیے روز نہلانا، اور بعض اوقات کوئی لوشن وغیرہ دیتے ہیں۔

خسرہ ایک خطرناک بیماری ہے جو پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے جیسے نمونیا، دماغی سوزش (Encephalitis)۔ ڈاکٹر اظہر چغتائی کہتے ہیں ’’خسرہ کی شدید ترین شکل اس کا بعض اوقات دماغ پر اثر ہے جس کی وجہ سے جھٹکے لگتے ہیں اور عمر بھر کی معذوری بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’خسرہ کو معمولی مرض نہ سمجھیں، سنجیدگی کے ساتھ علاج کرائیں، خسرہ سے بچائو کا واحد طریقہ ’’ویکسین‘‘ہے جو اپنے بچوں کو نو ماہ، پندرہ ماہ اور چار سال کی عمر میں ضرور لگوائیں۔‘‘

نگلیریا کتنا خطرناک ہے؟
اسی طرح نگلیریا ایک نایاب لیکن مہلک بیماری ہے جو دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک خوردبینی جان دار کی وجہ سے ہوتی ہے جسے Naegleria fowleri کہتے ہیں۔ یعنی ایک امیبا ہے جو دماغ کھانے والے امیبا کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک خلیاتی امیبا ہے جو زیادہ تر پانی میں پرورش پاتا ہے جیسے جھیلوں، تالابوں، ندیوں، گرم چشموں، اور نمی والی مٹی میں۔

امریکا میں 2022ء تک رپورٹ کیے گئے 154 کیسز میں سے صرف 4 افراد بچ سکے ہیں۔ پاکستان میں بھی 2008ء سے اس بیماری کے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، خاص طور پر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں۔

کراچی میں گزشتہ سال نگلیریا کے کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ ملیر کے ایک فارم ہائوس میں سوئمنگ پول میں نہانے والے 5 افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے تھے جن میں 8 سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ جناح اسپتال کے فزیشن ڈاکٹر محمد عمر سلطان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔ ڈاکٹر عمر کے مطابق نگلیریا کا جرثومہ بظاہر صاف نظر آنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو، اس میں نگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جرثومہ سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی اور دیگر ماحولیاتی عوامل ہیں۔ یہ عام طور پر میٹھے پانی کے گرم ماحول جیسے جھیلوں، ندیوں اور گرم چشموں میں پایا جاتا ہے۔ یہ پانی کے 30 اور 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان درجہ حرارت میں پروان چڑھتا ہے۔

نگلیریا کی علامات عام طور پر آلودہ پانی کے سامنے آنے کے ایک سے 14 دنوں کے اندر ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی علامات فلو سے ملتی جلتی ہیں، بشمول بخار، سر درد، متلی اور الٹی۔ جیسے جیسے مرض بڑھتا ہے، علامات زیادہ شدید ہوجاتی ہیں، جن میں الجھن، فریبِ نظر، دورے اور کوما شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بیماری عام طور پر مہلک ہوتی ہے، جس کی شرح اموات 97 فیصد تک ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ نگلیریا سے کیسے بچا جائے؟کیونکہ جب نگلیریا کی بات آتی ہے تو روک تھام کی کلیدی اہمیت ہوجاتی ہے، اور ایسے کئی اقدامات ہیں جو آپ انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے گرم میٹھے پانی کے ذرائع جیسے جھیلوں، ندیوں یا گرم چشموں میں تیراکی یا غوطہ خوری سے گریز کریں، خاص طور پر گرمیوں کے مہینوں میں جب پانی کا درجہ حرارت زیادہ ہو۔ اگر آپ کو تیرنا یا غوطہ لگانا ہے تو امیبا کو ناک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ناک کا کیپ ضرور لگائیں۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے سر کو گرم ٹبوں یا سوئمنگ پولز میں پانی کے اندر رکھنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ عمل بھی نگلیریاکا باعث بن سکتا ہے، اور ہمیشہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا سوئمنگ پول یا گرم پانی کا ٹب مناسب طریقے سے رکھا ہے اور کلورین یا دیگر مناسب کیمیکلز سے جراثیم کُش ہے۔

احتیاط کریں۔ بدقسمتی سے نگلیریا کا کوئی خاص علاج نہیں ہے، اور یہ بیماری اکثر مہلک ہوتی ہے۔ تاہم جلد تشخیص اور علاج زندہ رہنے کے امکانات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ علاج میں عام طور پر اینٹی فنگل اور اینٹی بیکٹیریل ادویہ کے ساتھ ساتھ دماغ کی سوجن اور دیگر علامات کو کنٹرول کرنے والی دوائیں شامل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر سلطان کے مطابق ’’نگلیریا جرثومہ پانی میں کلورین یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بلیچ سے ختم ہوجاتا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں کی ٹنکیوں میں کلورین کا استعمال کریں۔‘‘
خسرہ اور نگلیریا دونوں ہی خطرناک بیماریاں ہیں جو بروقت احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات کے ذریعے روکی جا سکتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ حفاظتی ٹیکے لگوائیں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، اور پانی سے متعلق احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تاکہ ان بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ صحت کے متعلقہ اداروں کی طرف سے جاری کی گئی ایڈوائزری پر عمل کرنا اور عوام کو آگاہی دینا اس ضمن میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔