پاکستان پہلی بار پہلے ہی مرحلے میں امریکہ میں منعقد ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلوں سے آئوٹ ہوچکا ہے
ٹی 20 ورلڈ کپ سپر ایٹ کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ اسے انقلاباتِ زمانہ کے سوا کیا نام دیا جائے کہ جن ٹیموں کو کسی شمار قطار ہی میں نہیں سمجھا جا رہا تھا اُن میں سے افغانستان اور بنگلہ دیش جیسی ٹیمیں تو اس مرحلے میں حصہ لینے کے لیے میزبان ملک امریکہ میں موجود ہیں، حتیٰ کہ خود امریکہ جو پہلی بار ورلڈ کپ کا حصہ بنا ہے، وہ تو سپرایٹ مرحلے میں کھیلنے کے لیے کوالیفائی کرچکا ہے مگر پاکستان کی ٹیم جو بڑے دعووں کے ساتھ اور قوم کو ٹرافی پاکستان لانے کی امید دلاتے ہوئے امریکہ روانہ ہوئی تھی وہ اپنے امریکہ اور بھارت کے خلاف میچوں میں انتہائی ناقص کارکردگی اور شکست کے بعد دوسری ٹیموں کی شکست و فتح میں اپنی زندگی کا سہارا تلاش کرنے لگی اور پھر امریکہ اور آئرلینڈ کے مابین میچ بارش کی نذر ہونے کے سبب یہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور پاکستان پہلی بار پہلے ہی مرحلے میں امریکہ میں منعقد ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلوں سے آئوٹ ہوچکا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اکثر کھلاڑی اب انتہائی مایوسی کے عالم میں امریکہ بدر ہوکر وطن پہنچ چکے ہیں کہ ٹیم نے اتوار 16 جون کو آئرلینڈ کے خلاف اپنا آخری پول میچ بھی بڑی مشکل سے جیتا ہے اور شاہین آفریدی 19 ویں اوور میں دو چھکے نہ لگاتے تو ہماری ٹیم کے لیے شاید آئرلینڈ کا 106 رنز کا معمولی اسکور پورا کرنا بھی محال ہوجاتا کہ محمد رضوان اور صائم ایوب دونوں 17، 17 رنز پر آئوٹ ہوگئے، فخر زمان صرف 5 رنز ہی بنا سکے، عثمان خان 2 اور عماد وسیم 4 رنز بنا کر چلتے بنے، جب کہ شاداب خان کھاتا کھولے بغیر ہی پویلین واپس پہنچ گئے۔ اس طرح جب پاکستانی ٹیم آئرلینڈ سے اپنے آخری میچ میں بھی شکست کی جانب گامزن تھی تو انیسویں اوور میں شاہین آفریدی نے دو چھکے لگاکر میچ کا پانسہ پلٹ دیا اور وطن واپسی سے قبل آخری میچ میں فتح پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔
پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی اس کیفیت میں امریکہ سے وطن واپس تشریف لائے ہیں کہ ’’جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘۔ تمام اہم میچ ہارنے کے علاوہ کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی بھی قابلِ فخر قرار نہیں دی جا سکتی۔ ٹیم نے امریکہ میں ہونے والے موجودہ ٹی۔ 20 ورلڈ کپ مقابلوں میں جو میچ کھیلے ان سب میں صرف ایک پاکستانی بلے باز نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوسکا۔ بھارت کے سوا، مدمقابل نہایت آسان اور بالکل نئی ٹیمیں ہونے کے باوجود کوئی پاکستانی بلے باز بڑا اسکور نہ بنا سکا، صرف محمد رضوان نے کینیڈا کے خلاف کھیلتے ہوئے پچاس کی حد عبور کی اور دو چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 53 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی… کپتان بابر اعظم کی کارکردگی بھی قدرے بہتر رہی جنہوں نے تین میچوں میں 44، 13 اور 33رنز ناٹ آئوٹ بنائے۔
پاکستانی ٹیم کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی کے بعد چاروں طرف سے تنقید کے تیر برس رہے ہیں جن کا جواز بلاشبہ موجود ہے۔ خود چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے عجیب بیان دیا ہے کہ ہمیں سب پتا ہے کہ ٹیم میں کیا کچھ ہوتا رہا، اب ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ ایسا بہر صورت کرنا پڑے گا، ٹیم کی مکمل اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ چیئرمین پی سی بی کا بیان درست ہوسکتا ہے، مگر یہ ’’گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کو علم تھا کہ ٹیم میں کیا خرابیاں ہورہی ہیں تو آپ نے اُس وقت ان کی اصلاح کے لیے فوری قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ انگریزی محاورے کے مطابق خرابی کو پنپنے کا موقع دیے بغیر اگر ابتدا ہی میں اس کا قلع قمع کردیا جاتا تو آج سرجری کی ضرورت اور پچھتاوے سے بھی بچا جا سکتا تھا اور قوم کو بھی مایوسی سے بچایا جا سکتا تھا۔ اب سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کرنے کی باتیں بھی سنائی دے رہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ کمیٹی کے ارکان کی تعداد بھی 9 سے کم کرکے محدود کرنے پر غور جاری ہے۔ موجودہ کھلاڑیوں میں سے کم از کم نصف درجن کے آئندہ سیریز میں نظر نہ آنے کی افواہیں بھی عام ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں بھی کئی ناموں کو ’آرام‘ کے بہانے ٹیم سے باہر رکھنے کے تذکرے ہیں۔ کپتان کی تبدیلی اور بابراعظم کی جگہ محمد رضوان کو آزمانے، لیگز کے لیے کھلاڑیوں کو دو سے زیادہ این او سی جاری نہ کرنے اور سنٹرل کنٹریکٹ کو کارکردگی اور فٹنس سے مشروط کرنے کے بارے میں بھی اہم فیصلے متوقع ہیں۔ یہ تمام اقدامات اور فیصلے اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں، تاہم اگر انہیں بروقت کرلیا جاتا تو دورۂ امریکہ کے دوران ٹیم کی کارکردگی سے متعلق قوم کو مایوسی کا سامنا شاید نہ کرنا پڑتا۔ اس ضمن میں اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ جب تک کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں موجود انتشار اور سیاست کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور فیصلوں میں میرٹ اور کارکردگی کو پیش نظر رکھنے کے بجائے اقربا پروری اور دستِ غیب کی جانب سے ان کا نفاذ جاری رہے گا، پاکستانی کرکٹ کے حالات اور ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ اس ضمن میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ ایک وقت تھا جب ہاکی میں پاکستان دنیا بھر میں قیادت کے منصب پر فائز تھا، مگر اب یہ مقام و مرتبہ ہم سے چھن چکا ہے جس میں ہمارے دشمنوں کی سازشوں سے کہیں زیادہ خود ہماری نااہلی اور غلط فیصلوں کا عمل دخل ہے۔ کرکٹ کے مفاد میں بہتر ہوگا کہ موجودہ چیئرمین پی سی بی امریکہ میں بدترین کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب سے استعفیٰ دیں اور یہ منصب کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے جو کھیل سے متعلق امور میں مہارت بھی رکھتا ہو، فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی اور فیصلوں کے نفاذ کی اہلیت بھی۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں کرکٹ کا کھیل بھی ہاکی، فٹ بال اور دیگر ایسے کھیلوں کے مقام پر پہنچ جائے گا جن میں پاکستان کا کوئی مقام نہیں۔