وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا وزیراعظم کو خط خیبرپختون خوا کے معاشی چیلنجز

”جنگ زدہ“ قبائلی علاقوں اور نیم بندو بستی اضلاع کو ٹیکس جھوٹ

خیبر پختون خوا حکومت کی سفارشات اور ملاکنڈ ڈویژن اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام اور کاروباری طبقے کے پُرزور اصرار اور احتجاج پر وفاقی حکومت نے سابق فاٹا اور پاٹا کو ایک سال کے لیے ٹیکس استثنیٰ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے دی گئی ٹیکس چھوٹ کی مدت 30 جون کو ختم ہورہی تھی اور یکم جولائی سے ٹیکسیشن نافذ کرنے کی منصوبہ بندی تھی، تاہم اس حوالے سے قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن میں شدید احتجاج اور صوبائی حکومت کی جانب سے سفارشات کی روشنی میں وزیراعظم نے دونوں علاقوں میں ٹیکس چھوٹ کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے۔ اب قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن میں 30 جون 2025ء تک کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا اور اس کے بعد نئی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ سابق فاٹا اور پاٹا میں ٹیکسیشن کے سلسلے میں گزشتہ سال سے کوششیں ہورہی ہیں جس کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے کسٹم اور سیلز ٹیکس قوانین میں ترامیم تجویز کی تھیں اور ٹیکس دفاتر بھی قائم کردیے تھے۔

یہ بات عارضی طور پر تو قابلِ قدر ہے کہ حکومت نے سابقہ سات قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن کے آٹھ نیم بندوبستی اضلاع کو ٹیکس کی مد میں ایک سال کی چھوٹ دے دی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جنگ زدہ قبائلی اور پاٹا کے علاقوں میں محض ایک سال ٹیکسوں کی چھوٹ ان علاقوں کے لاکھوں جنگ زدہ اور غربت سے دوچار مکینوں کے غموں کا مداوا ثابت ہوسکتی ہے؟

اسی طرح وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ بجٹ میں جو اضافہ کیا ہے اس میں بھی خیبرپختون خوا کے سرکاری ملازمین کے لیے کسی خاص رعایت کی خوش خبری نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ ایک اور ستم ظریفی یہ کی گئی ہے کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں ایک جانب ان کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا ہے جو ملک میں مہنگائی کی جاری تاریخی لہر کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے، اور دوسری جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کیے جانے والے اضافے پر 5 سے 35 فیصد تک بھاری انکم ٹیکس بھی لگا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بجٹ تجاویز کے مطابق سالانہ 6لاکھ روپے آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا یعنی پچاس ہزار روپے ماہوار لینے والے ملازمین اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، جبکہ اس سے زیادہ شرح سے تنخواہ لینے والے ملازمین سے5 سے 45 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومت نے تنخواہوں میں 20سے 25 فیصد اضافہ کیا ہے جبکہ ان پر ٹیکس اس شرح سے زیادہ لگایا گیا ہے، جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین کو تنخواہ میں صرف5 سے 10 فیصد تک اضافہ ملے گا۔

دوسری جانب ضم شدہ قبائلی اضلاع پر یہ خبر بم بن کر گری ہے کہ خیبر پختون خوا حکومت کا مالی سال 25-2024ء کے بجٹ میں قبائلی اضلاع کے مجوزہ ترقیاتی پروگرام کا اندازہ وفاقی بجٹ میں اس مد میں رکھی جانے والی رقم سامنے آنے کے بعد غلط ثابت ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے وفاق سے 71 ارب کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی بجٹ میں ظاہر کی تھی، تاہم وفاقی حکومت نے 57 ارب روپے رکھنے کی سفارش کی ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت نے مالی سال 25-2024ء کے بجٹ میں قبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی پروگرام میں 30 ارب جبکہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام میں 40 ارب روپے مختص کیے ہیں، مذکورہ 70 ارب روپے وفاقی حکومت سے ملنے ہیں۔ محکمہ خزانہ خیبر پختون خوا کے ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے مجوزہ بجٹ میں قبائلی اضلاع کے فنڈز میں صرف 57 ارب روپے رکھے ہیں جو رواں برس کے برابر ہیں اور اگلے مالی سال میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25ء کے مجوزہ بجٹ میں ضم اضلاع ترقیاتی پروگرام کی مد میں 26 ارب روپے، جبکہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کی مد میں 31 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے جو صوبائی حکومت کے مختص بجٹ سے 14 ارب روپے کم ہے۔ صوبائی حکومت کا اندازہ غلط ثابت ہونے کی وجہ سے اب منصوبوں کے لیے مختص فنڈز میں کٹوتی کی جائے گی جو ضم شدہ قبائلی اضلاع کے پہلے سے دگرگوں حالات کے تناظر میں اُن کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔

یہاں اس امر کی نشاندہی اہمیت کی حامل ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے نکالے گئے خیبر پختون خوا کے ایک ہزار 327 ارب کے 91 منصوبے دوبارہ شامل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور نے وزیراعظم شہبازشریف کو چند دن پہلے ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم مداخلت کرتے ہوئے فوری بجٹ اور ڈویلپمنٹ پروگرام پر نظرثانی کریں اور ملک بھر میں یکساں ترقی یقینی بنائیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے خط میں کہا ہے کہ سالانہ منصوبہ بندی کے روابط کی کمیٹی وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے اور اتفاقِ رائے کو فروغ دینے کا فورم ہے، اس میں اسٹیک ہولڈرز دستیاب وسائل کی حدود میں ترقیاتی اخراجات کے لیے ترجیحات مرتب کرتے ہیں، تاہم اقتصادی رکاوٹوں اور معیشت کے مجموعی سکڑاؤ نے خاص طور پر صوبوں کو وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت وسائل کی تقسیم میں اہم چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں مذکورہ کمیٹی کے 31 مئی کو ہونے والے اجلاس میں خیبر پختون خوا سے متعلق فیصلے کیے گئے اور 91 ترقیاتی منصوبے جن کی تکمیل کے لیے ایک ہزار 327 ارب 52 کروڑ روپے درکار ہیں، انہیں اجلاس سے دو گھنٹے قبل نکال دیا گیا۔ یہ فیصلہ بلاشبہ سابقہ فیصلوں کے خلاف ہے۔ ایس آئی ایف سی میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پہلے سے کی گئی سرمایہ کاری کے ضیاع اور قانونی معاہدے کے مسائل سے بچنے کے لیے تمام جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔ علی امین گنڈاپور نے خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ایس آئی ایف سی میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ صوبائی نوعیت کا کوئی بھی منصوبہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل نہیں ہوگا سوائے اُن اضلاع کے جن کو پلاننگ کمیشن کم ترقی یافتہ قرار دیتا ہے، تاہم اس کی خلاف ورزی کی گئی اور پی ایس ڈی پی میں 2 ہزار 917 ارب کے 279 نئے منصوبے شامل کیے گئے جن کے لیے 63 ارب 90 کروڑ روپے مختص بھی کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے قبائلی اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کا بھی خط میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کے منظور شدہ بجٹ اور ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی پروگرام اور تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کو وفاقی حکومت کی انڈیکیٹو بجٹ سیلنگ مزید خراب کرتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ضم اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 26 ارب کا اشارہ دیا ہے جو پرانی حد ہے، اور تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لیے 31 ارب کی حد رکھی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ خیبر پختون خوا حکومت کے حقیقی مطالبات کے حل کے لیے فوری مداخلت کریں اور مالی سال2024-25ء کے بجٹ اور پی ایس ڈی پی پر نظرثانی کرتے ہوئے ان منصوبوں کو دوبارہ شامل کریں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کے خلاف سیکورٹی فورسز نے یکم اپریل سے 10 جون 2024ء تک خیبر پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں 7 ہزار 745 آپریشن کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں 2 ہزار 701، بلوچستان میں 4 ہزار 902 اور سندھ میں 142 آپریشن کیے گئے۔ ان آپریشن کے دوران 181 دہشت گرد مارے گئے۔ صرف مئی کے مہینے میں بلوچستان میں 12، جبکہ خیبر پختون خوا میں 42 دہشت گرد مارے گئے۔ دونوں صوبوں میں مجموعی طور پر ایک ماہ میں 61 دہشت گرد گرفتار بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ باجوڑ، دیر اور چترال کے علاقوں میں بروقت خفیہ اطلاعات کی بناء پر دراندازی کی کم از کم 20 کوششوں کو ناکام بنادیا گیا اور سرحد پار سے دراندازی کی کوششوں کے دوران دہشت گرد مارے گئے۔ اس عرصے کے دوران بشام میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانے والا دہشت گردوں کا نیٹ ورک بھی پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری شدہ مندرجہ بالا اعداد و شمار کے علاوہ خیبرپختون خوا کے بندوبستی اضلاع میں بالعموم اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بالخصوص بدامنی کی حالیہ صورتِ حال کے علاوہ پچھلی چار دہائیوں سے بالعموم اور دو دہائیوں سے بالخصوص یہ علاقے جس بدترین بدامنی سے دوچار رہے ہیں اس کے نتیجے میں اگر ایک جانب بھاری جانی نقصان ہوچکا ہے تو دوسری جانب اس صورت حال نے صوبے کی معیشت کا بھٹہ بھی بٹھا دیا ہے۔ صوبے میں بے روزگاری عروج پر ہے جس کی وجہ سے نوجوان نہ صرف آسانی سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے نرم چارہ بن رہے ہیں بلکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کا شکار بھی ہورہی ہے۔ صوبے کے تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے زمیں بوس ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل جہالت کے اندھیروں کا شکار ہورہی ہے۔ صوبے میں صنعتی ادارے بند ہیں، کاروبار نہ ہونے کے برابر ہیں، افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے سکڑ چکی ہے، مہنگی بجلی، ہنرمند کارکنوں کی عدم دستیابی، بدامنی، سمندر سے دوری اور مہنگائی کے عفریت نے خیبرپختون خوا کو ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے، جس کا براہِ راست اثر صوبے کی پہلے سے کمزور معیشت پر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں صوبے کے ترقیاتی بجٹ سے 14 ارب کی کٹوتی کے علاوہ 91 نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے ایک ہزار 327 ارب روپے کی ادائیگی میں لیت ولعل سے کام لینے کے علاوہ معاشی طور پر تباہ شدہ اس بدنصیب صوبے کے پندرہ اضلاع پر ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر ٹیکس کا نفاذ کرنے کے ارادوں سے جہاں ہمارے حکمرانوں کی نااہلی و نالائقی کا اندازہ ہوتا ہے، وہاں ان کے یہ عزائم قومی سوچ، جذبہ حب الوطنی اور انسانی ہمدردی کی نفی کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔