ہمہ یاراں دوزخ

مصنف:-برگیڈئیر صدیق سالک
پبلشر: الفیصل پبلشر
صفحات: 304
قیمت: ندارد
ملنے کا پتا: الفیصل ناشران و تاجران، غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور
03364393550

یہ کتاب میجر صدیق سالک سابق جی ڈی آئی ایس پی آر کے قلم کی مرہونِ منّت ہے جس میں انہوں نے اپنی بھارتی قید (اسیری) کے واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے واقعات اُن دو برسوں پر مشتمل ہیں جو 1971ء کی جنگ ہارنے کے بعد ہمارے 90 ہزار فوجیوں کے ساتھ بھارتی جیلوں میں پیش آئے۔ چونکہ اس کتاب کے مصنف ایک فوجی افسر ہیں تو اس میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس میں ایسا مواد بھی ملتا ہے جو اُس وقت کی فوج کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ میں اس کتاب پر کچھ اس طرح تبصرہ کرنا چاہوں گا:

سب سے پہلے تو اس کتاب کا اندازِ بیان بہت ہی خوبصورت اور رواں ہے۔ یہ دوسری کتاب ہے صدیق سالک مرحوم کی جسے میں نے چند دنوں میں پڑھا ہے، اس سے پہلے میں نے ان کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ پڑھی، جس میں مصنف نے اپنی آنکھوں سے بنگلہ دیش بنتے اور پاکستان ٹوٹتے دیکھا۔

مصنّف کو اردو پر خوب عبور حاصل ہے۔ آپ نے اپنی اسیری کے لمحات کو کس طرح قید میں رہ کر اپنے قلم سے قید کیا اور کس طرح ان کو محفوظ کرکے پاکستان لائے اور پھر اس کتاب میں کس انداز میں موقع کی مناسبت سے شعروں کے ساتھ کے لفظوں میں اتارا یہ بھی ان ہی کا کمال تھا۔آپ نے اپنی اسیری کی ایک ایک واردات ایک ایک لمحہ اتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام واقعات قاری کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔

اس قید میں سالک صاحب کو زیر زمین ایک ایسے سیل میں رکھا گیا تھا جہاں رات تو کیا دن میں بھی روشنی کے آثار نہ تھے۔ قبر نما یہ سیل 6 مربع فٹ کی ایک ایسی کال کوٹھری تھی جس میں انسان بیٹھ تو سکتا تھا، لیکن پوری طرح لیٹ نہ سکتا۔

صدیق صاحب نے اس پورے مرحلے کے واقعات جس طرح بیان کیے ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک عام قاری کے لیے یہ قوموں کی دشمنی، جنگوں کی ہولناکی اور قید کے احوال کے اعتبار سے ایک پُراثر تحریر ہوگی، مگر ایک بندئہ مومن کی نظر سے یہ دوزخ کے عذاب کا ایک تعارف ہے۔ قرآن مجید میں دوزخ کی جو سزائیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے سب سے ہلکی سزا وہ ہے جو سورہ فرقان (13:25) میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اہلِ جہنم دوزخ میں کسی تنگ جگہ پر باندھ کر پھینک دیے جائیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(ترجمہ)’’اور جب یہ اس کی کسی تنگ جگہ میں باندھ کر ڈال دیے جائیں گے تو اُس وقت اپنی ہلاکت کو پکاریں گے۔ آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔‘‘

سالک صاحب کی تحریر پڑھ کر ان آیات کی ایک بہترین تشریح سامنے آتی ہے۔ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دوزخ کا بظاہر کم نظر آنے والا عذاب بھی انسانی برداشت کے لیے اتنا زیادہ ہے کہ کوئی انسان اس کو جھیلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ قرآن مجید اس عذاب ہی کو واضح نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ عذاب ناشکری کے بدترین جرم کی سزا ہیں۔ یہ ناشکری کیا ہوتی ہے، اس کی بڑی خوبصورت وضاحت بھی سالک صاحب کی اس کتاب میں ملتی ہے۔ وہ اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ اس قید سے ذرا دیر کی رہائی میں انہیں وہ مناظرِ فطرت بھی اس قدر قیمتی محسوس ہوتے تھے جن کے درمیان ہمارے صبح شام گزرتے ہیں اور ہم کبھی ان پر توجہ بھی نہیں دیتے۔ اس بیان کو ذرا اُن ہی کی زبانی سنیے:

’’آدھ گھنٹے بعد مجھے پھر روئے زمین پر آنے کی دعوت ملی۔ میں نے پھر مناظر قدرت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ پیپل کے پتّے جھڑتے دیکھے۔ اس پر جنگلی چوہے چڑھتے دیکھے۔ غسل خانے کی منڈیر پر کبوتروں کو مصروفِ غٹرغوں پایا۔۔۔ صحن سے ایک فاختہ کو فکر آشیاں بندی میں تنکے اکٹھے کرتے دیکھا۔ غلاظت کے ڈھیروں سے کوّوں کو چاول اور چیلوں کو تلاشِ گوشت میں اس پر جھپٹتے دیکھا۔ بس کچھ نہ پوچھیے ان عیاش آنکھوں نے کیا کیا ضیافت نہ اڑائی۔ رستی بستی دنیا کی ایک جھلک دیکھ لی اور پھر چوبیس گھنٹے کے لیے زیر زمین دفن!‘‘

فطرت کی حسین دنیا کا یہ نظارہ جو آسمان سے زمین تک پھیلے ہوئے رنگوں، روشنیوں، اور نظاروں پر مشتمل ہے ان اربوں کھربوں نعمتوں میں سے صرف ایک نعمت ہے جن میں ہم جیتے ہیں۔ وگرنہ زندگی، اس کی بقا اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے جو ساز و سامان اس کائنات میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھے ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں دی جاسکتی۔ یہ سب کچھ ہمیں مفت میں ملتا ہے۔ ہوا، پانی، غذا، قویٰ، صحت، طاقت، رشتے ناتے، مال و اسباب غرض ہر جگہ یہ نعمتیں بے حساب بکھری ہوئی ہیں۔ مگر ہم دینے والے کو بھول کر جیتے ہیں۔ اس کی پکار کا جواب نہیں دیتے۔ اس کی یاد کو اپنی زندگی نہیں بناتے۔

یہی نہیں، ہم اس مہربان رب کی نافرمانی میں جیتے ہیں۔ اس کی عبادت میں غیراللہ کو شریک کرتے ہیں۔ اس کے بندوں پر ظلم کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کے بغیر ایک لمحہ جی نہیں سکتے۔ کوئی محرومی برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم اس عجز کے باوجود ایسی غفلت اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہنم کی ابدی قید ایسی ہی ناشکری اور سرکشی کا بدلہ ہے۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرکے اور اس شکر گزاری میں جیتے ہیں تو ان کا بدلہ اسی آیت کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

”ان سے پوچھو کیا یہ (انجام) بہتر ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ نیک لوگوں سے کیا جارہا ہے۔ وہ ان کی جزا اور ان کا ٹھکانہ ہوگی۔ اس میں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تیرے رب کا وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس کی حتمی ذمہ داری ہے۔“ (فرقان14تا16)

تنگی و تنہائی اور تاریکی و وحشت کے اس ماحول میں ان کا ساتھ دینے کے لیے اس قبر نما سیل میں کوئی تھا تو وہ موسمِ سرما کی شدید ٹھنڈ تھی یا پھر مچھر، کھٹمل اور پسوؤں کی ایک بڑی تعداد ان کا لہو پینے کے لیے وہاں موجود تھی۔ یا پھر ان کے اندر سے ابلتی، بلکتی بھوک اور نیند کی جبلتیں تھیں جن کی تسکین کے لیے حالات آخری درجے میں ناسازگار تھے۔ وہاں اگر کوئی انسان تھا تو باہر تعینات وہ سنتری تھا جو انہیں اس کال کوٹھری میں لیٹے یا دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے دیکھتا تو گندی گالیوں سے ان کی خبر گیری کرتا اور انہیں بیٹھے رہنے کا حکم جاری کرتا۔

اس کے علاوہ جو چیز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ انسانی نفسیات ہے جو ان دو سالوں میں دیکھنے میں آئی۔ انسان کو جب اتنے تکلیف دہ اور سخت حالات سے گزرنا پڑتا ہے تب اس کی وہ تمام اندرونی خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں جو عام حالات میں شاید کبھی سامنے نہ آسکیں۔ اگر ایک طرف جذبہ حب الوطنی پورے جوبن پر نظر آتا ہے تو دوسری طرف دشمن ملک سے نفرت اپنے عروج پر دِکھتی ہے۔ اگر ایک طرف ایثار کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے تو دوسری طرف سب کچھ جھپٹ لینے کی خصلت دیکھنے میں آتی تھی۔ کبھی قیدی اتنا پُرامید جیسے کل ہی گھر کو روانہ ہوجائے گا، اور کبھی اتنا ناامید جیسے ساری زندگی اسی جگہ بسر کرنی پڑے گی۔ کبھی دوسروں کا درد اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو کبھی اپنوں سے بھی بیگانہ محسوس ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ فوجی جوانوں کی رُلا دینے والی شہادت کے واقعات ہیں کہ کس طرح دورانِ قید انہیں بے دردی سے شہید کیا گیا، جن میں کیپٹن شجاعت اپنے نام کی طرح شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلتی ٹرین سے پھلانگ کر قید سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت زیادہ خون کے بہاؤ کے سبب بے ہوش ہوکر گرتے ہیں اور دوبارہ اسیری ان کا مقدر بنتی ہے، اسی وقت میجر نصیب اللہ نماز کی تیاری میں مگن گارڈ کی گولیوں سے شہید ہوتے ہیں۔ اسی طرح کتابی چہرہ اور شتابی چال رکھنے والے سیکنڈ لیفٹیننٹ اعجاز حسین رضوی کی شہادت کے بارے میں پڑھ کر قاری کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔

مصنف نے اسیری کے دوران مختلف کیمپوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیغام رسانی کا جو نظام متعارف کروایا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے، جس کے ذریعے بغیر کسی شک و شبہ کے وہ اپنے ساتھیوں سے خیالات کا تبادلہ کرتے تھے۔

رہائی پانے کے بعد واہگہ بارڈر پر شہادت پانے والے جوانوں کے والدین کی آنکھوں میں بیٹوں کے آنے کی چمک اور ان کی شہادت کا سن کر ان کی آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کی تڑپ قاری کے دل میں گہرے زخم چھوڑ جاتی ہیں۔ مصنف اپنی والدہ کے انتقال کا سن کربے اختیار رونے اور دل کو قرار دینے کے لیے لاہور کے مشہور مقامات پر جاتاہے اور اپنے ادیب دوستوں کی موت کا سن کر قید سے شکوہ کرتا ہے، اس طرح مصنف ایک رلا دینے والا منظر پیش کرتا ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے پڑھتے جس ایک چیز نے مجھے چونکا کر رکھ دیا وہ تھی ہماری فوج کی ذہنیت۔ یعنی کتنی ہی جگہوں پر مصنف نے خود کو دشمن فوج سے برتر پایا۔ جب ان کو گاڑی میں بٹھا کر لے جانے لگے تو ہندوستان کی بوسیدہ گاڑیوں کی نسبت ان کو اپنی سرکاری چمچماتی گاڑیاں یاد آگئیں، بھارتی فوجیوں کو وہ افسردہ، نکھٹو اور نکلے ہوئے پیٹ کے ساتھ دیکھتے ہیں، جب کہ اپنے فوجیوں کو ہشاش بشاش اور ول پرسنالٹی، بھارت کو تنگ دل تنگ نظر اور اپنے آپ کو وسیع القلب اور وسیع النظر۔ مجموعی طور پر مصنف کے نزدیک پاکستانی فوج ڈسپلن، پروفیشنلزم، انٹیلی جنس… ہر شعبے میں بھارتی فوج سے بہتر تھی۔

مصنف نے 1972ء کا بھارت ہمیں فاقہ کش اور غربت زدہ دکھایا ہے۔ خوش ہوکر یہ بتایا ہے کہ پاکستان کا روپیہ بھارت سے تگڑا تھا۔ فخر سے یہ باتیں بتائی ہیں کہ بھارت اپنے ملک کی چیزیں استعمال کرتا ہے جب کہ پاکستان ”امپورٹڈ“ چیزیں استعمال کرتا ہے۔ آج جب 2024ء میں بھارت پر نظر ڈالی جائے تو یہ تمام باتیں پاکستان کے لیے لمحہ فکر ہیں۔ بھارت نے ان تمام ”گھٹیا اور دقیانوسی“ پالیسیوں سے خطے میں پاکستان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نہ صرف خطے میں بھارت کا راج ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر پوری دنیا کی حکومت کا خواب دیکھ رہا ہے۔
ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے آج تک کیا سیکھا، یہ ایک اہم سوال ہے۔
nn