عمران خان کو ابھی جیل میں بیٹھ کر سیاسی مقابلہ کرنا ہوگا
پاکستان کی سیاست کے تناظر میں طاقت کا ایک بڑا کھیل مختلف سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں کے درمیان جاری ہے۔ طاقت یا اقتدار کی اس کشمکش میںآئین، قانون کی حکمرانی اور ملک و قوم پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ملک یا ریاست کے مفادات سے زیادہ افراد یا خاندانوں کے مفادات کو اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سیاسی اور معاشی نظام سمیت ریاستی نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ طاقت کی حکمرانی کے اس کھیل میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، اور نہ ہی یہ کھیل ہمارے حالات بدلنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرسکے گا۔
ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں ٹکرائو ہے۔ دوسری طرف عدلیہ بھی ان تمام معاملات میں تقسیم نظر آتی ہے، اور اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان یا پی ٹی آئی کے درمیان بھی ٹکرائو غالب نظر آتا ہے، دونوں قوتیں ایک دوسرے پر سیاسی برتری چاہتی ہیں۔ تیسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جو ایک دوسرے کی سہولت کار ہے ان میں بھی بہت سے معاملات میں ٹکرائو نظر آتا ہے جس کی وجہ سے بھی بہت سے امور پر تقسیم ہیں۔ چوتھی طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی رسّا کشی جاری ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ طاقت کے زور پر میڈیا کو بھی دبانا چاہتے ہیں، اور اس کھیل کی وجہ سے میڈیا بھی عملاً اپنی اہمیت کھورہا ہے۔ اس ساری لڑائی کی بھاری قیمت ریاست پاکستان اور اس میں بسنے والے عام افراد چکا رہے ہیں، کیونکہ اس لڑائی میں عام آدمی کا سب سے زیادہ استحصال ہورہا ہے۔ لیکن طاقت کے حصول کی اس لڑائی میں شامل تمام فریقوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اس بنیاد پرجو بھی حکمت ِعملی اختیار کی جارہی ہے اس کا نتیجہ مزید ایک بڑے سیاسی اور معاشی بحران کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم سب بدلے کی آگ میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں اور کوئی بھی مفاہمت کی بنیاد پر چلنے کو ترجیح نہیں دیتا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہم جسے مفاہمت کی سیاست کہہ رہے ہیں وہ بدقسمتی سے طاقت ور افراد کی مفاہمت ہے، اور اس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ سب فریق ان کی طاقت کو تسلیم کریں۔ یعنی اگر مفاہمت ہوگی تو اس کا ایجنڈا، شرائط اور حکمت عملیوں سمیت کیا دینا ہے اور کیا لینا ہے اس کا فیصلہ بھی طاقت ور قوتیں ہی کریں گی۔ اگر یہ منطق مان لی جائے تو یہ یقینی طور پر مفاہمت نہیں بلکہ طاقت ور فریقوں کی ڈکٹیشن ہوگی یا اسے اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کا کھیل سمجھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مفاہمت کی بات بھی روایتی ہے اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل رہا، اور اس مفاہمت کو جعلی مفاہمت سمجھا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف سیاسی اور معاشی استحکا م کی باتیں ہوں اور دوسری طرف بدلے کی سیاست کا ایجنڈا… ایسے میں کیسے مفاہمت کا عمل کیسے آگے بڑھ سکے گا! پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ طور پر مفاہمت کی جو بھی باتیں ہورہی ہیں وہ نتائج نہیں دے رہیں، اور لگتا ہے اسی مایوسی کی وجہ سے ایک بار پھرپی ٹی آئی کے خلاف نئی حکمت عملی کے تحت طاقت کے استعمال کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔ عمران خان جو پہلے ہی سے قید ہیں اُن پر ملک دشمنی اور غداری کے نئے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ اسی طرح سائفر کیس کی کمزوری کے بعد شاہ محمود قریشی پر دہشت گردی کے نئے مقدمات ڈال دیے گئے ہیں۔ حال ہی میں فارمیشن کمانڈر کانفرنس کی جو پریس ریلیز سامنے آئی ہے اُس میں ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی صورت میں 9 مئی والوں کو کوئی معافی نہیں ملے گی اور عدالتوں کو ہر صورت ان کو سزا دینی ہوگی۔ جب کہ عدالتوں کی حالت یہ ہے کہ وہ مسلسل 9 مئی کے ملزمان کو کمزور شہادتوں یا شواہد کی عدم موجودگی کی بنیاد پر رہا کررہی ہیں اس وجہ سے تنقید ہورہی ہے تو عدالتوں پر اورعدالتوں کو پی ٹی آئی کے سہولت کار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ خود وزیراعظم شہبازشریف نے عدالتوں میں موجود ججوں کو کالی بھیڑوں سے تشبیہ دی ہے اورکہا ہے کہ جج روزانہ کی بنیاد پر اس نکتے پر غور کرتے ہیں کہ ہم کیسے عمران خان کی ضمانت کو یقینی بناسکتے ہیں۔ اسی طرح روزانہ کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور وزراء کی فوج در فوج پریس کانفرنسیں کرکے پی ٹی آئی اور ججوں کے باہمی گٹھ جوڑ پر تنقید کررہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی سیاسی راستہ اختیار کرے اور مذاکرات کی طرف بڑھے، دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ہی لوگ جوابی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کو دہشت گرد کہتے اور اس پر عملاً پابندی لگانے کی باتیں کرتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دو برسوں میں جو حکمت عملیاں عمران خان دشمنی میں اختیار کی گئیں ان کی ناکامی سے کوئی سبق نہیں سیکھا جارہا۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کا علاج آئینی اور قانونی بنیادوں پر پابندی یا ان کی سیاست کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سیاسی حکمت عملیوں ہی سے ہوسکتا ہے۔ ماضی میں ہم نے جس بھی سیاست دان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا یا اُسے جبری بنیادوں پر سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی وہ ناکام رہی، اور اب بھی عمران خان کے خلاف جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے وہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔کیونکہ اس طرز کی حکمت عملی سے پہلے سے موجود سیاسی تقسیم مزید گہری ہوگی، اور یہ تقسیم محض سیاست تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دیگر ریاستی اداروں میں بھی اسی طرح کی تقسیم کے مناظر ہمیں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ نوازشریف ہوں، عمران خان ہوں، زرداری ہوں یا مولانا فضل الرحمان… سبھی سیاسی حقیقتیں ہیں اور ان کو مان کر ہی ہم مسائل کاحل تلاش کرسکتے ہیں۔
حکومت کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اس میں جہاں مختلف اتحادی جماعتوں میں تقسیم ہے، وہیں ہمیں مسلم لیگ ن کے داخلی معاملات میں بھی سب اچھا نظر نہیں آرہا۔ ایک خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں نوازشریف سمیت کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے نالاں ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید اور ہماری بے جا حمایت سے ہمارا سیاسی مقدمہ کمزور ہورہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نوازشریف ہوں یا مسلم لیگ ن… ان کو سبق سکھانے کا ایک طریقہ یہ نکالا جارہا ہے کہ فارم 47کو بنیاد بناکر نون لیگ کو کچھ نشستوں سے محروم کردیا جائے، اس طرح یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اگر اس نے اسٹیبلشمنٹ کے معاملات میں اگر مگر کی تو فارم 47کا پنڈورا بکس کھولا جاسکتا ہے، اور اسی حکمت عملی کے تحت پی ٹی آئی کو بھی یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر اس کی دس بارہ نشستوں میں اضافہ ہوجائے تو وہ خود کو پارلیمانی سیاست تک محدود کرلے اور کوئی نیا سیاسی بحران پیدا نہ کرے۔
نوازشریف ایک بار پھر 6 برس بعد مسلم لیگ ن کے صدر بن گئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کو اپنی قیادت میں پارٹی کو متحرک اور فعال کرنا ہے اور ایک ایسا بیانیہ بنانا ہے جو اُن کو نئی سیاسی طاقت دے سکے۔ لیکن نوازشریف نے صدر بننے کے بعد جو تقریر کی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کو ایک طرف بیانیے کی تلاش ہے تو دوسری طرف سمجھوتوں کی سیاست کا بوجھ بھی ہے جو اُن کو بڑے فیصلے کی طرف جانے سے روکتا ہے۔ نوازشریف عملی طور پر بیانیے کی تلاش میں ہیں لیکن ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا بوجھ اور دوسری طرف اپنی ہی وفاقی اور صوبائی حکومت پر تنقید اُن کے لیے مشکل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں اور اُن کی جگہ ہم کو عمران خان ایک مختلف پاپولرپوزیشن پر نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ اس صورتِ حال میں وہ کوئی درمیانی راستہ نکالے تاکہ دونوں معاملات میں توازن پیدا ہوسکے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا اور تضاد پر مبنی پالیسی خود حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں ہے، مگر اس وقت وہ کیونکہ حکومت میں ہے اس لیے اُس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے توان کو ریلیف ملنا اب عدالتوں پر منحصر ہے۔کیونکہ پہلے سے جو مقدمات چل رہے ہیں اور اب جو نئے مقدمات بن رہے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں ابھی کوئی نرم پالیسی نہیں، بلکہ انہیںفی الحال جیل ہی میں بیٹھ کر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا، اورنہ صرف خود حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ ان کی جماعت کو بھی ابھی بہت سی مشکلات برداشت کرنا ہوں گی۔ اس کی تازہ جھلک ہم نے عدت مقدمے میں دیکھ لی جہاں ان کے بارے میں عدالت کا محفوظ فیصلہ سامنے آنا تھا مگر اُس دن جو مظاہرہ بشریٰ بی بی کے پہلے خاوند خاور مانیکا نے عدالت میں کیا اور جج پر عدم اعتماد کیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا اورمقصد عمران خان کو ریلیف دینے سے روکنا تھا۔ اب بھی یہی کچھ ظاہر ہورہا ہے کہ عمران خان کا راستہ روکنا ہے اور کسی بھی صورت میں ان کو عدالتی ریلیف ملنے نہیں دینا، جس کے لیے تمام حربے اختیار کیے جارہے ہیں، اور یہی نکتہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کا سبب بھی بن رہا ہے۔ عدالتوں میں اب عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کئی مقدمات موجود ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلالیا ہے، اسی طرح عدت اور سائفر کیس بھی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کی سماعت کا معاملہ بھی عدالت میں سامنے آنے والا ہے۔ دوسری طرف خود وزیراعظم کی جانب سے براہِ راست عدلیہ پر عمران خان کی حمایت کے حوالے سے تنقید، عدالتوں کی جانب سے عمران خان کو ملنے والے ممکنہ ریلیف کو متنازع بنانا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کے مقدمات سے خود کو علیحدہ کرلیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ چیف جسٹس پر عدم اعتماد کررہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آتا ہے اور یہ نشستیں مجموعی طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو دے دی جاتی ہیں تاکہ حکومت ایک طرف دو تہائی اکثریت حاصل کرسکے، اور دوسر ی طرف بہت سے لوگ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مقصد موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ بات سامنے آجائے گی کہ اس کھیل کا اصل مقصد ہی توسیع کا کھیل تھا اور یہ منصوبہ عملی بنیادوں پر تشکیل دیا گیا تھا جس میں نظریۂ ضرورت کے قانون کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔
معیشت کے محاذ پر بھی ہماری مشکلات کم نہیں ہورہیں، اور بجٹ تخمینوں کے برعکس اگلے برس بھی مہنگائی موجود رہے گی اور روپے سمیت زرِمبادلہ کے ذخائر دبائو کا شکار رہیں گے۔ مالیاتی استحکام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ حکومت بروقت آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکیج لینے میں عملاً کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ترقیاتی بجٹ آئین اور این ایف سی سے ہم آہنگ ہو، تاکہ ہمیں کسی نئی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف نے تین برس کے نئے قرضہ پروگرام کے اسٹاف معاہدے کے لیے تجاویز کا مسودہ پاکستانی حکام کے حوالے کردیا ہے اور اسی کو بنیاد بناکر وفاقی حکومت اپنے بجٹ کو حتمی شکل دینے کی کوشش کررہی ہے۔ اس لیے بجٹ کا پیش ہونا اور اس میں عوامی توقعات کی جھلک کا نہ ہونا حکومت کے لیے نئی مشکلات پیدا کرے گا۔