میزانیہ اور حکومتی ترجیحات

وفاقی حکومت کا سالانہ میزانیہ اسی ہفتے متوقع ہے، صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے اپنا میزانیہ وفاقی حکومت سے بھی قبل پیش کرکے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے، جب کہ باقی تین صوبوں کے میزانیے حسبِ روایت وفاق کے بعد پیش کیے جائیں گے۔ مالی سال 2024-25ء کے میزانیے سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے آئے روز نت نئی ہدایات سامنے آرہی ہیں جن کی وجہ سے عوام میں مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے خوف کی ایک لہر بھی لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ ملک میں بدترین مہنگائی کے سبب 70 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، عام آدمی کے لیے بچوں کی تعلیم اور صحت وغیرہ کے بنیادی لازمی اخراجات برداشت کرنا تو دور کی بات ہے، دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہورہا ہے، ایسے میں یوٹیلٹی بلوں میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر آئے روز اضافے نے لوگوں کے لیے زندگی اجیرن بنادی ہے۔ بجلی اور گیس وغیرہ کے بل پہلے سے ناقابلِ برداشت ہیں اور اِس برس کے آغاز میں عوام ان کی بڑھتی ہوئی شرح کے خلاف اپنے شدید جذبات کا اظہار جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق کی اپیل پر مثالی ملک گیر ہڑتال کی صورت میں کرچکے ہیں۔ حکمرانوں نے اُس وقت تو لوگوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کا اعلان کیا مگر بعد ازاں ان میں سے کسی بھی اعلان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ بجلی کے نرخ کو کنٹرول کرنے والی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے عوام کی قوتِ برداشت کا امتحان لیتے ہوئے اِس ماہ کے آغاز میں بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا ہے۔ 3 روپے 25 پیسے فی یونٹ کا یہ اضافہ سہ ماہی فیول ایڈجسٹمٹ کے نام پر کیا گیا ہے جس کا اطلاق جون، جولائی، اگست کے تین ماہ کے لیے ہوگا، اور اس کے نتیجے میں صارفین پر34 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ حکومت دعوے تو عوامی ہمدردی کے کرتی ہے مگر اربابِ اقتدار کو قطعاً یہ احساس نہیں کہ غریب آدمی شدید گرمی میں بجلی کے بڑھے ہوئے استعمال کی موجودگی میں بجلی کے یہ اضافی بل کیسے ادا کرے گا۔ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ پاکستان میں بجلی کی مہنگائی کا بنیادی سبب آئی، پی، پیز (انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) ہیں جن کے ساتھ معاہدے کرنے والے ہمارے حکمرانوں نے اپنے خفیہ مفادات کے تحفظ کی خاطر ان کی قطعی ناقابلِ قبول شرائط تسلیم کیں، حتیٰ کہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ معاہدے میں طے شدہ ناقابلِ یقین شرائط کے تحت بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں میں سے بعض مسلسل بند رہنے اور بجلی کا ایک بھی یونٹ پیدا نہ کرنے کے باوجود پاکستانی قوم سے باقاعدگی سے اربوں روپے وصول کررہی ہیں۔ ایسے سراسر ناجائز اخراجات ہی کے سبب ملک کے مقامی قرضوں میں 4 ہزار 622 ارب روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو مارچ تک 43 ہزار 432 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے 6 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 61 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جب کہ بیرونی واجبات 6 فیصد اضافے کے بعد 3 ہزار 284 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی صورت میں ان مقامی اور بیرونی قرضوں میں مزید اضافہ لازم ہے۔

آئندہ مالی سال کا میزانیہ پاکستان میں عام طور پر اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہی ہوا کرتا ہے جس میں حکومت کے آمدن و اخراجات کے حسابات اور محصولات کے گوشوارے کی عکس بندی کرکے اور عوام کو سبز باغ دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تاہم ایک حقیقی میزانیے کو حکومتی آمد و خرچ کے اہداف کے علاوہ اس کی ترجیحات کا آئینہ دار اور عوامی فلاح و بہبود کے عزائم کا عکاس بھی ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں میزانیہ پیش کرتے وقت حکمرانوں کی اوّلین ترجیح بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور قرضہ دینے والے دیگر عالمی اداروں کی ہدایات پر عمل اور اُن کی عائد کردہ شرائط کی تکمیل ایک مجبوری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم بیرونی ممالک اور عالمی اداروں سے جو قرض لینے کے لیے اُن کی جائز ناجائز تمام شرائط پوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ ماضی میں حاصل کیے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا ہے جو سودی نظام جسے اللہ اور رسولؐ سے جنگ قرار دیا گیا ہے، کو رائج اور قوم پر مسلط رکھنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ خود خالقِ کائنات کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مارتا ہے، مگر ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو نہ جانے یہ حقیقت کیوں سمجھ میں نہیں آتی، جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں کے احکام کے باوجود سودی مالیاتی نظام سے جان چھڑانے پر آمادہ ہیں نہ اسلام کے بابرکت نظامِ معیشت کو اختیار کرنے پر تیار ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے موجودہ وزیراعظم کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت کے دور میں دوٹوک فیصلہ دیا تھا کہ حکومت سودی نظام ختم کرکے اس کی جگہ شرعی معاشی نظام نافذ کرے کہ یہ آئینِ پاکستان کا لازمی تقاضا ہے، مگر حکومت نے اس پر عمل درآمد کے بجائے عدالتِ عظمیٰ میں اپیل کا پرانا حربہ اختیار کیا۔ آئندہ میزانیے کے حوالے سے اب تک جو حکومتی ترجیحات اور عزائم سامنے آئے ہیں ان میں بھی کہیں اس امر کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ وہ سود سے نجات کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ ایسے میں قوم کی فلاح بھلا کیسے ممکن ہے…؟ (حامد ریاض ڈوگر)