خانہ کعبہ کی ’پرستش‘ یا مرکزیت

اسلام خالص توحیدی مذہب ہے، جو اللہ کے سوا سرے سے کسی کو معبود ہی نہیں مانتا، اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے کسی کے اندر حلول کیا ہے، یا وہ کسی مادّی مخلوق کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ خانۂ کعبہ کو اگر غیر مسلموں نے نہیں دیکھا ہے تو اس کی تصویریں تو بہرحال انھوں نے دیکھی ہی ہیں۔ کیا وہ راست بازی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بُت ہے جس کی ہم پرستش کررہے ہیں؟ کیا کوئی شخص بہ درستیٔ ہوش و حواس یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ چوکور عمارت اللہ ربّ العالمین کی شکل پر بنائی گئی ہے؟ رہا حجر اَسود کا بوسہ، تو اُسے بُت پرستی کے قبیل کی کوئی چیز سمجھنا تو اور بھی زیادہ نادانی کی بات ہے۔ حجراسود ایک چھوٹا سا پتھر ہے، جو خانۂ کعبہ کی چار دیواری کے ایک کونے میں لگا ہوا ہے۔ مسلمان اُس کی طرف رُخ کرکے سجدہ نہیں کرتے، بلکہ خانۂ کعبہ کا طواف اس مقام سے شروع کرکے اسی مقام پر ختم کرتے ہیں، اور ہر طواف پر اسے بوسہ دے کر، یا اس کی طرف اشارہ کرکے شروع کرتے ہیں۔ اس کا آخر بُت پرستی سے کیا تعلق ہے؟

اب رہی یہ بات کہ دُنیا بھر کے مسلمان خانۂ کعبہ ہی کی طرف رُخ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ مرکزیت اور تنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دُنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز اور ایک رُخ متعین نہ کردیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شمال کی طرف اور چوتھے کا جنوب کی طرف۔ اور جب مسلمان نمازِ باجماعت کے لیے کھڑے ہوتے تو ہر مسجد میں ہرنماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہر مسجد کی تعمیر کے وقت ہر محلّے میں یہ جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رُخ کس طرف ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ اور قبلہ اُسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی، اور خدائے واحد کی پرستش کے لیے دُنیا میں سب سے پہلا معبد وہیں بنایا گیا تھا۔
(’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد61، عدد2، نومبر 1963ء، ص61-62)