’سیکڑوں‘ کہنا تو شاید مبالغے کی بات ہوگی، مگر صاحب! بلامبالغہ بیسیوں احباب نے ذاتی پیغامات بھیج بھیج کرکالم نگار کو ایک خبر سے باخبر کیا اور اس خبرِ پُراثر پر کالم نگار سے اپنی (بے اثر) رائے دینے کی پُرزور فرمائش کی۔ خبر یہ تھی:
’’وفاقی محتسب نے پاکستان کے زرِ کاغذی پر درج اُردو عبارت تبدیل کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ سنادیا۔‘‘
خانیوال سے تعلق رکھنے والے، اُردو زبان و ادب کے محقق، ماہر لسانیات، شاعر اور عامل صحافیوں کے سرخیل جناب شہزاد فیضی نے شاید سوچا ہوگا کہ بنک دولت پاکستان ملکی معیشت اور ملک میں مدتوں سے پھیلا ہوا افراطِ زر ہی درست کر پا رہا ہے، نہ اپنے ماہرینِ معیشت کی تمام تر قابلیت، ذہانت اور مہارت کے باوجود سودکی لعنت کا طوق اپنے گلے سے اُتار پھینکنے کی سکت رکھتا ہے، تو اس ناطاقتی کے عالم میں لیٹے لیٹے بے کار مباش کچھ تو کرے، اپنا پاجامہ ہی اُدھیڑ کر سِیے، یعنی اِس دورِ نادرستی میں کم از کم اپنی اُردو ہی درست کرلے۔ چناں چہ اُنھوں نے وفاقی محتسب کے علاقائی دفتر ملتان میں بنک دولتِ پاکستان کی دُرستیِ اُردو کے لیے درخواست دائر کردی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس درخواست کی نہ صرف سماعت کی گئی، درخواست گزار کے مؤقف کو درست قرار دے کر حکم صادر کیا گیاکہ اغلاط درست کی جائیں، بلکہ بینک کے نمائندے نے بھی غلطیاں تسلیم کرکے انھیں درست کرلینے کی یقین دہانی کرادی۔ اس یقین دہانی پر محتسب عدالت نے پاکستان کے مرکزی بنک کو ساٹھ دن کی مہلت دے دی۔ جتنی اُردو درست کرنی ہے، اُتنی درستی کے لیے ساٹھ دن بھی بہت ہیں۔ مگر سرکاری اداروں کا ایک ایک دن سیکڑوں دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ اب دیکھیے، بنک والے ساٹھ دن کے بعد وفاقی محتسب کی عدالت میں پیش ہوکر کیا عذر پیش کرتے ہیں۔
وفاقی محتسب کا فیصلہ آتے ہی ہمارے نام مذکورہ مراسلات آنے لگے۔ پہلے بوندا باندی ہوئی، پھر موسلا دھار برسات۔ ہمارے احباب میں سے جس جس حبیب کو یہ خبر ملتی گئی وہ بڑی محبت سے ہمیں بھیجتا گیا۔ حتیٰ کہ مرکزِ مطالعۂ پاکستان، جامعہ پشاور کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فخرالاسلام کا حکم بھی موصول ہوا کہ ’’اس موضوع پر آپ کا ایک کالم ہوجائے تو مزید تفہیم میں مددگار ہوگا۔‘‘
ہمارا خیال تو یہ تھا کہ بنک دولت پاکستان کو تفہیم ہی نہیں ہوئی، اُس کی اچھی خاصی ’فہمائش‘ بھی ہوگئی ہے۔ مگر تعمیلِ فرمائش بھی ضروری ہے۔ سو، پہلی بات ’بنک‘ ہی پر ہوجائے۔ لیکن ’بنک‘ کے موضوع پر بات کرنے سے پہلے اُن قارئین تک پوری بات پہنچا دی جائے جن تک مراسلات کی برسات کے باوجود یہ بات نہیں پہنچ سکی۔ صاحبو! زرِکاغذی پر اُردو کی جن اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے وہ یہ ہیں:
’’بینک کا املا غلط ہے، درست بنک ہے۔ ’روپیہ‘ ہائے مختفی کے ساتھ نہیں، اخیر میں الف کے ساتھ ’روپیا‘ لکھنا چاہیے۔ جمع کے صیغے میں روپیہ نہیں ’روپے‘ لکھا جائے گا۔ ’حامل ہٰذا کو مطالبہ پر اداکریگا‘ میں قواعد و املا کی تین غلطیاں ہیں۔ مرکب لفظ ’حاملِ ہٰذا‘ کی ترکیب قواعد کی رُو سے غلط ہے۔ ان دونوں کے درمیان جب تک متعلقہ اسم نہیں ہوگا مفہوم کی تکمیل نہیں ہوگی۔ ’مطالبہ‘ لکھنا بھی غلط ہے۔ حرفِ جار ’پر‘ کی وجہ سے امالہ آئے گا اور ’مطالبے پر‘ لکھا جائے گا۔ جو حروف الگ الگ لکھے جاتے ہیں انھیں ملا کر لکھنا اُصولِ املا کے منافی ہے، اس لیے ’کریگا‘کی جگہ ’کرے گا‘لکھنا درست ہوگا۔ ’حکومتِ پاکستان کی ’ضمانت سے‘ جاری ہوا‘ اُردو قواعد کی رُو سے غلط ہے، لہٰذاحکومتِ پاکستان کی ’ضمانت پر‘ جاری ہوا تحریر کیا جائے۔‘‘
یہ فیصلہ چوں کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر موضوعِ گفتگو بن گیا اور وسیع پیمانے پر بنا رہا، چناں چہ قومی عادت سے مجبور قوم کے لوگوں نے اس فیصلے پر حسبِ توفیق کوئی نہ کوئی اعتراض جَڑنا اپنا فرض جانا۔ ہماری قومی عادت بن چکی ہے کہ غلاظت پر بیٹھنے والی مکھی کی طرح ہر جگہ غلاظت ہی تلاش کی جائے۔ پھرجا بجا اس غلاظت کے جراثیم پھیلا دیے جائیں۔ پورے ماحول میں بیماری بانٹ دی جائے۔ ارے بھائیو! کیا بھول گئے ہو کہ تمھاری اُمت کی مثال’شہد کی مکھی‘ سے دی گئی ہے، جو سارے میں صرف اور صرف پھول کھوجتی پھرتی ہے۔ پھول مل جائے تو اُسے نقصان پہنچائے بغیر اُس کا رس چوس کر ایک صحت بخش اور شفا بخش غذائی دوا تیار کردیتی ہے۔ اِس غذا، اِس دوا سے پورا معاشرہ فیض یاب ہوتا ہے۔ یعنی شہد کی مکھی بیماری کی لعنت نہیں، صحت کی نعمت بانٹتی ہے۔ پہلے پہل ہماری امت بھی ایسی ہی ہوا کرتی تھی۔
اعتراض برائے اعتراض کرنے والوں نے پہلا اعتراض یہی کیا کہ درست تلفظ تو ’بینک‘ ہے۔ ہوگا، مگر تمھاری انگریزی میں۔ ہماری اُردو اور ہماری عربی میں اس کا تلفظ ’بنک‘ ہے۔ جب کہ ہماری فارسی میں اسے’بانک‘ بولا جاتا ہے۔ عربی میں ‘State Bank’ کو ’بنک الولایہ‘ کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں اس لفظ کی جمع ایک ہی ہے۔ یعنی ’بنک‘ اور ’بانک‘ دونوں کی جمع ’بنوک‘ ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ اپنی معرکہ آرا نظم ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ میں فرماتے ہیں:
ایں بنوک ایں فکرِ چالاکِ یہود
نورِ حق از سینۂ آدم ربود
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
’’اِن ’بنوک‘ نے، جو یہودیوں کی فکرِ عیّارکا نتیجہ ہیں، آدمی کے سینے سے نورِ حق سلب کرلیا ہے۔ جب تک یہ پورا سودی نظام تہ و بالا نہ کردیا جائے گا تب تک دانش اور تہذیب اور دین سبھی کچھ خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔‘‘ہمارے قارئین میں سے جو لوگ غور و فکر کے عادی ہیں وہ اگر غور کریں، بلکہ غور و فکر کریں، تو اقبالؔ کے ان اشعار کی پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس سودی نظام نے دنیا بھر میں دانش و تہذیب و دین ہی کونہیں تمام بنی آدم کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔
اُردو میں بھی پہلے ’بنک‘ ہی لکھا جاتا تھا۔ فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات دونوں میں ’بنک‘ لکھا ہوا ہے۔ جدید ’اُردو لغت تاریخی اُصول پر‘ بھی دیکھ لیجے، وہاں بھی یہ املا موجود ہے۔ اب اور کیا سند چاہیے؟ رہا ’روپیا‘ تویہ لفظ ’روپا‘ سے مشتق ہے۔ ’روپا‘ چاندی کو کہتے ہیں۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی نظم ’’آدمی نامہ‘‘ میں آپ نے یہ شعر ضرور پڑھا ہوگا:
اک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے جن کے پاؤں ہیں، سونے کے فرق ہیں
سنسکرت میں چاندی کے سکے کو ’رُوپیکم‘ کہا جاتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے پہلے پہل چاندی کا وہ سکہ جاری کیا جو ’روپیا‘ کہلایا۔ چاندی کا ’روپیا‘ انگریزوں کے دور تک سکۂ رائج الوقت رہا۔ کچھ لوگ ’ی‘ پر تشدید ڈال کر اس کا تلفظ ’رُوپیّا‘ بھی کرتے ہیں۔ ایک کہاوت تو آج بھی کہی جاتی ہے: ’’باپ بڑا نہ بھیّا، سب سے بڑا رُوپیّا‘‘۔ اُصولاً ہندی اور انگریزی الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی نہیں، الف لکھا جاتا ہے۔ تالا باجا کو ’تالہ باجہ‘ لکھنا درست نہیں۔ ’روپیا‘ کو بھی روپیہ لکھنا غلط ہے۔ عربی اور فارسی الفاظ کے آخر میں البتہ ہائے مختفی ہوتا ہے۔
ضمانت والی بات بھی بالکل بجا ہے۔ دیکھیے آج بھی لوگ کسی کی ’’ضمانت سے‘‘ نہیں بلکہ کسی کی’’ضمانت پر‘‘ رہا ہوکر لندن چلے جاتے ہیں۔ مرکب ’حاملِ ہٰذا‘ کے بیچ ’زرِکاغذی‘ کا اِسم ڈال دیجیے، درست ہوجائے گا ’’… حاملِ زرِ ہٰذا کو مطالبے پر ادا کرے گا۔‘‘
باقی اعتراضات بھی درست ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ کہ جب عدالت اور مدعا علیہ دونوں نے مدعی کی نشان زدہ اغلاط کو اغلاط مان لیا تو اب آپ پیٹ پر ڈھول باندھ کر (یا ڈھول باندھے بغیر ہی) پیٹتے رہیں، کیا ہوگا؟ آپ ہی کے پیٹ کی خرابی و خواری ہوگی۔