غزہ کی مزاحمت:حماس اسرائیل اور گولڈن اسٹون رپورٹ

اب اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ پر اسرائیل میں اس قدر شور کیوں برپا ہوا اور اِس رپورٹ کے مندرجات کو غلط قرار دینے کے لیے اسرائیلی حکومت نے سفارتی سطح پر غیر معمولی کوششیں، بلکہ مہم کیوں شروع کی

(تئیسویں قسط )

امریکی ایوانِ نمائندگان نے 36 کے مقابلے میں 344 ووٹوںکی اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں گولڈ اسٹون رپورٹ کو مکمل طور پر غیر جانب دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اس حوالے سے کسی بھی طرح کی بحث و تمحیص کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایوانِ نمائندگان میں رائے شماری سے قبل اس قرارداد پر رچرڈ گولڈ اسٹون نے توضیحی رپورٹ بھی پیش کی جس میں قرارداد کے ایک ایک نکتے پر بحث کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ معلومات اور حقائق کے حصول میں پوری توجہ سے کام نہیں لیا گیا اور بے بنیاد و بلا جواز اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔

اوباما انتظامیہ نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو کسی بھی بین الاقوامی فورم میں آگے بڑھائے جانے اور کامیابی سے ہم کنار کرائے جانے کی راہ مسدود کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ پسِ پردہ کام کیا اور اُس کی کوشش رہی کہ یہ رپورٹ جس قدر بھی کامیابی حاصل کرچکی ہے اُسے بھی ناکامی سے دوچار کیا جائے۔ اُس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے بڑھک مارتے ہوئے کہا کہ میں نے خصوصی مینڈیٹ کے تحت کام کرتے ہوئے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچانے اور گولڈ اسٹون رپورٹ کو ناکامی سے دوچار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکہ اور اسرائیل نے مل کر فلسطینی اتھارٹی پر بھی دباؤ بڑھایا اور اُس سے کہا کہ وہ گولڈ اسٹون رپورٹ کی سفارشات کے لیے اپنی حمایت ترک کردے۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اب فلسطینی اتھارٹی اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اُسے طے کرنا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف کھڑی ہے۔ اس دھمکی کے نتیجے میں جو کچھ ہونا تھا اُسے منظرِعام پر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے نے گولڈ اسٹون رپورٹ کے اُن حصوں کو غلط قرار دے دیا جن میں اسرائیل پر نہتے فلسطینیوں اور بالخصوص خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس پر فلسطینیوں نے اس قدر شدید ردِعمل کا اظہار کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو اپنا فیصلہ واپس لینے کے بارے میں سوچنا پڑا اور اس کے لیے مرکزی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ کا نئے سرے سے بھرپور جائزہ لینے کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے کہا کہ وہ اس رپورٹ کی بنیاد پر نہتے شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث افراد کے بارے میں تحقیقات کرے اور اُنہیں قرار واقعی سزا دے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی سفارشات کی توثیق کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ سے استدعا کی کہ اِن سفارشات پر عمل یقینی بنایا جائے۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 کے مقابلے میں 114 ووٹوں کی اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل اور حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے، اُنہیں قتل کرنے کے واقعات کی شفاف، غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائے اور گولڈ اسٹون رپورٹ میں فیکٹ فائنڈنگ مشن کے تحت بین الاقوامی قانون کی جن خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اُن کے حوالے سے خصوصی تحقیقات کرائی جائے۔ 44 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس قرارداد کو حقیقت کے منافی اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اب اُس کا یہ پیغام دنیا بھر میں جارہا ہے اور قبول کیا جارہا ہے کہ یہ ساری تحقیقات یک طرفہ اور جانب دارانہ ہے۔ اسرائیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جمہوری ریاستوں میں اُس کے مؤقف کو درست تسلیم کیا جارہا ہے۔ فروری 2010ء میں اقوام متحدہ کے اُس وقت کے سیکریٹری جنرل بان کی مُون نے ایوان کو بتایا کہ جنرل اسمبلی کی نومبر کی قرارداد کے حوالے سے کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے کیونکہ جنرل اسمبلی کے رکن ممالک کی غالب اکثریت نے غزہ میں قتلِ عام کی جامع اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کے حوالے سے کچھ خاص کرنے پر اب تک توجہ نہیں دی ہے۔

فروری 2010ء ہی میں جنرل اسمبلی نے 7 کے مقابلے میں 98 ووٹوں کی اکثریت سے ایک اور قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل اور حماس پر ایک بار پھر زور دیا گیا کہ وہ نہتے شہریوں کے قتلِ عام کی جامع، شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ سیکریٹری جنرل بان کی مُون کو بھی پابند کیا کہ وہ پانچ ماہ کے اندر اس حوالے سے پیش رفت کے بارے میں رپورٹ کریں۔ یورپ کے یہودی گروپوں کی بھرپور لابنگ کے باوجود مارچ 2010ء میں یورپی پارلیمنٹ نے 287 کے مقابلے میں 335 ووٹوں کی اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں گولڈ اسٹون رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں غیر جانب دارانہ تحقیقات اور تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں تمام مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں بین الاقوامی قوانین کے علاوہ جنگی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے جامع تحقیقات یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا تھا۔ یورپی یونین میں اسرائیل کے مشن نے اس قرارداد کو منفی اور نقصان دہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

جنوری اور جولائی 2010ء میں اسرائیل نے غزہ کی صورتِ حال اور وہاں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے متعلق تحقیقات کے بارے میں اپ ڈیٹ جاری کیں۔ ان دونوں اپ ڈیٹس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج اور حکومت نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے بارے میں کئی بار تحقیقات کی اور یہی نتیجہ نکلا کہ اسرائیلی فوج نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ اپ ڈیٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ متعدد افسران کے خلاف نظم و ضبط کی کارروائی کی گئی۔ ایک افسر کو انتہائی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا اور ایک سپاہی کو ایک فلسطینی کا کریڈٹ کارڈ چرانے کے جرم میں ساڑھے سات ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک اسرائیلی فوجی نے سفید جھنڈا لہرانے والی فلسطینی عورت کو قتل کردیا تھا۔ اُسے یہ کہتے ہوئے کلین چِٹ دے دی گئی کہ سپاہی نے انتباہ کے لیے فائر کیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ نہتے اور غیر متحارب شہریوں کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کے لیے متعدد نئے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کے نفاذ سے معاملات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اسرائیلی حکومت نے یہ نکتہ یکسر نظرانداز کردیا کہ اگر اُس نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہوتا اور صرف حماس یا دیگر فلسطینی گروپوں کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیوں تک خود کو محدود رکھا ہوتا تو گولڈ اسٹون رپورٹ میں اُسے اِس سنگین الزام کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ یہ پورا آپریشن نہتے، غیر متعلق اور غیر متحارب فلسطینیوں کو دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کی غرض سے تھا۔ اسرائیلی اپ ڈیٹس کے بارے میں سب سے پہلے اسرائیلی اخبار ہارتیز نے اداریے میں لکھا کہ یہ اعلان زیادہ مؤثر اس لیے نہیں ہے کہ اِس سے یہ پتا نہیں چلتا کہ معاملات کی درستی کے لیے خاطر خواہ تحقیقات کی گئی ہے یا نہیں۔ مگر پھر اُس نے بھی اپنی رائے رجوع کرلیا اور بعد کے ایک اداریے میں لکھا کہ اسرائیلی حکومت نے تحقیقات کا جو دوسرا راؤنڈ مکمل کیا ہے وہ کافی ہے اور اب گولڈ اسٹون رپورٹ کا باب بند ہوجانا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی دعووں کو یکسر مسترد کردیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے لکھا کہ اسرائیل نے تحقیقات کے دوسرے دور میں جن کامیابیوں کا ذکر کیا ہے وہ کافی نہیں، اور نہتے شہریوں کے قتلِ عام اور املاک کی بلا جواز تباہی کے حوالے سے بہت کچھ کیا جانا چاہیے۔ جون 2010ء میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن نے ایک خصوصی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جسے غزہ آپریشن کے دوران فریقین کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا ٹاسک سونپا گیا۔ ستمبر 2010ء میں اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کی جس میں اسرائیل کی طرف سے تحقیقات کو سراہا تو گیا تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام اور املاک کی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین اور اُنہیں قرار واقعی سزا دلائے جانے سے متعلق بہت کچھ زیادہ نہیں کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ کمیٹی یہ بھی نہیں لکھ سکی کہ غزہ کی خودمختار انتظامیہ کی طرف سے جو غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کی جانی چاہیے تھیں وہ کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مرتب کیے جانے تک حماس نے اسرائیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ افراد کو لڑائی کے دوران قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلاکر سزائیں بھی سنائی تھیں۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کے ریلیز ہونے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ اسرائیل اور غزہ کی خود مختار اتھارٹی کی طرف سے بنیادی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے اور اس حوالے سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر سے کہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ آیا غزہ کے معاملات انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی کارروائی کا موضوع بن سکتے ہیں۔

مارچ 2010ء میں نیم سرکاری اسرائیلی انٹیلی جنس اینڈ ٹیرر ازم انفارمیشن سینٹر نے گولڈ اسٹون رپورٹ کے جواب میں ایک ضخیم دستاویز جاری کی جس میں اسرائیلی فوجیوں اور حماس کے جنگجوؤں سے کی جانے والی تفتیش کی روشنی میں (بنیادی حقوق کے متعدد اداروں کی جاری کردہ رپورٹس کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے) بتایا گیا کہ اسرائیل کی طرف سے آپریشن کاسٹ لیڈ شروع کیے جانے سے قبل غزہ میں بنیادی اشیائے صرف کے حوالے سے کوئی بڑا بحران موجود تھا۔ اس دستاویز میں یہ بھی درج تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اسرائیل کی4 نومبر 2008ء کی فوجی کارروائی سے ختم نہیں ہوئی بلکہ حماس اِسے پہلے ہی ختم کرچکی تھی۔ اس میں یہ بے بنیاد الزام بھی لگایا گیا کہ حماس کی طرف سے اپنے مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے انتہائی سفاک طریقوں کا گولڈ اسٹون رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پوری رپورٹ میں حماس کی طرف سے راکٹ داغنے اور دیگر حملوں کے ذکر کے لیے صرف تین پیرا گراف مختص کیے گئے اور اسرائیل میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ اس دستاویز نے بے بنیاد الزام لگایا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں حماس کو اسرائیلی نہتے شہریوں کی ہلاکت سے مکمل طور پر بری الذمہ قرار دے دیا گیا۔ اسرائیلی دستاویز میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ مرتب کرنے والوں نے حماس کی طرف سے انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے عمل کا ذکر ہی نہیں کیا اور سویلین ہلاکتوں کے بارے میں حماس کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر اکتفا کیا گیا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس اینڈ ٹیرر ازم انفارمیشن سینٹر نے الزام لگایا کہ اسرائیلی فوج یا حکومت نے نہیں بلکہ حماس نے گولڈ اسٹون رپورٹ کے مرتبین سے تعاون سے انکار کیا۔ اسرائیلی دستاویز میں الزام لگایا گیا کہ حماس کے جنگجوؤں نے کئی مواقع پر نہتے شہریوں کو اسرائیلی ٹینکوں کے آگے کردیا تاکہ اسرائیلی فوجی گولے داغنے سے گریز کریں۔ اسرائیلی دستاویز نے حماس پر شہریوں کو اسرائیلی فوج کے ٹینکوں کے سامنے لا کھڑا کرنے کا ذکر تو کیا اور یہ کہ ایسا کرنے سے حماس کے جنگجوؤں کو پسپا ہونے کا موقع ملا، مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ جن شہریوں کو ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا اُن کا ردِعمل کیا تھا، کیا وہ ٹینکوں کے آگے کھڑے ہوگئے یا مزاحمت کی؟

اب اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ پر اسرائیل میں اس قدر شور کیوں برپا ہوا اور اِس رپورٹ کے مندرجات کو غلط قرار دینے کے لیے اسرائیلی حکومت نے سفارتی سطح پر غیر معمولی کوششیں، بلکہ مہم کیوں شروع کی۔ اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے انسانی حقوق کے گروپس کی سیکڑوں رپورٹس جاری ہوچکی تھیں اور اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے اداروں کو بھی درخورِ اعتنا سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔(جاری ہے)