حکومت پاکستان اپنا فرض کب ادا کرے گی؟
جب کشمیر کی معروف دینی شخصیت میرواعظ مولوی محمد فاروق کی تئیسویں برسی کی تیاریاں ہورہی تھیں عین اُس وقت اُن کے صاحبزادے اور حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمرفاروق کی جائداد کی تحقیقات کی خبریں منظم انداز میں پھیلائی جانے لگیں۔ ان خبروں کے مطابق میرواعظ کی کئی نسلوں سے چلی آنے والی رہائش گاہ کی زمین کی اینٹی کرپشن بیورو تحقیقات کررہا ہے، اگر یہ زمین محکمہ کسٹوڈین کی ثابت ہوئی تو اسے ضبط کرلیا جائے گا۔ اس پر میرواعظ عمر فاروق کے ترجمان نے ایک تفصیلی وضاحتی بیان جاری کیا اور کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے میرواعظ کو خوف زدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمان نے کہا کہ انجمن اوقاف جامع مسجد، انجمن نصرۃ الاسلام، اور دارالخیر میرواعظ منزل کی تعلیمی فلاحی سرگرمیوں کی حامل تنظیموں کی زمینوں کو میرواعظ کی ذاتی ملکیت قرار دے کر ان کی کردار کشی کی مہم چلائی جارہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ میرواعظ کی اس علاقے میں کوئی زمین ہی نہیں بلکہ جس گھر میں وہ مقیم ہیں وہ میر واعظ عمر فاروق کے سالِ پیدائش یعنی1973ء میں اُن کے والد میرواعظ مولوی محمد فاروق نے تعمیر کرایا تھا۔
میرواعظ کے خلاف یہ مہم کشمیریوں کی زیادہ سے زیادہ زمینوں اور جائدادوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے ہے۔ اس میں چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجد کے گرد ونواح کا علاقہ ہے جسے ایک دور میں ’’منی پاکستان‘‘ کہا جاتا تھا، اور اگر بات اس علاقے تک پہنچ گئی ہے تو کل جامع مسجد کی بنیاد میں بھی کسی ہندو دیوتا کی باقیات دریافت کرکے کشمیری مسلمانوں کے سب سے بڑے تہذیبی مرکز پر سوالیہ نشان لگا دیا جائے گا۔ جس تیز رفتاری سے کشمیریوں کی جائدادوں کو ہتھیانے کا سلسلہ جاری ہے اس میں آنے والے دنوں میں کچھ بھی بعید نہیں۔
اسی دوران تحریکِ آزادیِ کشمیر کے دو سربرآوردہ راہنماؤں میرواعظ مولوی محمد فاروق اور عبدالغنی لون کا یوم شہادت منایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں اس دن عوامی مظاہروں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔ فوج اور پولیس کی اضافی نفری لگاکر عوام کو اپنے جذبات کے اظہار سے روکا گیا۔ اس کے باوجود کشمیری عوام نے دنیا بھر میں تقریبات منعقد کرکے شہید قائدین کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ آزادکشمیر میں بھی کئی تنظیموں نے جن میں ’’پاسبان ِ حریت‘‘ بھی شامل ہے، کشمیری شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ عالمی اداروں سے بھارتی جیلوں میں مقید کشمیری قیدیوں کی حالتِ زار کا جائزہ لینے اور ان کی رہائی کے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
میرواعظ مولوی محمد فاروق کا تعلق کشمیر کے روایتی سیاسی اور دینی میر واعظ خاندان سے تھا، اور یہ خاندان کشمیر میں اسلامی روایات اور تشخص کی علامت رہا ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں کا ہمیشہ تحریکِ آزادی کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ میرواعظ مولوی یوسف شاہ کا شمار مسلم کانفرنس کے قائدین میں ہوتا تھا اور تقسیمِ کشمیر کے بعد انہیں سری نگر سے راولپنڈی ہجرت کرنا پڑی، اور یہاں انہیں آزادکشمیر کا صدر بھی بنایا گیا۔ اس گھرانے نے انجمن نصرت الاسلام کے نام سے دینی ادارے قائم کرکے ریاست کے اسلامی تشخص کو گہرا کیا۔ یہی خاندان کشمیر کی تاریخی جامع مسجد کا متولی اور نگران ہے۔ میرواعظ مولوی محمد فاروق کو 21 جون 1990ء کو اُس وقت گھر میں شہید کیا گیا جب کشمیر کی تحریک عروج کی طرف گامزن تھی اور سری نگر میں ہزاروں افراد کے جلوس نکل کر بھارتی قبضے کے لیے چیلنج بن رہے تھے۔ اُس وقت کشمیر میں سفاک اور متعصب ہندو جگ موہن کا راج تھا، اور یہ شخص ہر قیمت پر وادی کو قتل گاہ بنانا چاہتا تھا۔ ایک حکمتِ عملی کے تحت میرواعظ مولوی فاروق کو شہید کیا گیا اور اس کے بعد اُن کے جنازے کے جلوس پر گولیاں چلا کر درجنوں افراد کو شہید کیا گیا، حد تو یہ کہ جنازے اور تابوت کو بھی گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ 2002ء میں میرواعظ مولوی فاروق کی برسی کی تقریب کے بعد پیپلزکانفرنس کے چیئرمین عبدالغنی لون کو شہید کیا گیا۔ اس طرح یہ دن کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کے لیے ایک سیاہ ترین دن بن کر رہ گیا۔ ان قائدین کو قتل کرنے کا مقصد تحریک ِآزادی کو عوام میں بدنام کرنا اور کشمیریوں کو انتشار کا شکار کرکے آزادی اورحریت کی متحدہ آواز بلند کرنے سے روکنا تھا۔ان قائدین کی شہادت نے بھی کشمیری عوام کے عزم اور حوصلے کو کم کرنے کے بجائے ان کے جذبۂ مزاحمت کو بڑھا دیا اور یہ تحریک حالات کے سردوگرم کے باوجود پوری قوت اور رفتار سے جاری ہے۔میرواعظ مولوی فاروق اور عبدالغنی لون کے بعد اشرف صحرائی جیسے پُرعزم حریت راہنما کو سلو پوائزن کے ذریعے شہید کیا گیا۔اب ایک اور مقبول سیاسی راہنما محمد یاسین ملک کا عدالتی قتل کرکے منظر سے غائب کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ان حالات میں حکومت وریاستِ پاکستان کو اپنے تمام ذرائع اور وسائل کشمیریوں کو اس ظلم وجبر سے نکالنے کے لیے وقف کرنے چاہئیں۔