عدلیہ اسٹیبلشمنٹ ٹکرائو

بہت عرصے سے عدالتی محاذ پر بے بسی کا منظر ہے

پاکستان میں لڑائی، ٹکرائو، محاذ آرائی اور سیاسی دشمنی کے کھیل کو غلبہ حاصل ہے۔ کوئی بھی فریق سیاسی مفاہمت اور تدبر کے ساتھ قومی معاملات کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست دانوں اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ ہمیں مختلف ادوار میں اس طرح کے ٹکرائو دیکھنے کو ملتے رہے ہیں یا یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن جب ریاستی ادارے خود آپس میں الجھ جائیں اور ٹکرائو کا ماحول پیدا کرکے عملاً ایک دوسرے پر عدم اعتماد کریں تو اس سے ریاستی بحران کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور یہ بھی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور ریاست کہاں کھڑے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ہو یا اسٹیبلشمنٹ سے جڑی تاریخ… دونوں کے حوالے سے کوئی اچھے پہلو نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان سارے معاملات کی خرابی میں جس بڑے ادارے کا ہاتھ ہے وہ نظریہ ضرورت کے تحت کام کرنے والی عدلیہ ہے، جس نے آئینی اور قانونی بنیادوں کے بجائے فردِ واحد، طاقت ور طبقات یا اپنی خواہشات کی بنیاد پر عدالتی نظام کو چلایا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاست اور جمہوریت کے نتیجے میں جہاں اور بہت سی خرابیوں نے جنم لیا وہیں ہمیں عدالتی محاذ پر بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہمیںعدالت کے داخلی نظام میں خود ایک بڑی مزاحمت، یا نظریہ ضرورت کے تحت چلانے کی جو روش موجود ہے اُس کے خلاف تحفظات کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ اس بحران کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں اس کے پس منظر کو سمجھنا ہوگا۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ اسلام آباد کی سطح پر طاقت کے سیاسی اور غیر سیاسی مراکز کے درمیان جو جنگ چل رہی ہے اس میں عدالت خود کو مزاحمت کارکے طور پر پیش کررہی ہے، کیونکہ عدلیہ کو لگتا ہے کہ رجیم چینج کے بعد جس انداز سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عدالتوں پر دبائو ڈالا گیا، دھمکایا گیا یا جبر کی بنیاد پر غلط فیصلے کروائے گئے وہ اب اُنہیں قبول نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنا اور اس کا اظہار کرنا کہ ہمیں غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے سخت دبائو کا سامنا ہے، اور ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو دھمکیاں ملتی ہیں۔ اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ ہم پر اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے، اور یہ کھیل ہمیں قبول نہیں۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ عدالت سے زیادہ بڑی طاقت ہے تو اسے اپنی غلطی خود درست کرنا ہوگی، ہم آزاد ہیں اور کسی کے بھی دبائو میں نہیں آئیں گے، اور کوئی ہماری حدود میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ پی ٹی آئی کی قیادت سے لے کر کارکنوں تک جو بھی ہورہا ہے اس میں عدالتوں کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جس کا ردعمل عدالتوں اور ججوں کی جانب سے سامنے بھی آرہا ہے۔ عدالتیں اور جج خود پی ٹی آئی کے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں جیلوں سے باہر نکلنا ہے تو ہمارے پاس آنے کے بجائے بڑی طاقتوں کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور خود کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ عدالتوں کا بار بار پی ٹی آئی کے لوگوں کی ضمانتیں منظورکرنا اور ان کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنا یا ججوں کے خلاف مخالفانہ مہم اور ان کے خاندانوں کے افراد کو ہراساں کرنے یا دھمکیاں دینے سے عدالتی محاذ پر سخت ردعمل پایا جایا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اپنی اپنی سطح پر مزاحمت کررہی ہیں مگر ان کو بھی زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی جس سے حالات میں خرابی کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اس پس منظر میں سارے معاملات کو دیکھنا اور اس کے مطابق حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی۔ کیونکہ جب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر کسی طاقت ور کو عدالتوں کا احترام نہیں کرنا تو ہم سے بھی کوئی یہ توقع نہ رکھے، ہمیں کسی حکومت یا ادارے کی بی ٹیم بن کر کام نہیں کرنا، کیونکہ عدالتی نظام کسی طاقت ور کے لیے نہیں بلکہ مظلوم کی دادرسی کے لیے ہے اور ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے اور کوئی ہم سے بھی لڑنے کی کوشش نہ کرے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ نے یہ باتیں جوڈیشل اکیڈمی کی ایک تقریب میں کہی ہیں۔

حالیہ دنوں شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 29 مئی کو ذاتی حیثیت میں آئی ایس آئی، ایم آئی ، سیکٹر کمانڈر، آئی بی ڈائریکٹر، وزیر قانون ، سیکرٹری دفاع و داخلہ کو طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ یہ تمام افراد ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر بتائیں کہ تحقیقات، تفتیش اور انکوائری کا طریقہ کار کیا ہے۔ ان کے بقول اب ایجنسیاں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ لاپتا افراد کیس کی کارروائی براہِ راست نشر کی جائے، اس وقت مفادِ عامہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے۔ ان کے بقول احمد فرہاد کا بازیاب نہ ہونا ریاست کی ہی ناکامی ہے۔

یہ واقعی عدالت کی جانب سے غیر معمولی واقعہ ہوگا، اور جس انداز سے ان تمام فریقوں کو طلب کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت عدالت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سب اچھا نہیں ہے۔ پچھلے دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں یہی کچھ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں نہیں مل رہیں، جنہوں نے ریاست پاکستان پر حملہ کیا تھا ان کے خلاف عدالتوں کی خاموشی یا سمجھوتوں کی وجہ سے ان کے بقول ریاست کا نقصان ہورہا ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی جانب سے تواتر کے ساتھ عدالتوں اور ججوں کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی عدالتوں یا ججوں کے فیصلوں سے خوش نہیں۔

یہ سب کچھ اس لیے بھی ہورہا ہے کہ بہت عرصے سے عدالتی محاذ پر بے بسی کا منظر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ عدالت پر دبائو واقعی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اسی بنیاد پر جج حالیہ صورتِ حال میں کام کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ تو کیا اس صورتِ حال سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ہم مجموعی طور پر ایک بڑے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اگر یہ تصادم ہے تو اس کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا، اور کیا یہ عمل ملک میں پہلے سے جاری سیاسی اور معاشی یا عدالتی بحران کو کم کرسکے گا، یا اس میں مزید شدت اور تلخیاں پیدا کرے گا؟ کیونکہ جس انداز سے حکومتی وزرا یا مشیر عدالتوں اور ججوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات بگاڑ کی طرف جارہے ہیں۔ لاپتا یا گمشدہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہے اور اس کا براہِ راست الزام ہمیشہ ایجنسیوں یا اسٹیبلشمنٹ پر لگتا ہے، اس لیے بار بار ان ہی کو جواب دہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی فرد نے ریاست کو نقصان پہنچایا ہے اور اُس کی گرفتاری مطلوب ہے توکیوں اُس کے خلاف تمام قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا؟ اور کیا وجہ ہے کہ اُس کے خلاف مقدمہ بنانے اور اُسے عدالت میں پیش کرنے سے گریزکیا جاتا ہے؟ ان افراد کا گمشدہ ہوجانا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس پر سب کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس لیے ہمارے ریاستی اداروںکو بھی سمجھنا ہوگا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور پہلے ہی ان پر سخت تنقید ہورہی ہے تو ایسے میں اس طرح کے واقعات سے انہیں اور زیادہ سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو بڑھتا ہے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ پہلی اور آخری کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ معاملات کو شفافیت اور مفاہمت کے ساتھ حل کرنے کی طرف پیش رفت کی جانی چاہیے۔ بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ عدلیہ اور ججوں کو لگام دینا ہوگی کیونکہ اس وقت عملاً ان کا جھکائو پی ٹی آئی کی طرف ہے، اسی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ اگر مجموعی طور پر عدالت یا ججوں کی طرف سے مزاحمت برقرار رہتی ہے اور اس طرح سے اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھتا ہے تو اس کے نتیجے میں حالات ایک بڑے ٹکرائو کی طرف جائیں گے۔ اسی بنیاد پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حالات کی عدم درستی کی بنا پر ایمرجنسی جیسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، ججوں کو فارغ بھی کیا جاسکتا ہے، یا پھر ایک بڑی فوجی مداخلت ہماری منتظر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس کے صرف عمران خان ہی مخالف نہیں ہیں بلکہ اب تو مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی سمیت جماعت اسلامی کی قیادت بھی اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید کررہی ہے۔ اسی طرح ججوں کی حمایت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید میڈیا میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور سول سوسائٹی بھی ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک طرف ان تمام مخالفین سے تنگ ہے تو دوسری طرف اُس کی اپنی لائی ہوئی حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں سہولت کاری کرنا تھی، خود ہی بڑے داخلی سیاسی بحران کا شکار ہے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے عندیہ دیا ہے کہ حکومت بیک ڈور پالیسی کے تحت حکومت عدلیہ بحران کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو تنائو ہے اسے کم کیا جاسکے۔ ان کے بقول اسی تناظر میں حکومت اسٹیبلشمنٹ سے بھی رابطے میں ہے تاکہ عدلیہ کو اسٹیبلشمنٹ سے جن مسائل کا سامنا ہے ان میں کمی لائی جاسکے۔ اور ویسے بھی ہمیں موجودہ حالات کی درستی کے لیے مسائل کا حل آئوٹ آف کورٹ ہی تلاش کرنا ہوگا۔

حالیہ دنوں میں میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نئی لڑائی پیکا قانون یا ہتک عزت قانون کی صورت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ میڈیا میں اٹھنے والی مخالف سیاسی آوازوں کو بھی واضح پیغام دیا جائے کہ ان کی آزادی ہمارے مفادات کے تابع ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا سے منسلک افراد بھی سمجھتے ہیں کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہمیں بھی دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ایسے میں حالات کیونکر بدلیں گے اور کون ان کو بدلے گا، یہی بنیادی نوعیت کا سوال بن کر رہ گیا ہے۔ بظاہر تو حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ حالات اُس کے کنٹرول میں ہیں اور اُسے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ اصل میں حکومت کو بڑا خطرہ اپنے سیاسی مخالفین سے کم اور خود اپنے آپ سے یا اپنے سیاسی و معاشی حالات سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اُسے اندازہ ہے کہ جو حالات سیاسی اور خاص طور پر معاشی طور پر بننے جارہے ہیں ان کو کنٹرول کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہوگا۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف طاقت ور اسٹیبلشمنٹ ہے جسے تمام اختیارات حاصل ہیں اور دوسری طرف عمران خان کی سیاست ہے جو ابھی بھی اس کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے۔ معاشی حالات کی بہتری کا کوئی شارٹ کٹ بھی نہیں جو عوام کی معاشی بدحالی کو کم کرسکے اور وہ حکمران طبقے سے مطمئن ہوسکیں۔ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ ہمارے منصوبے کی منظوری سے پہلے پاکستان بجٹ کا اعلان کرے اور پیٹرول پر جی ایس ٹی نافذ کرے، جو یقینی طور پر حکومت کے آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔