حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا :
”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرائے اچھی بات کہے اور
دوسرے کی طرف سے اچھی بات کرے۔“
(مسلم ،کتاب البر والصلۃ )
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مبالغہ یا جھوٹ اگر جائز ہے تو حدیث کی رُو سے اُس کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱-لوگوں کے درمیان مصالحت کرتے ہوئے ۲-میاں بیوی کا ایک دوسرے کی محبت میں مبالغہ۔
اسی طرح سچ بولنے کی اتنی فضیلت ہے کہ غیبت جیسی برائی بھی چند خاص صورتوں میں جائز ہوجاتی ہے، مثلاً مظلوم کی فریاد رسی اور انصاف کے حصول کے لیے، فتویٰ حاصل کرنے کے لیے، اور معاملات کی اصلاح کے لیے اُن لوگوں کے سامنے حال بیان کرنا جو اس کو درست کرنے کے ذمہ دار ہوں (اس سلسلے میں تفصیلی احادیث اور فقہا کا بیان ریاض الصالحین (حصہ اول) میں غیبت کا جواز کے بیان میں دیکھا جاسکتا ہے)۔
ان دونوں قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے ہم اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ حقیقت میں اخلاق اور معاملات کی درستی مطلوب ہے، اور اسلام، مسلمانوں کے مابین محبتوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے محبتوں میں اضافے اور مصالحت کے لیے جھوٹ جیسے گناہِ کبیرہ کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم نے چیزوں کو اُلٹ دیا ہے۔ جہاں چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر معاملات کو سنبھالا اور بچایا جاسکتا ہے وہاں تو ’بھرپور سچ‘ کا مظاہرہ کر کے دلوں کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اور جہاں حقیقت میں سچ کی تلاش میں معلومات لی جاتی ہیں تو ’کہیں غیبت نہ ہوجائے‘ کا سوچ کر ہم اصل سچ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نتیجتاً ایک بڑا نقصان منتظر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجاے بدگمانیاں بڑھاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری وجہ سے کوئی بھی شخص ایسی صورت حال میں نہ پڑے کہ اُسے جھوٹ بولنا پڑے، یعنی ہم کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور نہ کریں۔ سورئہ حجرات میں تجسس نہ کرنے کا حکم اسی لیے ہے کہ دوسروں کے معاملات کی اتنی کُرید اور ٹُوہ نہ کی جائے اور نہ اتنے سوالات ہی کیے جائیں کہ اُس کو جھوٹ سے کام لینا پڑے۔ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی یہی طریقہ مناسب ہے کہ اُن کی بات پر اعتماد کریں اور اُنھیں ایسی صورت حال میں نہ لے کر جائیں کہ اُنھیں جھوٹ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہ ملے۔
اللہ تعالیٰ سے حکمت طلب کریں۔ اس کے لیے پیارے نبیؐ نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ مانگیں تاکہ صورت حال کو سنبھالنے کے لیے جھوٹ کے بجاے حکمت سے کام لیں۔
اپنے بزرگوں سے حکمت کی باتیں سیکھیں۔
دوسروں کے کیے ہوئے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کریں۔ خصوصاً بچوں کی تربیت میں حوصلہ افزائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح اگر کسی کو اپنے کسی اچھے کام پر حوصلہ افزائی ملتی ہے تو وہ خواہ مخواہ جھوٹ سے کام نہیں لے گا۔
قرآن کی اس آیت پر اپنا ایمان پختہ کرلیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تو پھر کیوں ہم اپنی جھوٹی عزت بنانے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جس سے آخرت میں تو رُسوائی ہوگی ہی لیکن دنیا میں بھی سب اس کا تعفن محسوس کرلیں۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سچ اور جھوٹ دنیا میں بھی واضح ہوکر رہنا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔
اپنے ذہن میں اس تصور کو پختہ کرلیں کہ اس دنیا میں جتنی بھی بڑی کامیابی ہو وہ بہرحال اس دنیا کی کامیابی ہے اور آخرت کی بڑی کامیابی کے سامنے اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی طرح اس دنیا کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی آخرت کی ناکامی کے سامنے ہیچ ہے۔ اس لیے آخرت کی کامیابی کے لیے، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے تو سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔
ہماری ذمہ داری: ہم اپنے گھر کے اندر اور اجتماعیت کے حوالے سے مختلف حیثیتوں سے مکلف بنائے گئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے ہماری رعیت کے بارے میں جواب دہی ہوگی، لہٰذا اپنی اس رعیت کی تربیت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جس طرح ہم اپنی ذات سے اس اخلاقی برائی کو نکال باہر کریں، اسی طرح اپنے زیرتربیت افراد کی تربیت کی اُٹھان اور بنیاد بھی اس طرح ڈالیں کہ وہ جھوٹ سے پرہیز کرنے والے ہوں۔
اسلام میں عبادات کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد انسان کی اخلاقی تربیت ہے اور اخلاقی تربیت کی بنیاد ہی جھوٹ سے پرہیز اور سچ کی تلقین ہے۔ اگر ہم دنیا کے کسی بھی چھوٹے اور بڑے فائدے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو اپنی ذات سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آخرت کی کامیابی یقینا ہماری منتظر ہے ہی، اس دنیا میں بھی من حیث القوم ہم پھر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔