(بائیسویں قسط )
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق سفیر ڈین گِلرمین نے رپورٹ کو بے لگام، یک طرفہ اور اسرائیل مخالف دروغ گوئی سے متصف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے ایک اور سابق سفیر ڈور گولڈ نے اِس رپورٹ کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے اسلحہ خانے میں سب سے طاقتور ہتھیار قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں اُس وقت کی اسرائیلی سفیر گیبریلا شیلیف نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو متعصبانہ، یک طرفہ اور سیاسی قرار دیا۔ امریکہ میں اسرائیل کے سفیر مائیکل اورین نے زہر اُگلنے کے مقابلے میں ٹرپل کراؤن جیتا۔ اُس نے امریکن جیوئش کمیونٹی سے خطاب کے دوران کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ سے زیادہ سے فائدہ حزب اللہ کو پہنچا ہے۔ معروف روزنامہ ’’بوسٹن گلوب‘‘ سے گفتگو میں اُس نے کہا کہ جو لوگ بھی امن کے بارے میں سوچتے ہیں، اُسے پروان چڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اُن کو اس رپورٹ کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ ’’نیو ری پبلک‘‘ سے گفتگو میں اُس نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ (ایران کے اُس وقت کے صدر) محمود احمدی نژاد کے بیانات اور دوسری جنگِ عظیم میں جرمن نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو جُھٹلانے سے بھی بدتر معاملہ ہے۔‘‘ اسرائیلی چیف آف اسٹاف گیبی ایشکینیزی نے رپورٹ کو متعصبانہ، غیر متوازن اور یک طرفہ قرار دیا۔ اسرائیلی مسلح افواج کے قانونی اُمور کے مشیر ایویچائی میڈلبٹ نے کہا کہ یہ رپورٹ جانب دار، حیرت انگیز حد تک انتہا پسند اور حقائق سے بہت دور ہے۔
غیر سرکاری اداروں اور شخصیات نے بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کو مسترد کرنے اور اُس پر تنقید کے تیر برسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ معروف اخبار ’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے اپنے ایک اداریے میں کہا ’’گولڈ اسٹون رپورٹ پاگل پن کا نمونہ ہے جو جانب داری کے بطن سے ہویدا ہوا ہے اور اِس میں انصاف کا مکمل طور پر خون کردیا گیا ہے۔‘‘ اسرائیلی روزنامہ ’’ہارتیز‘‘ کے سابق ایڈیٹر انچیف ڈیوڈ لینڈو نے کہا ’’اِس دعوے نے دیانت دارانہ بحث کی گنجائش ہی ختم کردی کہ اسرائیلی فوجی عام فلسطینیوں کو قتل کرنے کے درپے رہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ رپورٹ مرتب کرنے والوں کے سامنے شواہد کے ڈھیر لگے ہوئے تھے مگر سب کچھ کھنگالنے کے بعد صرف اِس حقیقت پر اصرار کیا گیا کہ اسرائیلی فوجی عام فلسطینیوں کے پیچھے پڑگئے تھے اور اُنہیں ہر حال میں غیر معمولی جانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کی تحریک کے لیڈر اسرائیل ہیرل نے کہا کہ یہ رپورٹ انتہائی ہلاکت خیز زہر کی مانند ہے اور ’’پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف دی زاین‘‘ سے بھی زیادہ بُری ہے جس میں انسانی حقوق کا باقی دنیا سے زیادہ احترام کرنے والی حکومت (!) کو بدنام کرنے اور اِس کریڈٹ سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غزہ سے متصل ایک اسرائیلی قصبے کے باشندوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کا گھیراؤ کرکے مطالبہ کیا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے مرتبین معافی مانگیں۔ اُنہوں نے پلے کارڈ اٹھاکر مظاہرہ کیا جن پر درج تھا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نفرت بھری سوچ سے بیزار ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی میں یہودیت مخالف اور نسل پرستانہ نظریات کی تحقیق کے مرکز نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کی اشاعت سے دنیا بھر میں یہودیوں سے نفرت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اور یہ بھی کہ اس رپورٹ میں غزہ کی صورتِ حال کا ہولو کاسٹ سے موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل پر عائد کیے گئے الزامات کو الفریڈ ڈریفس پر عائد کردہ الزامات سے مشابہ قرار دیتے ہوئے بار ایلان یونیورسٹی کے پروفیسر جیرالڈ اسٹینبرگ نے کہا کہ اسرائیل کے پاس غزہ کو ہموار میدان میں تبدیل کرنے (یعنی سب کچھ برباد کرنے) کا اخلاقی جواز موجود ہے۔ پروفیسر جیرالڈ اسٹینبرگ نے بار ایلان یونیورسٹی میں تنازعات کے حل اور نظم و نسق سے متعلق امور کا مرکز بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 94 فیصد اسرائیلیوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ 79 فیصد اسرائیلیوں نے کہا وہ یہ مان ہی نہیں سکتے کہ اسرائیلی فوج نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہوگی۔ آپریشن کاسٹ لیڈ میں یہ ثابت ہوجانے پر بھی کہ اسرائیلی فوج نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں اور جھوٹ بول کر حقائق چھپانے کی کوشش کی، 90 فیصد تک اسرائیلیوں کے نزدیک سب سے قابلِ اعتماد ادارے کا درجہ فوج ہی کو حاصل ہے۔ اور یہ سوال بھی اُٹھا کہ اسرائیلی حکومت کو گولڈ اسٹون مشن سے تعاون کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ انسانی حقوق کے معروف اسرائیلی کارکن یوری ایونیری کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے گولڈ اسٹون مشن سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کرکے کوئی حیرت انگیز کام نہیں کیا کیونکہ گولڈ اسٹون کے علاوہ کسی اور شخصیت کے ماتحت بھی کوئی مشن ہوتا تو اُسے بالآخر اِسی نتیجے تک پہنچنا تھا۔ انتہائی شرم ناک بات یہ تھی کہ اسرائیل نے جو کچھ کیا اُس کے بارے میں ذرا سا تاسف بھی نہیں پایا گیا۔ جو مظالم غزہ کے لوگوں پر ڈھائے گئے اُن کے حوالے سے ضمیر کی معمولی سی بھی کسک محسوس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ اسرائیل کے نام نہاد پیس کیمپ کے سرکردہ افراد ایموز اوز، اے بی ییہوشوآ اور ڈیوڈ گراسمین نے انتہائی بے شرمی سے کہا کہ غزہ میں جو کچھ بھی (اسرائیلی فوج کے ہاتھوں) ہوا اُس کے لیے صرف حماس کو ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا ہے کیونکہ اُس نے جو کچھ کیا اُس کے بعد اسرائیل کے لیے اپنے دفاع میں بہت کچھ کرنا لازم ہوچکا تھا۔ اور یہ بھی کہ اسرائیل اور مصر کی متواتر کوششوں کے باوجود حماس نے معاملات کو خرابی کی طرف لے جانے والے حالات پیدا کرنے سے باز رہنے سے انکار کردیا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کو صرف اسرائیل میں مسترد کیا گیا۔ امریکہ میں بھی اِس کے خلاف بولنے والے بہت تیزی سے ابھرے۔ میکس بُوٹ نے ’’کمینٹری‘‘ میں اس رپورٹ کو بے بنیاد معاملات پر لاحاصل بحث کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن نے معروف اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ میں لکھا کہ اس رپورٹ کا حتمی ریسپانس یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی فنڈنگ روک دینی چاہیے۔ ایلی وائزل نے اس رپورٹ کو یہودیوں کے خلاف ایک جرم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا ’’یہ ماننا میرے لیے ممکن ہی نہیں کہ اسرائیلی سپاہیوں نے خواتین اور بچوں کو قتل کیا ہوگا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ ہارورڈ لا اسکول کے ایلن ڈرشووِز نے کہا ’’گولڈ اسٹون رپورٹ میں اِتنا جھوٹ ہے، قتل و غارت کا اِتنا ذکر ہے کہ لگتا ہے اِسے حماس کے کارکنوں نے مرتب کیا ہے، اِس میں دی پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف زاین کی صدائے باز گشت سُنائی دیتی ہے، یہ متعصبانہ ہے اور اِس میں حقائق سے فرار کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کسی بھی سنجیدہ طالبِ علم کو اس انسانی حقوق مخالف، متعصبانہ رپورٹ کے بارے میں حیرت کا اظہار کرنا ہی چاہیے۔‘‘
ایلن ڈرشووِز نے اسرائیلی ٹی وی پر ایک مذاکرے کے دوران کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ یہودیوں کے خلاف غدارانہ عمل ہے اور اس کا مرتب کرنے والا شخص انتہائی درجے کی بُرائیوں سے آلودہ انسان ہے۔ ایلن ڈرشووِز نے اُسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں کے مبینہ قتلِ عام کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اور ’’موت کا فرشتہ‘‘ کہلائے جانے والے جوزف منیگیل کا ہم پلہ قرار دیا۔ ڈرشووِز کے مطابق گولڈ اسٹون رپورٹ کا بنیادی تصور یہ تھا کہ اسرائیل کو ایک ایسا ملک قرار دیا جائے جس نے غزہ کے شہریوں کے منظم قتلِ عام کی تیاری کی اور منصوبہ سازی کے مطابق عمل بھی کیا۔ اور یہ کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کا بنیادی مقصد صرف نہتے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنانا اور اُن کو ختم کرنا تھا۔ ایلن ڈرشوِوز نے جو تبصرہ لکھا اُس میں قدم قدم پر یہ کہا کہ اسرائیل پر نہتے شہریوںکے قتلِ عام کی منصوبہ سازی کا الزام لگایا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کا قتلِ عام تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس رپورٹ میں اسرائیلی حکومت یا اسرائیلی ریاست پر باضابطہ قتلِ عام کا الزام عائد کیا جاتا۔ امریکہ میں گولڈ اسٹون رپورٹ کے ناقدین نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حماس نے فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی فوج کے خلاف گواہیاں دینے کے لیے دھمکایا، اُکسایا اور گواہوں میں اپنے کارکنوں کو بھی شامل کیا تاکہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے مرتبین کو گمراہ کیا جاسکے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ کو غلط، بے بنیاد، غیر متوازن اور جھوٹ پر مبنی قرار دینے کی کوششیں لاحاصل رہیں کیونکہ خود گولڈ اسٹون نے کئی مواقع پر اس بات کی تردید کی کہ فلسطینی گواہوں کو دھمکایا یا اُکسایا گیا تھا۔ وہ اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا تھا جو گولڈ اسٹون رپورٹ میں درج ہے۔ امریکہ میں یہودیوں کی تنظیمیں بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کو بے بنیاد قرار دینے کی کوششوں کا حصہ بن گئیں۔ دی امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی نے رپورٹ کو غیر متوازن اور متعصبانہ قرار دینے میں دیر نہ لگائی۔ امریکن جیوئش کمیٹی نے کہا کہ یہ رپورٹ ایسی دستاویز ہے جس میں حقائق کو انتہائی مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔ دی اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے ابراہیم فاکس مین کو اس بات پر بہت ’’حیرت‘‘ ہوئی کہ امریکی حکومت نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو یکسر مسترد نہیں کیا۔
اوباما انتظامیہ نے بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کو مسترد کرنے میں تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا، تاہم اِس راہ پر اُسے زیادہ دیر اور زیادہ دور تک چلنے کی زحمت گوارا نہیں کرنا پڑی۔ امریکہ میں یہودی لابی نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر گولڈ اسٹون رپورٹ کی بنیاد پر اسرائیلی فوجیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمات چلائے گئے تو پھر دنیا بھر میں ہر وہ حکومت مشکل میں پڑ جائے گی جو دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے دوران فوج کو طاقت استعمال کرنا ہی پڑتی ہے۔ اِس بنیاد پر کارروائیاں ہونے لگیں تو دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کا عمل کمزور پڑ جائے گا، اس حوالے سے مورال گر جائے گا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ایان کیلی نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیلی فوجیوں کی طرزِ فکر و عمل پر بہت بحث کی گئی ہے اور اُن کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمے چلائے جانے کی سفارش خصوصی طور پر کی گئی ہے، تاہم حماس کے خلاف جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ محض سرسری نوعیت کا ہے۔ امریکہ کے معاون وزیرِ خارجہ برائے جمہوریت مائیکل پوزنر نے کہا کہ یہ رپورٹ بہت سی خامیوں سے بھری پڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر ایلیجینڈرو وُولف نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل پر بہت زیادہ فوکس کیا گیا ہے اور حماس کو بہت حد تک نظرانداز کردیا گیا ہے۔ 2009ء کی انسانی حقوق کی صورتِ حال سے متعلق اپنی رپورٹ میں امریکی محکمۂ خارجہ نے ’’اسرائیل اور مقبوضہ علاقے‘‘ کے زیرِعنوان 47 صفحات کے سیکشن میں شواہد اور قانونی پہلوؤں سے متعلق خامیوں کی بنیاد پر گولڈ اسٹون رپورٹ کو تین سزائیں سُنادیں۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حماس اور دیگر مزاحمتی فلسطینی گروپ گنجان آباد علاقوں میں متحرک ہیں جس کے باعث معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں اور فوجی کارروائیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی ایوانِ نمائندگان کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ گیری ایکرمین نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو خیالی دنیا میں رہنے والے انسان کی تیار کردہ اور حقائق سے بیگانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ امریکہ میں جن لوگوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ پر شدید نکتہ چینی کی، اُسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اُن میں سے شاید ہی کسی نے اس رپورٹ کو غور سے یا مکمل پڑھا ہو۔ یہ ساری تنقید برداشت کرنے کے بعد رچرڈ گولڈ اسٹون نے چُپ کی مہر توڑی اور اوباما انتظامیہ سے کہا کہ وہ اپنی تنقید کا جواز پیش کرے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کو غیر متوازن، جانب دارانہ اور متعصبانہ قرار دینے کے امریکی حکومت کے تبصرے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے رپورٹ کو مسترد تو کیا ہے مگر کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کیا۔(جاری ہے)