چین اب اپنی روس پالیسی میں تبدیلی کے لیے کوئی دبائو قبول نہیں کرے گا
روسی صدر ولادیمر پیوٹن پانچویں بار صدر منتخب ہوئے تو اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کا انتخاب کیا۔ یہ چھے ماہ کے مختصر عرصے میں ولادیمر پیوٹن کا چین کا دوسرا دورہ تھا۔ پہلا دورہ اُس وقت ہوا تھا جب پیوٹن ابھی صدر منتخب نہیں ہوئے تھے اور روس کو یوکرین جنگ کی وجہ سے مغرب کے غیر معمولی دبائو کا سامنا تھا۔ پیوٹن کی جسمانی اور ذہنی صحت کے حوالے سے مغرب میں طرح طرح کی افسانہ طرازیاں جاری تھیں جو کبھی سرد جنگ کا خاصہ ہوا کرتا تھا جب مغربی میڈیا کمیونسٹ سوویت یونین کے حکمرانوں اور نظام کے حوالے سے خبریں اورکہانیاں پھیلایا کرتا تھا۔ پیوٹن اس سارے دبائو کو برداشت کرکے ایک بار پھر روس کے صدر منتخب ہوئے تو اب وقت کم اور مقابلہ سخت کے تناظر میں اُن کے پاس واحد آپشن باقی بچا ہے یعنی ایشین ورلڈ آرڈر یا ایشیائی صدی کے خواب کو جس قدر تعبیر دینا ممکن ہے، دی جانی چاہیے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے پہلے دورے کے لیے چین کا انتخاب کیا جو اس سارے کھیل میں مرکزی اہمیت کا حامل کردار ہے۔
یوکرین کی جنگ روس اور مغرب دونوں کے اندازوں سے زیادہ طول پکڑ رہی ہے۔ مغرب نے یوکرین کو روس کے لیے ایک ٹریپ یا دانۂ دام سمجھا تھا کہ ایک بار روس اس دلدل میں قدم رکھ دے تو باقی کام مغرب اور یورپ اس کی گردن دبوچ کر خود ہی کرلیں گے۔ روس کو اندازہ تھا کہ اسے گھیر گھار کر اس مقام پر لایا جا چکا ہے جو ’اب یا کبھی نہیں‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر روس نے آگے بڑھ کر مغرب کو یوکرین کے مورچے سے باہر نہ نکالا تو پھر روس کی خیر نہیں۔ نہ تو مغرب یوکرین کو روس کا افغانستان بنا سکا اور نہ روس ابھی تک اپنی بنیادوں پر یوکرین میں حالات کا نیا منظر تشکیل دے سکا۔ اس طرح معاملات ایک مقام پر ٹھیر کر رہ گئے ہیں۔
اس جنگ نے روس کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی نڈھال کردیا گیا ہے۔ روس امریکہ اور مغرب کی پابندیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے اثاثے منجمد کیے جارہے ہیں اور ان کی آمدن یوکرین کی زیلنسکی حکومت کو دی جارہی ہے۔ یہ روس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، مگر جواباً روس یورپ کو گیس اور تیل کی بندش کے ذریعے گھٹنوں پر لایا ہے۔ یورپ کی معیشت روس کے اقدامات کے باعث ہل کر رہ گئی ہے۔ مہنگائی عام ہورہی ہے اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ توانائی بالخصوص گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ جس کا ان ملکوں میں تصور بھی نہیں تھا اب بھوت بن کر ان کے دالانوں میں رقصاں ہے۔ ایسے میں روسی صدر ولادیمر پیوٹن یوکرین جنگ میں چین کی حمایت کے لیے کوشاں ہیں۔ گو کہ چین نے اس بحران میں بہت محتاط انداز سے روس کی مدد کی ہے۔ مغرب کی پابندیوں کو غیر مؤثر بنانا اور ان پابندیوں کو خاطر میں نہ لاکر روس کے ساتھ لین دین جاری رکھنا بھی مدد کا ہی ایک انداز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ولادیمر پیوٹن کے دورے سے چند ہفتے قبل بیجنگ آئے اور اس دوران جو کچھ رپورٹ ہوا اُس سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ چین کو روس کی مدد کے معاملے پر دھمکانے آئے تھے جسے چین نے سختی سے مسترد کیا۔ مطلب یہ تھا کہ چین اب آگے کے سفر میں امریکہ کی ڈکٹیشن قبول کرنے کو تیار نہیں۔ پیوٹن کا چین میں غیر معمولی استقبال اس بات کا پتا دے رہا تھا کہ چین اب اپنی روس پالیسی میں تبدیلی کے لیے کوئی دبائو قبول نہیں کرے گا۔ بیجنگ کے گریٹ ہال میں صدر پیوٹن کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کیاگیا اور ایک بڑی تقریب میں روسی صدر ولادیمر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ نے خطاب کیا۔ روسی صدر نے صدر ژی کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا اور کہا کہ روس اور چین کے تعلقات امنِ عالم کے لیے ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات وقتی نہیں، نہ کسی کے خلاف ہیں، ہم انصاف کے حصول کے لیے ایک عالمی جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ صدر ژی کا کہنا تھا کہ دنیا میں انصاف کے حصول کے لیے بیجنگ ماسکو کے ساتھ مل کرکام کرنے کو تیار ہے۔ دونوں راہنمائوں نے امریکہ پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ وہ بدستور سرد جنگ کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور چھوٹے گروپوں اور ملکوں کو علاقائی سلامتی سے بالاتر رکھتا ہے جس سے خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہورہے ہیں۔
صدر پیوٹن کے دورے کے دوران گھنٹوں پر محیط تقریبات دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے دور کی شروعات معلوم ہورہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اب اپنی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ اس دورے، دونوں صدور کی باڈی لینگویج اور دورے کا پروفائل یہ بتارہا تھا کہ چین اور روس ایشین ورلڈ آرڈر کے قیام کی بنیاد رکھنے کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔
بی بی سی نے اس دورے پر یہ تبصرہ کیا کہ اب یہ دو راہنمائوں کا برابری کی سطح کا تعلق نہیں، گویاکہ وہ یہ بتارہا تھا کہ پیوٹن نے ڈرائیونگ سیٹ پر صدر ژی کو قبول کرلیا ہے۔ بھارت کے معروف دانش ور پروین ساہنی کا تجزیہ تھا کہ اب دونوں بڑے ایشیائی ملکوں نے ڈالر کو دیس نکالا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ ڈالر کو ری پلیس کرنے کے لیے نہیں بلکہ ڈس پلیس کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چین اور روس اب امریکہ کی بالادستی کو زور زبردستی سے قبول کرنے کے مراحل سے آگے نکل رہے ہیں اور چین یوکرین کے معاملے پر روس کو پسپا ہونے سے بچانے کا تہیہ کرچکا ہے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ یہ سوال اہم ہے۔ پاکستان امریکہ کی اگلی جنگوں کا ٹوکا اُٹھائے مستعد اور تیار ہے جب سیٹی بجے اور ڈیورنڈ لائن شعلے اُگلنے لگے۔ ایشیائی دوستوں سے دور ہوکر پاکستان خسارے کا سودا کیے بیٹھا ہے۔