آصف علی زرداری کا تین روزہ قیام کوئٹہ

اٹھارویں ترمیم کے باوجود بلوچستان آئینی خود مختاری کا مطالبہ کررہا ہے

دستورِ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی بلوچستان آئینی خودمختاری کا مطالبہ کررہا ہے۔ صوبہ آج بھی وفاق کا دستِ نگر ہے، اور وفاق کی راہ تکتا ہے۔ بلوچستان کے ایک وزیر زمرک خان اچکزئی نے 17مئی کے اسمبلی اجلاس میں یہاں تک کہا کہ ’’صوبے کے پاس دس کلومیٹر سڑک تک کی تعمیر کے پیسے نہیں ہیں‘‘۔ یہ جملہ انہوں نے مثال کے طور پر کہا ہے۔ دراصل وزیر موصوف صوبے کے مالی بحران سے متعلق بتانا چاہ رہے تھے۔ انہی وزیر صاحب نے کہا کہ وفاق این ایف سی ایوارڈ میں مختص صوبے کا حصہ نہیں دے رہا۔ یہاں رونا صوبے کی قدرتی گیس کا بھی رویا جاتا ہے۔ صوبے کی غالب آبادی اور علاقے ہنوز اس نعمت سے محروم ہیں۔

صوبے کی محرومیاں اور پسماندگی محض الزام نہیں ہے، اس کی گواہی صدر آصف علی زرداری کی گفتگو سے بھی ملتی ہے جو 6 سے 8 مئی تک تین روز کے لیے کوئٹہ میں مقیم تھے۔ بہ حیثیت صدر اُن کا کہنا تھا کہ ’’بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کے لیے وفاق کی جانب سے مختص فنڈز کا بروقت اجراء ناگزیر ہے‘‘۔ صدر کی اس بات سے صوبے کے مسائل کی حقیقت واضح ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وفاق فنڈز کے اجراء میں پس و پیش کرتا ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ عوامی مفاد کے لیے چند منتخب منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز جاری کیے جاسکتے ہیں۔ کچھی کینال منصوبے کی تکمیل کی بات تو ہر وقت زبان پر ہوتی ہے لیکن منصوبہ تکمیل کا منتظر ہے۔ آصف علی زرداری کے حالیہ دورے نے تنظیمی تاثر چھوڑا ہے۔ پارٹی کے مسائل زیر بحث رہے۔ وہ پارٹی کے اراکینِ اسمبلی کے گلے شکوے سنتے رہے۔ اتحادیوں کے تحفظات الگ تھے۔

آصف علی زرداری چند سال پہلے جعفرآباد میں جعفر جمالی کی برسی کے موقع پر کہہ چکے تھے کہ بلوچستان کی آبی ضرورت پوری کرنے کے لیے وسطی ایشیا سے پانی لایا جائے گا۔ اس کی تکرار انہوں نے حالیہ دورے میں بھی کی۔ معلوم نہیں زرداری وسطی ایشیا سے بلوچستان پانی کس طرح لائیں گے؟ پائپ لائن بچھائی جائے گی یا نہر نکالی جائے گی؟ یعنی اس طرح کے بیانات اور تقاریر سے عوام کو ٹرخایا جاتا ہے۔ حال یہ ہے کہ صوبے میں 2022ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ نہ ہوسکا۔ سڑکیں اور پل ٹوٹے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ تک میں بحالی نہیں ہوسکی ہے۔

صدر زرداری نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی تھپکی دی۔ یہ تھپکی ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف دی ہے تو درست ہے، اگر بلوچ مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن کا عندیہ ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ آصف علی زرداری صوبے کے معروضی حالات سے دانستہ آنکھیں چرا رہے ہیں۔ بلوچستان کی بدامنی کا صوبے کی سیاسی، اقتصادی اور معاشی محرومیوں سے گہرا تعلق ہے۔ طاقت کا استعمال کارگر ہوتا تو پچھلے تین عشروں کی بدامنی ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ قضیہ بامعنی بات چیت کا متقاضی ہے، اور بات چیت کے لیے سب سے پہلے سیاسی خودمختاری کی ضرورت ہے، جس کے حامل آصف علی زرداری ہیں اور نہ ہی میاں شہبازشریف۔ نہ صوبے کی حکومت کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ آصف علی زرداری پر اچھی طرح کھل گیا ہے کہ سرفراز بگٹی کس کے مقرر کردہ وزیراعلیٰ ہیں۔ بلوچستان کے اندر بدامنی اور لاقانونیت اگر پچھلے تیس سال میں ختم نہیں ہوئی تو آئندہ تین عشروں تک بھی اس کے ختم ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے، اور نہ پُرتشدد رویّے خزانے کے بل بوتے پر ادبی میلوں اور کھیل کود کے مقابلوں کے انعقاد سے تبدیل ہوں گے۔ یہ میلے ٹھیلے اور کھیلوں کے ایونٹ الٹا بدعنوانی اور خوردبرد کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پھر ایسی حکومتیں تو امن قائم کرنے پر قادر ہی نہیں جو دھاندلی کے ذریعے ملک پر مسلط ہوں۔

صوبے کے شمالی علاقوں خصوصاً ژوب، شیرانی اور اس سے متصل علاقوں میں امن خراب ہے۔ یہ خطہ خیبر پختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان اور افغانستان کی سرحد پر ہے۔ یہاں فورسز کی ٹی ٹی پی کے ساتھ جھڑپیں رہتی ہیں۔ سرحد پار سے بھی حملے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک جھڑپ میں ایف سی کے ایک میجر جاں بحق جبکہ ونگ کمانڈنٹ سمیت دو افسران زخمی ہوئے۔ مقامی لوگ غیر محفوظ ہیں، ان کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بلوچ شدت پسند الگ مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔

9مئی کو گوادر کے علاقے سربندر میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 افراد کو قتل کیا گیا جو حجام کی دکان پر کام کرتے تھے۔ یہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران غیر مقامی افراد کے قتل کا تیسرا واقعہ ہے۔ ان تین واقعات میں مجموعی طور پر 18افرادکا قتل کیا گیا ہے۔ گوادر میں باڑ لگانے کا منصوبہ ہے۔ حکومت اور دوسرے سرپرست اس کی تردید کرتے ہیں۔ 18مئی کو سماجی رابطوں کے ذرائع پر شور اٹھا تھا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے عدالت روڈ پر واقع پریس کلب کی تالا بندی کردی۔ عدالت روڈ پر بیرئیرز لگاکر ٹریفک بند کردی۔ بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی۔ پتا چلا کہ گوادر میں باڑ لگانے کے موضوع پر تقریب سے بلوچ خاتون ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ خطاب کریں گی۔ یہ تقریب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام تھی۔ حکومت اپنے حربوں میں بہرحال کامیاب نہ ہوئی۔ ذرا سوچیے، اتنی سطحی اپروچ اپنانے والی ریاست عشروں کے گمبھیر مسائل کیسے حل کرے گی؟ ظاہر ہے اس کے لیے آصف علی زرداری کی جماعت کی حکومت بھی مورد الزام ٹھیرائی جاسکتی ہے۔ انہیں بلوچستان میں اپنی حکومت کے قیام پر فخر ہے۔

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے وزراء نے ابھی سے محکموں کے سیکریٹریوں اور دوسرے حکام کو دبانا شروع کردیا ہے کہ وہ ان کے لیے کمائیں اور عام انتخابات 2024ء میں ان کے ہونے والے اخراجات پورے کرائے جائیں۔ ایسی حکومت میں صوبہ کیسے ترقی کرسکتا ہے؟ یا صوبے کے اندر امن اور غیر مسلح سیاست کا دور دورہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اُن وزراء اور مشیروں کا احتساب کون کرے گا؟ جنہوں نے فارم47کے تحت منظورِ نظر لوگوں کو کامیاب کرایا وہ ملک اور بلوچستان کی بربادی میں برابر کے شریک ہیں۔ یقیناً بدعنوانی میں بھی ان وزراء، مشیروں اور پارلیمانی سیکریٹریوں کے ساتھ حصے دار ہوں گے۔ یہ اعمال اور کرتوت بلوچستان کے اندر بدامنی اور غیر یقینی حالات کا سبب ہیں۔

زیادتی کا ایک اور چلن یہ شروع کیا گیا ہے کہ دوسرے صوبوں خصوصاً سویلین کوٹے پر تعینات فوجی افسران کو ڈپٹی کمشنرز اور کمشنر کے عہدوں پر لا بٹھایا جاتا ہے۔ صوبے کے گریڈ 20کے کئی انتظامی افسران او ایس ڈی بن کر گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ یہ کون کرا رہا ہے؟ اس کا جواب آصف علی زرداری، میاں شہبازشریف اور سرفراز بگٹی دے سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے پی ڈی ایم اے اور فشریز سمیت کئی اہم محکمے اپنے پاس رکھے ہیں۔ حالیہ دنوں کوئٹہ شہر میں صفائی کا کام پی ڈی ایم اے سے کرایا گیا، اس کے لیے خطیر رقم جاری کی گئی، بھاری مشینری بھی خرید کر پی ڈی ایم اے کے حوالے کردی گئی۔ جبکہ یہ کام میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا ہے۔ وہاں ملازمین تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے وقتاً فوقتاً احتجاج کررہے ہوتے ہیں۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن میں کئی نقائص موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جس کی ذمہ داری ہو وہ اپنا کام کرے۔ فشریز بھی کمانے والا محکمہ ہے، خصوصاً بلوچستان کے پانیوں میں غیر قانونی ٹرالرنگ کے بدلے بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں، اس سے مقامی ماہی گیروں کا استحصال ہوتا ہے اور یہ مسئلہ تلخی کا باعث بھی بنا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس سے متعلق قرارداد بھی منظور کی گئی۔