میں نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا مقصد ان تمام کتابوں میں ایسے واقعات اور تصورات تلاش کرنا ہے جن کی بنا پر آر سی ڈی کا نیا نقشہ کار تجویز کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ہیروڈوٹس (425 ق۔م) نے ایرانیوں اور مصریوں کی جنگ کا حال لکھتے ہوئے اپنا ایک مشاہدہ درج کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میدانِ جنگ میں ایک طرف ایرانیوں کی ہڈیاں اور ڈھانچے بکھرے پڑے تھے اور دوسری طرف مصریوں کے۔ گائیڈ نے مجھے بتایا کہ ایرانیوں کی کھوپڑیاں نری پھوٹک اور مصریوں کی بڑی ٹھوس ہیں۔ کنکر لے کر ماریں تو اس میں سوراخ ہوجاتا ہے۔ پتھر لے کر اس کو ماریں تو اچٹ جاتا ہے۔ مؤرخ کا خیال ہے کہ مصری چونکہ بچپن میں سر کی حجامت کراتے رہتے ہیں اور گھٹے ہوئے سر کو دھوپ لگاتے ہیں اس لیے کھوپڑی کی ہڈی سخت ہوجاتی ہے۔ اگر وہ بھی شروع سے ہی سر کو پگڑی میں چھپالیتے تو ان کے سر بھی ایرانیوں کی طرح بڑے نازک ہوا کرتے۔ ہیروڈوٹس کے صرف اس ایک مشاہدے کی بنا پر آر سی ڈی میں کام کرنے کے کتنے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ ایک جامع Feasibility study کے لیے کنسلٹنٹ مقرر کیے جائیں گے۔ اہم سوالات کے جواب تلاش کیے جائیں گے۔ کیا پختہ اور ناپختہ کھوپڑی اور عقل کے خام یا پختہ ہونے کا کوئی باہمی تعلق ہے؟ کیا سر کی صحت اور فکر کی سلامتی کے لیے جبہ و دستار کے بے دریغ استعمال پر پابندی لگانی چاہیے؟ کیا ہیروڈوٹس نے کبھی شاہ دولہ کے چوہے دیکھے تھے اور ان کے سر کی ساخت کے بارے میں کوئی رائے یا نظریہ پیش کیا تھا؟ کیا آر سی ڈی ممالک کے تعلیمی اداروں کو ہر سال داخلے کے وقت طلبہ کے سروں پر استرا پھروانا چاہیے؟ امتحان کے نتائج کے وقت طلبہ کی جو حجامت ہوتی ہے کیا وہ مشقِ ستم بھی جاری رہنی چاہیے؟ کیا آر سی ڈی کے زچہ بچہ مراکز میں تاریخ کا مضمون پڑھانا چاہیے تاکہ پُرامید خواتین کو ایران اور مصر کی جنگ کا حال اور میدانِ جنگ کی اصل کیفیت کا علم ہوسکے۔ اس طرح ان کو کیلشیم کی گولیوں کے استعمال کے لیے آمادہ کرنا شاید آسان ہوگا۔
ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ایرانی غیر معمولی ذہنی خصوصیات اور صفات کے حامل ہیں۔ ان میں ایک خاص قسم کا جوہرِ حیات موجود ہے۔ دوسری میں لکھا ہے کہ وہ خوش باش، زندہ دل اور رومان پسند ہیں۔ تیسری کتاب کے مطابق یہ لوگ اپنی فضیلت اور برتری پر یقین رکھتے ہیں اور دوسرے ممالک کے باشندوں کی قابلیت کو ایران سے فاصلے کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ جو جتنا نزدیک ہے وہ اتنا فاضل ہے۔ جو جتنا دور ہے وہ اسی قدر فضول ہے۔ اس فارمولے کی رو سے آر سی ڈی افضل ترین ممالک کا ادارہ ہے۔ ایک طرف پاکستان، دوسری طرف ترکی، بیچ میں ایران۔ ایک مصنف کہتا ہے کہ ایرانِ قدیم کی عظمت کا راز ایرانی بچوں کی تربیت میں پوشیدہ ہے۔ پانچ سال سے بیس سال کی عمر تک بچوں کو صرف تین باتوں کی تربیت دی جاتی ہے: شہسواری، تیراندازی اور راست گوئی۔ دوسرا مصنف اسبابِ عظمت کی تلاش میں اوستا کے تین سنہری اصول نقل کرتا ہے: دشمن کو دوست بنائو، گمراہ کو راستہ دکھائو، بے علم کو علم سکھائو، اس کے بعد عظمت خود تمہارے دروازے پر دستک دے گی۔ تیسرا مصنف کہتا ہے کہ ایران کی تاریخ کے مطالعے سے ہمیں عروج کی وجوہات کے علاوہ زوال کے اسباب کا پتا بھی چلتا ہے۔ ظلم ہو اور انصاف نہ ملے۔ رشوت چلے اور حق دار کو اس کا حق نہ ملے۔ اخلاق پست ہوجائیں اور صحت تباہ۔ لوگ لذات میں کھوکر مستقبل سے غافل ہوجائیں۔ اس کے بعد تمہیں کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ تم خود ہی اپنے سب سے خطرناک دشمن بن جاتے ہو۔ مجھے اس آئینے میں اپنی صورت نظر آرہی ہے۔ میں گھبرا کر کتاب بند کردیتا ہوں۔
(پاکستان انقلاب کے دہانے پر/روئیداد خان، اوکسفورڈ)
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔