ابھی پچھلے ماہ ہی کی تو بات ہے، سنت ِ رسولؐ سے مزین چہرے، سر پر سیاہ امامہ زیب تن کیے، اپنے قومی لباس میں ملبوس یہ خوبصورت شخصیت پاکستان کے تین روزہ دورے پر تشریف لائی تھی۔ ان کے اس دورے پر اپنوں اور پرایوں کی طرف سے مثبت اور منفی دونوں طرح کے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ان کے دورے سے دو ماہ قبل دونوں ملکوں کی سرحد پر شدید کشیدہ صورتِ حال جنم لے چکی تھی… ایران نے 16 جنوری کو پاکستانی علاقے کے اندر میزائیل حملے کرکے مبینہ طور پر ’جیش العدل‘ نامی تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس کا پس منظر یہ بتایا گیا تھا کہ اس سے ایک ماہ قبل 15 دسمبر کو ’جیش العدل‘ کے ایک مبینہ حملے میں ایرانی شہر ’رسک‘ میں 11 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔ ایران کی اس کارروائی کے ردعمل میں پاکستانی فضائیہ نے بھی ایران کے اندر گھس کر سرحدی علاقے میں پاکستان مخالف گروہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، یوں اس سرحدی کشیدگی میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا۔ تاہم دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کی قیادت نے حکمت اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی کو فروغ دینے کے بجائے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کیا اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ خود پاکستان کے دورے پر آئے۔ اس تین روزہ دورے میں وہ لاہور اور کراچی بھی گئے اور پاکستان کے لیے نہایت دوستانہ جذبات اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ اہلِ پاکستان نے بھی اپنے برادر ہمسایہ ملک کے سربراہ کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے… یوں دونوں ملکوں کے مابین خطرناک حدوں کو چھوتی محسوس ہوتی کشیدگی، خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات کا روپ دھار گئی۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارت کے فروغ اور باہمی تعاون بڑھانے کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کیے گئے۔
انقلابِ ایران کی نظریاتی بنیادوں کے محافظ اور روحانی قائد رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے والے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی 19 مئی کو شمال مغربی ایران کے پہاڑی علاقے میں بظاہر ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوگئے۔ اس سانحے میں ان کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، صوبہ مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، صوبہ تبریز کے امام محمد علی آل ہاشم، صدر کے سیکورٹی یونٹ کے سربراہ سید مہدی موسوی اور ہیلی کاپٹر کے عملے کے ارکان بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھے۔ یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب صدر ابراہیم رئیسی ایران اور آذربائیجان کی سرحد پر بننے والے ڈیم کا افتتاح کرکے واپس آرہے تھے۔
14 دسمبر 1960ء کو پیدا ہونے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایران کے مشہور شہر مشہد کے ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ عین عالم شباب میں شاہ ایران کے خلاف امام خمینی کی جدوجہد کا حصہ بنے اور 1979ء میں انقلاب کے بعد صرف بیس برس کی عمر میں ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے۔ مختلف مراحل میں کرج شہر کے پراسیکیوٹر اور پھر ہمدان اور تہران کے پراسیکیوٹر جنرل بنے، یہاں سے جوڈیشل اتھارٹی کے نائب سربراہ اور پھر 2014ء میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل بنا دیے گئے۔ پہلی بار 2017ء میں صدر کا انتخاب لڑا تاہم کامیاب نہ ہوسکے، پھر 2021ء میں ایران کے عوام کی اکثریت نے انہیں اپنا صدر منتخب کرلیا۔ اپنے تین برس کے دورِ اقتدار میں مغربی ذرائع ابلاغ اور اُن کی تقلید میں باقی دنیا کے ذرائع ابلاغ سے بھی ایک سخت گیر اور قدامت پسند شخصیت کے طور پر انہیں پیش کیا جاتا رہا اور ان کی حکومتی پالیسیوں کو بھی اسی حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، تاہم ان کے عملی اقدامات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو مغربی دنیا کے اعتراضات خاصے بے وزن نظر آتے ہیں اور سید ابراہیم رئیسی ایک منصف مزاج، صلح جو اور اصول پسند شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں جس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ ان کے دورِ صدارت میں ایران کے سعودی عرب سے دیرینہ کشیدہ تعلقات میں ناقابلِ یقین بہتری دیکھنے میں آئی، اسی طرح حال ہی میں اُن کے دورۂ پاکستان کے نتیجے میں بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں پرانی سردمہری کا خاتمہ ہوا، جب کہ اپنے آخری سفر کے دوران بھی سید ابراہیم رئیسی نے آذربائیجان کے صدر سے ملاقات کرکے دونوں ملکوں کے قدیم تاریخی تنازعات کے خاتمے اور خوش گوار دو طرفہ تعلقات کا ایک نیا باب وا کرنے کی خاصی کامیاب کوشش اور مثبت سمت میں قابلِ قدر پیش رفت کی ہے… یہ الگ بات ہے کہ امریکہ اور اُس کے حواریوں کو ابرا ہیم رئیسی کی یہ کوششیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں… امریکہ کا یہ منفی طرزِ فکر و عمل صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے سانحے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوسکا اور انتہائی گھٹیا ذہنیت اور قطعی نامناسب ردعمل کا مظاہرہ امریکی حکومتی ذمہ داران کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ایرانی صدر سمیت اعلیٰ عہدیداران کی ہیلی کاپٹر حادثے میں اموات سے جہاں دنیا بھر میں افسردگی اور دکھ کی لہر نے جنم لیا، وہیں امریکی سینیٹر رک اسکاٹ نے سماجی ذرائع ابلاغ پر اس سانحے پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی کہ’’ ایرانی صدر کی موت سے دنیا اب محفوظ اور اچھی جگہ بن گئی ہے۔ وہ ایک دہشت گرد تھا جس سے کوئی محبت نہیں کرتا تھا، نہ ہی اس کی کوئی عزت کرتا تھا اور نہ ہی کوئی اسے یاد کرے گا‘‘… اسی پر بس نہیں، بلکہ قومی سلامتی کے امریکی ترجمان جان کروبی نے ہیلی کاپٹر کے سانحے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں الزام تراشی کی کہ ’’صدر ابراہیم رئیسی ایران میں متعدد زیادتیوں کے ذمہ دار تھے، ان کے ہاتھ بہت سے لوگوں کے خون سے رنگے تھے، وہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں بھی ملوث تھے‘‘۔ یہ ہے تہذیب و شائستگی کا وہ معیار جس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے مغرب کے پرستار نہیں تھکتے۔ شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایرانی صدر کی وفات پر یہ طعنہ زنی اُس امریکہ کے عہدیدار کر رہے ہیں جس کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ غلاظت میں لتھڑا ہوا ہے اور جو خود سر سے پائوں تک انسانی خون ریزیوں میں ڈوبا ہوا ہے…!!(حامد ریاض ڈوگر)