یہی شہر مکّہ ہے، جس سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ الی اللہ کا آغاز فرمایا تھا، اور یہی صفا کی پہاڑی ہے جس پر کھڑے ہوکر حضورؐ نے سب سے پہلے قریش کے خاندانوں کو نام بہ نام پکار کر اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی تھی۔ اس شہر کے سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس دعوت کو دبادینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کردیا۔ یہ حرم کی زمین، یہ ابوقبیس کا پہاڑ، اور یہ مکہ کی گھاٹیاں، سب اس ظلم و ستم کے گواہ ہیں جو 13سال تک حضورؐ اور آپؐ کے اصحابؓ پر توڑا گیا تھا۔ مگر آخرکار اُن سب لوگوں نے نیچا دیکھا، جنھوں نے دعوتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ دیکھ لیجیے، آج یہاں ابوجہل اور ابولہب کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے، اور اس حرم کے میناروں سے پانچوں وقت اشھد انَّ محمدًا رسول اللہ کی آواز بلند ہورہی ہے…
یہی شہر مکّہ ہے، جس کے لوگوں سے حضوؐر نے اپنی دعوت کے ابتدائی زمانے میں فرمایا تھا کہ میں ایک ایسا کلمہ تمھارے سامنے پیش کررہا ہوں، جسے اگر تم مان لو گے تو عرب اور عجم سب اس کی بدولت تمھارے تابع فرمان ہوجائیں گے، کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْطُوْنِیْہَا تَـمْلِکُوْنَ بِھَا الْعَرَبُ وَتَدِیْنُ لَکُمْ بِھَا الْعَجَمُ۔ قریش کے لوگ اس کے برعکس اپنی جگہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کلمے کو ہم نے قبول کرلیا تو تمام عرب ہم پر ٹوٹ پڑے گا اور ہماری ریاست تو کیا، ہمارا وجود بھی یہاں باقی نہ رہ سکے گا۔ وہ کہتے تھے کہ اِنْ نَتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفُ مِنْ اَرْضِیْنَا ، ”اگر ہم تمھارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو ہم اپنی جگہ سے اُچک لیے جائیں گے“۔ لیکن اللہ کے رسولؐ کی زبانِ مبارک سے جو کچھ نکلا تھا وہ لفظ بہ لفظ پورا ہوکر رہا۔ قریش کے جن لوگوں نے حضوؐر کی یہ بات اپنے کانوں سے سنی تھی، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چند سال کے اندر عرب اور عجم سب خلافتِ اسلامیہ کے تابع فرمان ہوگئے اور قریش ہی کے خلفاء اس عظیم الشان سلطنت کے فرماں روا ہوئے۔“
(’خطباتِ حرم‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج60، عدد5، اگست 1963ء، ص40-42)