کالم نگر خدا ڈنو شاہ نے بروز پیر 13 مئی 2024ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر سندھ کو درپیش جس ہم اور سنگین مسئلے کی جانب اپنے زیر نظر کالم میں توجہ مبذول کروائی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ اربابِ اختیار کو اہلِ سندھ کے خدشات پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔
’’سندھ میں خریف کی کاشت کا موسم شروع ہوتے ہی پانی کی قلّت کا مسئلہ بھی سامنے آگیا ہے، اگرچہ اپریل میں دریا کے بہائو میں اضافے خصوصاً دریائے کابل میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہونے اور پانی کی سطح 2 لاکھ کیوسک تک پہنچ جانے کے باوجود اس پانی کا سندھ کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ سکا، کیوں کہ محکمہ آب پاشی سندھ اور ارسا کی جانب سے کوئی بہتر حکمتِ عملی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سارا پانی چشمہ، جہلم اور تونسہ پنجند کینالوں کے ذریعے پنجاب کو دے دیا گیا۔ یاد رہے کہ سی جی کینال اور ٹی پی لنک کینال دونوں متنازع نہریں ہیں جو صرف سیلابی صورتِ حال ہی میں بہائی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا ارسا اور محکمہ آب پاشی کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے دریائے سندھ میں کابل ندی کا آنے والا پانی کالا باغ، چشمہ اور تونسہ بیراجوں کے پاس نہ صرف یہ کہ روک کر پنجاب کی جائز اور ناجائز نہروں کو فُل سپلائی کیا گیا، بلکہ یہ پانی چشمہ کے پاس روکا گیا۔ جونہی کابل ندی کے پانی کا بہائو کم ہوا تو پنجاب کو چشمہ کے پاس سے پانی کی سپلائی جاری کردی گئی۔ یہاں تک کہ چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک نہروں کو ترتیب وار 12 ہزار کیوسک اور 10 ہزار کیوسک پانی فراہم کیا گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ دریائے سندھ میں بھی کیچمنٹ کے علاقوں میں جو بارش ہوئی اور پانی میں اضافہ ہوا وہ پانی بھر کر اسے تربیلا ڈیم میں روک دیا گیا، جس کی وجہ سے اس وقت ہی تربیلا ڈیم کی سطح 1470 کیوسک تک پہنچ چکی ہے، لیکن سندھ کو انڈنٹ کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔
مئی میں سندھ نے اپنا انڈنٹ 60 ہزار کیوسک سے بڑھاکر 80 ہزار کیوسک کردیا، لیکن ارسا نے اپنی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ کو خریف کی ابتدائی اور درمیانی فصل کی کاشت کے لیے محض 60 ہزار کیوسک پانی ریلیز کیا ہے، اس میں سے بھی لگ بھگ دس ہزار کیوسک تونسہ سے گڈو تک لائن لاسز کی بھینٹ چڑھ گیا۔ باقی زیادہ سے زیادہ 15 مئی تک گڈو کے پاس 50 ہزار کیوسک پہنچے گا اور اس کے پانچ دن بعد سندھ اور بلوچستان کا محض پانی شیئر بڑھ کر 83 ہزار کیوسک سے زیادہ ہوجائے گا، جب کہ اس وقت سندھ اور بلوچستان کے لیے چشمہ کے پاس کم از کم صرف سندھ کے لیے ایک لاکھ 25 ہزار کیوسک پانی ریلیز کیا جائے گا تب کہیں جاکر وہ پانی مئی کے اواخر میں گڈو سے سکھر اور جون کے پہلے عشرے میں کوٹری بیراج تک پہنچے گا۔ اگر اس وقت سوا لاکھ کیوسک پانی چشمہ سے ریلیز نہیں کیا گیا تو یقیناً کوٹری بیراج پر چاول کی فصل کی کاشت متاثر ہوگی اور وہ شدید مون سون کی بھینٹ بھی چڑھ سکتی ہے۔
اِس وقت دریائے کابل کا بہائو چوتھی مرتبہ بہتر ہو کر سیلاب کی کیفیت کی جانب جا رہا ہے اور تربیلا ڈیم کے ایک ٹنل پر واپڈا کے جاری کام کی وجہ سے ڈیم میں 1470 کیوسک سے زیادہ پانی روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ پانی قدرتی فائدے کے طور پر جو دریا سے ڈیم میں داخل ہوگا، وہ ڈیم سے نیچے چھوڑا جائے گا، اس لیے یہی پانی لگ بھگ 80 ہزار کیوسک سے بھی زیادہ ہوگا۔ اگر ان دونوں باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت سے ہی دریائے سندھ میں چشمہ کے پاس سے سندھ کے لیے سوا لاکھ کیوسک پانی چھوڑا جائے گا تو سندھ میں پانی کی قلّت کسی حد تک کم ہوجائے گی کیوں کہ اس وقت جب کہ گڈو بیراج پر پانی لگ بھگ 44 ہزار کیوسک تک پہنچ رہا ہے، تب بھی سندھ میں پانی کی کمی 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگر ارسا اور محکمہ آب پاشی سندھ نے صرف سکھر بیراج ہی کو اکیلا بیراج سمجھ کر پانی اٹھایا تو یقیناً سندھ میں پانی کا شدید بحران جنم لے گا، لیکن اگر ارسا نے اس وقت سی جی کینال اور ٹی پی کینال جو ایک طرح سے ہمارے (مراد ہے اہلِ سندھ، مترجم) لیے ڈاکو اور غیرقانونی نہریں ہیں، بند نہیں کروائیں اور سندھ کو زیادہ پانی فراہم نہیں کیا تب صورت ِحال بہت زیادہ خراب ہوجائے گی۔ اس وقت تو محکمہ آب پاشی سندھ کا سیکرٹری بھی بنیادی طور پر ایک انجینئر ہے لیکن معلوم نہیں کیوں موصوف کو بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے، کیوں کہ چشمہ تا کوٹری بیراج پانی پہنچنے میں کم از کم 20 تا 25 دن لگیں گے، اگر یہ پانی کوٹری بیراج پر جون کے دوسرے عشرے میں جاکر پہنچتا ہے تو پھر اُس وقت تک بہت زیادہ تاخیر ہوچکی ہوگی۔ اس لیے قبل از وقت ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرلینا بے حد ضروری ہے، اور بہ طور حفظِ ماتقدم سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لے کر سندھ کے بیراجوں اور ڈائون اسٹریم کے لیے اس وقت کم سے کم ایک لاکھ 25 ہزار کیوسک پانی لیا جائے جو بروقت پہنچ سکے گا۔ لیکن پانی نہ لینے سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس وقت دریائوں اور ڈیموں میں پانی کی صورتِ حال بہتر ہے۔ صرف منگلا ڈیم میں ہی 2.610 ایم اے ایف پانی اور تربیلا ڈیم میں 1.823 ایم اے ایف پانی جمع ہوچکا ہے۔ دریائوں میں پانی کی آمد بھی 2 لاکھ کیوسک سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر اس وقت پانی نہیں لیا گیا تو سندھ میں پانی کی قلت پر قابو پانا بے حد مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے تمام مصلحتیں ختم کرکے سندھ کو مطلوبہ پانی لے کر دینا وقت کی شدید ضرورت ہے۔ چند دن پیشتر بھی جو پانی آیا تھا اگر وہ سندھ کو دے دیا جاتا تو اِس وقت سندھ میں پانی کی اتنی زیادہ قلّت ہرگز پیدا نہ ہوتی، کیوں کہ جس وقت خریف کی کاشت ٹاپ پر ہو اور اُس وقت پانی کی کمی 40 فیصد ہو تو یہ کوئی معمولی قلت نہیں ہے۔ اس وقت جو40 فیصد قلت پیدا ہوئی ہے اسے انتہائی باریک بینی اور سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے ڈیموں میں لگ بھگ ساڑھے چار ایم اے ایف پانی موجود ہو، دریائی بہائو دو لاکھ سے بھی زیادہ ہو تو پھر ایک صوبے کے لیے پانی نہ لینا سوالیہ نشان ہے۔
سندھ میں کپاس، مرچ سمیت دیگر فصلوں کی کاشت تقریباً ہوچکی ہے۔ ان فصلوں کی زندگی کے لیے پانی درکار ہے۔ اب چاول کی فصل کے لیے پانی چاہیے، لیکن موجود پانی فقط60 فیصد ہی ہو تو وہ بھلا پھر کہاں کہاں پر پہنچ پائے گا؟ ایک تو پانی کی کمی نے بڑے مسائل پیدا کیے ہیں، اس پر مستزاد صوبے میں پانی کے انٹرنل معاملات بھی انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ چند دن قبل سکھر بیراج کے نارا اور روہڑی کینال اور کوٹری بیراج کے کینال ایلوکیشن سے 20 تا 50 فیصد پانی ملا ہے لیکن روہڑی کینال کے اختتام پر پینے کا پانی نہیں ہے۔ پھلیلی کینال کے زیریں حصے میں بھی پینے کا پانی نہیں ہے۔ اب ان مسائل کو اور اندرونی طور پر پانی پر لگنے و الے ڈاکے کو کون روکے گا؟‘‘