خیبر پختون خوا:گورنر اور وزیراعلیٰ محاذ آرائی

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان فارم 47کے تحت اقتدارکی ہونے والی بندربانٹ کے فارمولے کے مطابق پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی نے بطور گورنر خیبر پختون خوا اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے فیصل کریم کنڈی سے بطور گورنر خیبر پختون خوا اُن کے عہدے کا حلف لیا۔ تقریب میں سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف، وفاقی وزیر سیفران انجینئر امیر مقام، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، ندیم افضل چن، نیر بخاری سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین، اراکینِ پارلیمنٹ، چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا ندیم اسلم چودھری، آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور، کمشنر پشاور اور صوبائی محکموں کے انتظامی سربراہان نے شرکت کی۔

خیبر پختون خوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کنڈی قبیلے سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی 24 مئی 1975ء کو پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے سینٹ پیٹرک اسکول سے حاصل کی، میٹرک سینٹ ہیلن ہائی اسکول ڈیرہ اسماعیل خان اور بیچلر ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی، لندن کے ٹھیمس ویلی کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری لی۔ فیصل کریم کنڈی 2003ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 2001ء کے بلدیاتی انتخابات سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن کو شکست دے کر پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہونے کے بعد جب انہیں قومی اسمبلی کا 17 واں ڈپٹی اسپیکر تعینات کیا گیا تو اُس وقت ان کی عمر 33 سال تھی۔ اس طرح انہیں پاکستان کے کم عمر ترین ڈپٹی اسپیکر کا اعزاز حاصل ہوا۔

انہوں نے 2013ء، 2018ء اور2024ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر ڈی آئی خان سے الیکشن لڑا مگر تینوں بار ان پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہوئی۔ ان کا مقابلہ چونکہ اس حلقے کے مضبوط امیدواروں جمعیت علماء اسلام کے سر براہ مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین خان گنڈا پور سے تھا اس لیے انہیں ان انتخابات میں مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، البتہ اب جب انہیں پارٹی اور اس سے بھی زیادہ آصف علی زرداری کے ساتھ وفاداری کے صلے میں گورنری کا عہدہ دیاگیا ہے تو شروع دن ہی سے ان کے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان نوک جھونک شروع ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ فیصل کریم کنڈی کے جدِّ امجد بیرسٹر عبدالرحیم کنڈی 1932ء سے 1937ء تک خیبرپختون خوا کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر رہے، عبدالرحیم خان کنڈی 1919ء میں سینٹرل لجسلیٹو اسمبلی کے بھی ممبر تھے۔ اسی طرح خاندان کے بزرگ فضل قدیم کنڈی مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان کے نانا جسٹس فیض اللہ خان کنڈی مغربی پاکستان اسمبلی کے 1960ء کی دہائی میں رکن رہ چکے ہیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر اسٹیبلشمنٹ اور بعض ازاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہے۔ فیصل کریم کنڈی کے والد فضل کریم کنڈی 1983ء سے1991ء تک ضلع کونسل کے چیئرمین رہے۔ 1990ء کے عام انتخابات میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور مولانا فضل الرحمٰن کو شکست دے کر ممبر قومی اسمبلی بنے۔ فیصل کریم کنڈی کے چھوٹے بھائی احمد کریم کنڈی دوسری مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ سٹی ٹو سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ توقع کے عین مطابق گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے شرکت نہیں کی۔ فیصل کریم کنڈی کے حلف اٹھاتے ہی پنڈال میں پی پی کے کارکنان نے جیے بھٹو اور بے نظیر کے حق میں نعرے بازی کی۔ حلف برداری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پارٹی چیئرمین اور صدر آصف زرداری کا شکر یہ ادا کرتا ہوں، پارٹی کے اعتماد کی وجہ سے صوبے میں جیالا گورنر آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز اور صوبے کے درمیان پُل کا کردار ادا کروں گا، ہم صوبے اور مرکز کے درمیان محاذ آرائی نہیں چاہتے اور مالی بحران ختم کرنے کے لیے تمام جماعتوں کے پاس جائوں گا۔ فیصل کریم کنڈی نے صوبائی حکومت کو مل کر چلنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئیں مل کر صوبے کے لیے جدوجہد کریں، مشترکہ جنگ لڑ کر اس کو حقوق دلوائیں۔ علی امین گنڈاپور کی عدم شرکت کے سوال پر گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی مصروفیات ہوسکتی ہیں کہ وہ نہیں آئے، مگر اب انہیں دعوت ہے کہ آئیں اور مل کر چلیں۔

دوسری جانب گورنر کی تعیناتی اور حلف برداری پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ فارم 47 کی حکومت اور اس کے غیر قانونی نوٹیفائیڈ گورنر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی تقریبِ حلف برداری میں شریک نہ ہونے سے متعلق وزیراعلیٰ نے کہا کہ گورنر کی حلف برداری کی تقریب اتنی ضروری نہیں تھی کہ اپنا وقت ضائع کرتا، اس سے قبل بھی فارم 47 پر آنے والوں کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔

دریں اثناء خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صوبے کے گورنر فیصل کریم کنڈی کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے دوبارہ سیاسی بیانات دیے تو وہ گورنر ہائوس کو عجائب گھر بناکر گورنر کو دو کمروں میں شفٹ کردیں گے۔ وزیراعلیٰ نے گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اوقات میں رہیں، آپ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بس ٹاٹا ہائے ہائے کیا کرو۔ ڈی آئی خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر کے پاس آئینی عہدہ ہے، سیاسی گفتگو سے اجتناب کریں، میں نے آپ کو جواب دیا تو گلہ نہ کرنا کہ وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوں۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ گورنر خیبر پختون خوا فارم 47 کے نامزد ہیں، ان کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ وارننگ دے رہا ہوں گورنر کا عہدہ آئینی ہے،! سیاسی بیانات اور محاذ آرائی سے گریز کریں، اِس دفعہ آپ کو جواب نہیں دے رہا، لحاظ کررہا ہوں، آپ کی کرسی بھی فارم 47 کی ہے، میرے حساب سے تو آپ کی گورنرشپ بھی غیر قانونی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ آپ کی گاڑی کا تیل بھی میرے بجٹ سے جاتا ہے، پھر آپ کی گاڑی کا تیل بھی نہیں ہوگا، میری وارننگ پر عمل نہ ہوا تو آپ کی گرانٹ اور گاڑی سب بند کردوں گا، گورنر ہائوس بھی آپ کی ملکیت نہیں ہے، ایسا نہ ہو میں گورنر ہائوس کو ورثہ قرار دے کر اور عجائب گھر بناکر عوام کے لیے کھول دوں، اور آپ کو دو کمرے کی اینکسی میں شفٹ کردوں۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ دوبارہ بیان دیا تو پھر میں کہوں گا اس کو ہٹا یہاں سے، اگر میں کھڑا ہوگیا تو جس ایک لیٹر پر آپ نوٹیفائی ہوئے ہو اسی پرڈی نوٹیفائی ہوجائوگے، آپ کی حیثیت ایک لیٹر کی ہے مینڈیٹ کی نہیں، گورنز کی اس وقت صوبے میں کوئی حیثیت ہے نہ کام ہے، میرا شکریہ ادا کرو میں ڈی آئی خان کا بندہ ہوں جس کی وجہ سے تمہیں خیرات میں عہدے مل جاتے ہیں۔ علی امین سے مقابلے کے لیے ڈی آئی خان سے کوئی بندہ لے لیا جاتا ہے، تمہیں تو عہدہ ملتا ہی میری وجہ سے ہے، میں ڈی آئی خان سے وفاقی وزیر تھا تو مولانا کے بیٹے کو بھی وفاقی وزیر بنادیا گیا، تمہیں مینڈیٹ نہیں ملا، خیراتی نوٹیفکیشن کی بدولت گورنر بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اللہ اور عمران خان نے وزیراعلیٰ بنایا تو میرے مقابلے میں تمہیں گورنر بنادیا گیا، گورنر کے پاس اختیارات نہیں، اپنی حیثیت کو سمجھو، تمہاری کیا حیثیت کہ صوبے اور وفاق کے درمیان پُل بنو! تم نے ڈپٹی اسپیکر ہوتے ہوئے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اپنی اوقات میں رہو، تم گورنر ہو سیاست سے تمہارا کام نہیں۔

گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی دھمکیوں پر اُن کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علی امین مجھے گورنر رہنے دیں ورنہ میں آپ سے بڑا بدمعاش بن جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ جو گورنر ہاؤس پر قبضے کی بات کرے گا، اُس کو اُسی زبان میں جواب دیا جائے گا، علی امین گنڈاپور نے بہت بدمعاشی کرلی، اب مزید نہیں کرنے دیں گے۔ گورنر خیبر پختون خوا نے مزید کہا کہ مجھے پتا ہے کہ علی امین گنڈاپور جیسے لوگوں سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ ناچنے والے گھوڑے ریس نہیں جیتا کرتے، اتنا کہنا کافی ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی کہا کہ مرکز اور صوبوں میں لڑائی نہیں چاہتے، وزیراعلیٰ کو گورنر ہاؤس فوبیا ہے، جس کا علاج صرف اسپتال میں ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا کا مقدمہ وفاق میں ہر فورم پر لڑیں گے، صوبے اور اپنے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو پُرامن بنانا چاہتے ہیں، توجہ خیبر پختون خوا کے امن وامان پر ہے۔ نہیں چاہتے کہ وزیراعلیٰ کے حلقے میں جج اغوا ہوں، سنا ہے سیشن جج کی بازیابی تاوان کی ادائیگی سے ممکن ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ جج کی رہائی کے بدلے 5 تا 7 کروڑ تاوان سرکاری فنڈ سے دیا گیا، وزیراعلیٰ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی زرعی فصل اٹھانے کے لیے بھتہ دیتے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ علی امین قید تھے تو کوئی انہیں پانی پلانے والا تک نہ تھا، اُس وقت بلاول بھٹو کے حکم پر خورشید شاہ کے گھر سے علی امین کے لیے کھانا آتا تھا۔

وزیراعلیٰ اور گورنر خیبر پختون خوا کے درمیان شروع ہونے والی لفظی گولہ باری بظاہر تو ہماری سیاست کا ایک افسوس ناک عکس ہے، لیکن ہیرو اور ولن بننے کے اس چکر میں جہاں سیاست جیسے مقدس پیشے کی مٹی پلید ہورہی ہے وہاں اس طرزِعمل سے سارے کا سارا گھاٹا پچھلے چالیس سال سے دہشت گردی اور شدید اقتصادی بحران کے شکار، وطنِ عزیز کے پسماندہ ترین صوبے کے چار کروڑ عوام کے حصے میں آرہا ہے۔ خیبرپختون خوا کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے جہاں پہلے سوویت یونین اور بعد ازاں دہشت گردی اور امریکہ کے خلاف جنگوں کا محاذ بنائے رکھا وہاں یہی وہ بدقسمت صوبہ تھا جہاں عمران خان کی لانچنگ کے ناکام اور اب بھیانک شکل اختیار کرنے والے پراجیکٹ کا سیاسی تجربہ بھی یہاں کیا گیا جس کا خمیازہ اس بدقسمت اور بدحال صوبے کے عوام پچھلی ایک دہائی سے بھگت رہے ہیں، جب کہ اب اس تباہی کی رہی سہی کسر ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے والے آگ اور پانی کے مماثل دو رہنمائوں کی صوبے کے دو اہم ترین آئینی اور سیاسی عہدوں پر تعیناتی سے پوری کردی گئی ہے، جس کا سارے کا سارا نقصان اس تباہ حال صوبے کے عوام کے حق میں محرومیوں اور اقتصادی مسائل میں بے پناہ اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا۔