سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سینٹ میں ان کی بیشتر دبنگ تقاریر وائرل ہوئیں۔ ہمیشہ مظلوموں کی آواز بن کر ابھرے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر صوبہ خیبر پختون خوا بھی رہے۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آپ نے نہ صرف بھرپور آواز اٹھائی بلکہ اصل صورت حال جاننے کے لیے غزہ جانے کی بہت کوشش کی لیکن بدقسمتی سے آپ کو بارڈر کراس نہ کرنے دیا گیا۔ آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے فرائیڈے اسپیشل سے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کے لیے حاضر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکومت پر امریکہ کی جانب سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے۔ آپ اس صورتِ حال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
مشتاق احمد خان: پاکستان کے اوپر کئی حوالوں سے دبائو ہے۔ دونوں ممالک کے سربراہان نے گفتگو بھی کی تھی جو امریکہ کو ناگوار گزری۔ اس پر فارن آفس سے بیان آگیا جو کھلم کھلا بدمعاشی ہے۔ پاکستان پر فلسطین کے حوالے سے دبائو ہے۔ ہم بدقسمتی سے عربوں سے بھی دو قدم پیچھے ہیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم عربوں سے دو قدم پیچھے ہی رہیں گے آگے نہیں بڑھیں گے۔ پاکستان کی فلسطین پالیسی غلامی کی پالیسی ہے جو قائداعظم اور اقبال کی سوچ نہیں تھی۔ پاکستان کی شناخت ختم ہورہی ہے، چند ڈالروں کے عوض نظریہ فروخت کیا جارہا ہے، ہمارے حکمران غلام ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ ترکی گئے ہیں، وہاں ترکیہ حکومت کا فلسطین کی جانب سے کیا مؤقف سامنے آیا؟ کیا اردوان حکومت کی جانب سے بزدلی دکھائی دی یا حوصلہ ملا؟
مشتاق احمد خان: میں نے ترکی میں منعقدہ غیر معمولی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہاں دنیا بھر سے ارکانِ پارلیمنٹ، سینیٹرز اور بااثر شخصیات مدعو تھیں۔ میں نے کانفرنس میں 9 مطالبات رکھے جن میں سب سے بڑا اور اہم مطالبہ اسرائیل کے ساتھ تجارت کا فی الفور خاتمہ ہے۔ امتِ مسلمہ اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم از کم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کرے، اسرائیل کے ساتھ تجارت تو ختم کرے تاکہ اُس کو پتا چلے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ اسرائیل فی الفور جنگ ختم کرنے کا اعلان کرے۔ او آئی سی اپنا وجود کھو چکی ہے، یہ مُردہ گھوڑا ہے جس سے ہم کو خیر کی توقع نہیں۔ پوری امتِ مسلمہ میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قبرستان جیسی خاموشی ہے جو اہلِ دل اور اہلِ وفا کو سونے نہیں دیتی۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ سمجھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کو حماس کو ہتھیار دینے چاہئیں؟ حماس کو اسلحہ فراہم کرکے ہم فلسطین کی جنگ جیت سکتے ہیں؟
مشتاق احمد خان: امریکی کانگریس اسرائیل کو 26 ارب ڈالر دے رہی ہے۔ امریکہ جدید ترین اسلحہ، ٹینک، جہاز اور میزائیل فراہم کررہا ہے۔ امریکہ اگر اپنی ناجائز ریاست اسرائیل کی کھلم کھلا مدد کرسکتا ہے تو امتِ مسلمہ فلسطین کی مدد کیوں نہیں کرسکتی! یورپی ممالک اور امریکہ 70 فیصد اسلحہ اسرائیل کو فراہم کرتے ہیں۔ فلسطین کو خوراک کے نہیں، اسلحے کے جہاز چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ نے میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے، آپ نئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو کیا مشورہ دیں گے؟
مشتاق احمد خان: حافظ نعیم الرحمان فریش بلڈ ہیں جن سے عوام کو بہت توقعات ہیں۔ اِن شاء اللہ وہ کامیاب ہوں گے۔ ان کو میرے مشورے کی ضرورت نہیں۔ حافظ نعیم الرحمان کے پاس بہت قابل مجلسِ شوریٰ موجود ہے جس کا کام ہی مشورہ دینا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اضافی گندم نے ہمارے کسان کو پریشان کردیا۔ ناقص پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے ایک ارب ڈالر ڈوب گئے۔ کیا کہتے ہیں اس پر؟
مشتاق احمد خان: 25 ملین ٹن اضافی گندم موجود تھی لیکن پھر بھی باہر سے منگوا لی گئی۔ یوریا کے بعد کھاد اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں جس سے مہنگائی 30 فیصد بڑھی۔ کسان بدحال ہے۔ گندم کی قیمت نہ بڑھاکر پاکستان کا معاشی قتل جاری ہے۔ پاکستان کے وسائل کو تباہ کیا جارہا ہے۔ یہاں مافیا مسلط ہے۔ ہم مافیا سے نجات پائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
فرائیڈے اسپیشل: اسلام آباد میں فلسطینیوں کے حق میں دھرنا دینے کی پاداش میں آپ پر مقدمات بنے اور آپ کی فیملی کو حبسِ بے جا میں رکھا گیا۔ ماجرا کیا تھا؟
مشتاق احمد خان: جماعت اسلامی کے ڈی چوک دھرنے میں اسلام آباد پولیس نے میری اہلیہ اور 13 سالہ بچے کو کمرے میں بند کیا جس کا مقصد اسرائیل کو خوش کرنا تھا۔ یہ اسرائیل نواز حکومت ہے۔ عید کے دن اسماعیل ہنیہ کے تین بچوں کی شہادت پر بھی اِس حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ حماس کے لیڈر سے اظہارِ تعزیت کرلیتی۔ حکمران امریکی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ چیف آف آرمی اسٹاف کو کوئی پیغام دیں گے خصوصاً غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے؟
مشتاق احمد خان: غزہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی فوج دنیا کی بہت بڑی فوج ہے، کیا ان کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم نے اپنے ٹینکوں کے نام خالد، غوری، غزنوی رکھے ہیں۔ میزائیلوں کے نام شاہین ہیں۔ کیا حیدر، سعد اور خالد کے نام پر ہمارا اسلحہ صرف نمائش کے لیے ہے، یہ اسلحہ جو امتِ محمدؐ کو نہیں بچا سکتا اس کا کیا فائدہ ہے چیف صاحب
فرائیڈے اسپیشل: لاہور میں جرمن سفیر نے جہاں فلسطین سے متعلق سوال پر طالب علم کو جھاڑ دیا وہیں یونیورسٹی انتظامیہ نے اس طالب علم کو نکال دیا۔ کیا کہیں گے اس پر؟
مشتاق احمد خان: جرمن سفیر کے جبڑوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے۔ جہاں جہاں یہ سفیر جاتے ہیں پاکستانی طلبہ! وہاں احتجاج کرو، ان کو شرمندہ کرو۔ جرمن سفیر کون ہوتا ہے ہمارے طالب علم کو رسوا کرنے والا؟ اگر غیرت مند حکمران ہوتے تو اس سے کہتے کہ اپنے الفاظ واپس لو اور معافی مانگو۔
فرائیڈے اسپیشل:آج قبلہ اول برائے فروخت ہے۔ مسلمانوں کا لہو برائے فروخت ہے۔ مسلمانوں کی عزت و غیرت برائے فروخت ہے۔ کیا کہیں گے اس شرمناک صورتِ حال پر؟
مشتاق احمد خان: اسرائیل ناکام ہوچکا ہے، وہ غزہ کے مجاہدین سے ایک بھی فوجی آزاد نہیں کروا سکا۔ 230 دن ہوگئے، اسرائیل کسی ایک فلسطینی بچے کو بھی شکست پر مجبور نہ کرسکا۔ غزہ میں دو ایٹم بمبوں سے زیادہ بارود گرایا گیا، غزہ کے ہر بچے کے مقابلے میں 30 کلو بارود گرایا گیا۔ غزہ کے لوگ استقامت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسرائیل شکست کھا چکا ہے۔ عالم اسلام کے جرنیل حضرت ابوعبیدہؓ کو رول ماڈل بنائیں۔ فلسطین اور غزہ کے نوجوانوں کو رول ماڈل بنایا جائے۔ غزہ کے بچے جس صبر و استقامت کا پیکر ہیں اُن کو رول ماڈل بنانے کی ضرورت ہے۔ فلسطین فتح یاب ہوچکا ہے۔ آج ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی کے باضمیر طلبہ ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔