سیاسی و معاشی عدم استحکام بند گلی سے نکلنے کا راستہ ؟

ہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ 9مئی سے آگے کی طرف بڑھ سکیں گے؟

پاکستان کی سیاست آگے بڑھنے کے بجائے بند گلی میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی فریقین خود کو اس بحران سے کسی بھی صورت نکالنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں سیاسی اور معاشی استحکام کم اور ایک دوسرے سے کھل کر بدلہ لینے کا رجحان زیادہ غالب ہے۔ مفاہمت کی سیاست کی آواز جہاں سے بھی آتی ہے اس کی پذیرائی مختلف حلقوں کی جانب سے ہمیں ضرور سننے کو ملتی ہیں، لیکن طاقت کے اصل مراکز میں مفاہمت کی سیاست کا ایجنڈا اوّل تو غالب ہی نہیں، اور اگر کہیں مفاہمت کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد طاقت ور طبقے کے ایجنڈے کی قبولیت کے سوا کچھ نہیں۔ طاقت کے مراکز سمجھتے ہیں کہ ہم ہی طاقت ہیں اور جس کو بھی جیسی سیاست کرنی ہے یا اُس سے جڑے فیصلے کرنے ہیں اس میں ہمارے کردار کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی۔

ایک برس گزرنے کے بعد سانحۂ 9 مئی کی یاد میں ریاست اور حکومت نے قومی یکجہتی کے طور پر منائی ہے ۔ فوجی اور حکومتی قیادت نے ایک بات واضح کردی ہے کہ 9مئی کا حملہ ایک مخصوص ادارے پر حملہ نہیں تھا، بلکہ ریاستی خودمختاری اور سلامتی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اسی کو بنیاد بناکر یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان ہوں یا اُن کے حمایت یافتہ افراد… کسی کے ساتھ کسی بھی سطح پر کسی بھی طرز کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں دو واضح پیغامات دیے گئے ہیں۔ اوّل: پی ٹی آئی یا عمران خان کو کوئی معافی نہیں ملے گی اور نہ ہی ان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔ دوئم: عدلیہ کو بھی واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ سانحہ 9 مئی میں ملوث افراد کو قانونی طور پر سخت سزائیں دے اور اس پر عدالتی محاذ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ ان کے بقول اگر سانحہ 9مئی پر پی ٹی آئی یا اس کے قائد عمران خان کو سخت سزائیں نہیں دی گئیں تو مستقبل میں ریاست پر حملے کو کسی بھی صورت میں نہیں روکا جاسکے گا۔ اسی طرح میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل دہشت گردی سے گریز کرے اور عوام میں بلاوجہ کی اشتعال انگیزی کو فروغ نہ دے، وگرنہ اس کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی جانب سے بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر جوابی حملہ خاصا شدید تھا، اور انہوں نے بھی خاصی سخت زبان استعمال کی۔ پی ٹی آئی کے بقول جب تک سانحہ 9 مئی پر عدالتی کمیشن نہیں بنے گا اُس وقت تک شفاف تحقیقات ممکن نہیں، اور تحقیقات کے بغیر پی ٹی آئی پر الزامات کی بارش جماعت کے خلاف پہلے سے جاری مخالفانہ مہم کا حصہ ہے۔ عمران خان نے فوج کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق اس مطالبے کو بھی تسلیم کیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو اس کی تحقیقات کا آغاز 2014ء کے دھرنے سے ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو واضح بھی ہے اور سب کو نظر بھی آرہا ہے۔ یہ منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کے امکانات بہت محدود ہیں۔

اِس بار9مئی پر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا سخت مؤقف سامنے آیا تو دوسری طرف حکومت بھی مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ حکومتی اتحاد کی تو یہی کوشش ہوگی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے برقرار رہیں تاکہ اس کا عملی فائدہ انہیں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کو ملے۔ بظاہر حکومت مفاہمت اور بات چیت کی بات کرتی ہے مگر اس کا اصل ایجنڈا عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا کرنا اور دیوار سے لگا کر قومی سیاست میں غیر اہم کرنا ہے۔ اس لیے مفاہمت کی بات اگر ہوگی اور اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا تو یہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت ہی سے ممکن ہوگا۔ اگرچہ عمران خان صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، جبکہ اتحادی حکومت کے بارے میں اُن کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ اس سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کے پاس فصیلوں کا کوئی اختیار ہے۔ مفاہمت کی بات چیت میں سیاسی قوتوں کو نظرانداز کرکے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنا خود ایک بڑے تعطل کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ بات بجا کہ طاقت کا مرکز اسٹیبلشمنٹ ہی ہے، مگر اس کا راستہ براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کی مددسے نہیں نکلے گا، اس کے لیے بھی سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ 9مئی کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی جماعت دو مختلف سوچ کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔اگر کہیں کوئی بات چیت چل بھی رہی تھی یا چل رہی ہے تو اس میں بھی کوئی جان نظر نہیں آرہی، اور نہ ہی ان معاملات کو کسی بھی سطح پر حتمی شکل دی جارہی ہے ۔

مان لیا کہ سانحہ 9مئی غلط تھا اور ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے۔ ویسے تو اس ملک میں بہت کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا، اور جو کچھ بھی غلط ہوا ہے اس پر کسی کو تو جواب دہ بنانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ سانحہ 9مئی پر بھی سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ ان واقعات نے سب ہی سیاسی اور غیر سیاسی افراد یا اداروں کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے بیانیے کی بنیاد پر لنگوٹ کس کر میدان میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیاسی تقسیم کی وجہ سے ہمارے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں۔ سانحہ 9 مئی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک برس گزرنے کے باوجود ان واقعات کی تحقیقات سامنے نہیں آسکی کہ اس میں اصل کردار کون تھے اور یہ کس کا منصوبہ تھا کہ ہمیں اپنی مزاحمت میں ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا ہے؟ مستقبل میں بھی اس مسئلے پر سیاست تو ضرور ہوسکتی ہے مگر اصل کہانی اور اصل ذمہ داران کا تعین ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ 9مئی سے آگے کی طرف بڑھ سکیں گے؟ یا خود کو محض 9مئی تک ہی محدود کرکے ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرنی ہے؟ اس وقت واقعی ہم سب ہی سیاست کررہے ہیں اور معاملات میں سچ اور جھوٹ کی بنیاد پر وہ سب کچھ کررہے ہیں جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ہم سے ہمارے موجودہ کردار سے ہٹ کر ایک بڑے کردار کا تقاضا کرتے ہیں۔ سانحہ 9مئی سے آگے بڑھنے کے لیے ہم سب کو ہی ایک نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے خود کو 9مئی تک ہی محدود کرلیا اوراسی کی بنیاد پر اپنی حمایت یا مخالفت میں موجود بیانیوں میں الجھے رہے تو پھر اس ملک میں سیاسی و معاشی استحکام اور سیکورٹی کا اہتمام کیسے ممکن ہوسکے گا! ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا تو دوسری طرف عمران خان بھی ایک بڑی مزاحمت کی قیادت کررہے ہیں۔ اگرچہ وہ جیل میں ہیں، مگر جیل میں بیٹھ کر ان کی سیاست اور ان کے بیانیے پر مبنی بات چیت کا سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ عمران خا ن آسانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گا۔ اس وقت تو عمران خان کی مزاحمت اس حد تک آگے چلی گئی ہے کہ ان کا اصل نشانہ بھی اس وقت فوجی اور عدالت میں موجود قیادت ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن بہت سخت مؤقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں ۔ وہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف یا حکومت مخالف قوتیں موجودہ داخلی صورتِ حال سے سیاسی فائدہ اٹھاکر حکومت پر اپنا دبائو بڑھانا چاہتی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ایک طرف پوری شدت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور اُس کی حمایت یافتہ جماعتیں کھڑی ہیں تو دوسری طرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کو بنیاد بنا کر عمران خان کی تحریک انصاف، محمود خان اچکزئی اور سردار اخترمینگل کھڑے ہیں، جبکہ جماعت اسلامی بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اس لیے یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں نئی جہتیں شامل ہورہی ہیں، اور یہ عمل ملک میں پہلے سے موجود سیاسی اور دیگر بحرانوں میں مزید شدت پیدا کرے گا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر مفاہمت کی سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جو لوگ بھی مفاہمت کی سیاست پر زور دیتے ہیں اُن کی آوازوں کو سننے کے بجائے لڑائی میں شدت پیدا کی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سانحہ 9 مئی نے ہم سب کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے اور ہم اس سے باہر نکلنے کے لیے کچھ قربان کرنے کو تیار نہیں۔ بس الزامات پر مبنی ایک کھیل ہے جس میں سبھی فریق ایک دوسرے کو سیاسی طور پر ننگا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور کسی کو یہ اندازہ نہیں کہ ان کی اس مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر نے پہلے سے بحرانوں میں گھری ریاست کو نئی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ہماری دانش ہمیں باہر نکلنے کا راستہ نہیں دے رہی بلکہ ایک ایسی گہری کھائی کی طرف دھکیل رہی ہے جو ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں طاقت کے زور پر ختم نہیں کی جاسکتیں۔ سیاسی حکمت عملیوں کے بجائے غیر سیاسی حکمت عملیوں نے پہلے ہی پاکستان کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے اور اب بھی ہم اسی کھیل کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس وقت عمران خان دشمنی میں خوش ہیں کہ جو کچھ اُن کے خلاف ہورہا ہے وہ اُن کی سیاست کے خاتمے کا سبب بنے گا، اور اسی طرح جب نوازشریف پر برا وقت آیا تھا تب بھی بہت سے لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے کہ نوازشریف کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمیں بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مخالفت میں بھی دیکھنے کو ملا تھا، مگر نتیجہ اس ملک کی سیاست اور ریاست دونوں کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ اس لیے ہمیں ماضی کی سیاست اور اس سے جڑی غیر سیاسی حکمت عملیوں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بار بار کے تجربات اور مہم جوئی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہمیں اگر واقعی داخلی سطح پر سیاسی اور معاشی استحکام درکار ہے تو اس کے لیے ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہی پاکستان کے بہترمفاد میں ہے اور اس پر تمام فریقین کو ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کرکے اپنی حکمت ِعملی کو حتمی شکل دینی چاہیے ۔ جب تک ملک میں تمام فریقین آئینی اور قانونی دائرۂ کار میں رہ کر خود کو جواب دہ نہیں بنائیں گے قومی بحران کی شکلیں مزید بگاڑ کا منظر پیش کریں گی ۔