یہ شریف خاندان کی آخری حکومت ہے
انگریزوں سے آزادی حاصل کیے ہمیں76 سال ہوگئے ہیں اور آئی ایم ایف کی غلامی میں پھنسے ہوئے بھی 76 برس ہوگئے۔ ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں سود اور بیرونی ادائیگیوں کے بوجھ کے باعث آئی ایم ایف کی غلامی سے نکل ہی نہیں سکی۔ بجٹ بم عوام کے سروں پر برسنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ عین ممکن ہے کہ حالیہ اقتدار شریف خاندان کا آخری اقتدار ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت مستحکم کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی قابلِ بھروسا منصوبہ اور پروگرام نہیں ہے۔ ہر حکومت نے ہمیشہ یہ حکمتِ عملی اختیار کیے رکھی کہ بجٹ دستاویزات وقت سے پہلے افشا نہ ہوں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ بجٹ تو وہی ہوگا جس کے لیے راہ نما اصول آئی ایم ایف نے دے رکھے ہیں، جس کے ساتھ حکومت ایک غیر اعلانیہ معاہدہ کیے بیٹھی ہے کہ ہر ماہ اٹھارہ ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ ہر ماہ بجلی، پیٹرولیم اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور فیول ایڈجسٹمنٹ جیسے فیصلے اسی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ حکومت کی حکمت عملی یوں سمجھ لیجیے کہ ’’فارم 45 دکھاکر فارم 47 کا فیصلہ‘‘ نافذ کرتی ہے۔ دو ہفتے بعد پیش کیے جانے والے بجٹ میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ بجٹ کی تیاری کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ خاموشی سے عوام کو مہنگائی کے مزید بوجھ تلے دبانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ گزشتہ 2 سالوں میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ہی ریکارڈ توڑ دیے جانے کے باوجود وفاقی حکومت آئی ایم ایف کو راضی رکھنے کے لیے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کے لیے کمر کس چکی ہے۔ آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی باقاعدہ یقین دہانی کروا دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے جون 2024ء سے گیس کی قیمتوں میں ششماہی بنیاد پر اضافے اور بجلی چوری روکنے اور ترسیلی نظام بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے بجلی ٹیرف کی سالانہ ری بیسنگ کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، جبکہ پاور پرچیز ایگریمنٹس پر نظرثانی اور زرعی ٹیوب ویلز کی سبسڈی میں اصلاحات بھی متعارف کروائی جائیں۔
جنوری 2024ء تک گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 2083 ارب روپے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف تمام کھاد کمپنیوں سے گیس کی مکمل قیمت وصول کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ حکومت نے مختلف علاقوں اور صنعتوں کے لیے گیس قیمتوں میں فرق کم کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے اور گردشی قرضے کی روک تھام کے لیے صارفین سے مکمل کاسٹ ریکوری کا پلان تیارکرلیا ہے۔ اس وقت صرف بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ 2600 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ حکومت مالی سال-25 2024ء میں گردشی قرض میں کمی کے لیے اصلاحات لا رہی ہے تاکہ جون تک بجلی سیکٹر میں گردشی قرضہ 2300ارب روپے تک آجائے۔ اب تین سو ارب کی بچت کرنی ہے یا نئے ٹیکس لگائے جانے ہیں؟ کاسٹ ریکوری کے لیے حکومت یونیفارم گیس پرائس متعارف کرانے جارہی ہے۔ آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ کی پالیسی گائیڈ لائن میں کہا ہے کہ توانائی کے شعبے کو خسارے سے باہر نکالا جائے۔ حکمت عملی یہ ہوگی کہ آئندہ بجٹ میں بجلی اور گیس کا سرکلر ڈیٹ بڑھ نہ سکے۔ آئندہ بجٹ میں صنعتوں کے لیے بجلی کی سبسڈی اور گیس کے رعایتی نرخ ختم کیے جاسکتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے بجلی اور گیس کے ریٹ بروقت طے کیے جائیں، ٹیوب ویل کی سبسڈی ختم کردی جائے اور بجلی اور گیس کے بلوں میں وصولی کو بہتر بنایا جائے۔ اگر آئی ایم ایف کے مطالبے کو قبول کرلیا گیا تو ایف بی آر کا سالانہ ہدف 12.3ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا۔ 1.3 ٹریلین روپے کے اضافی ٹیکس آئندہ سال کی معیشت کے حجم کے ایک فیصد کے برابر ہیں۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف تنخواہ دار اور کاروباری افراد سے نصف اضافی ٹیکس کی وصولی کا مطالبہ کررہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تقریباً 1300 ارب روپے یا جی ڈی پی کے ایک فیصد اضافی ٹیکس کے مطالبے پر بات چیت آئندہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے اسٹاف لیول کے مذاکرات کے دوران ہوگی۔ یہ بات کسی حد تک اقتدار کی غلام گردشوں میں کہی اور سنی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی حتمی ٹیکس رپورٹ حکومت کے ساتھ شیئر کی ہے جس میں اُس نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس سلیبس کی تعداد کم کرکے 4 کرنے کی سفارش کو برقرار رکھا ہے۔ اگر حکومت اس سفارش کو قبول کرلیتی ہے تو اس سے تنخواہ دار اور کاروباری افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑے پیمانے پر بڑھ جائے گا۔ حکومت تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ ڈالنے کے معاملے پر آئی ایم ایف کے مطالبے پر بات چیت کرے گی۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ بجٹ سے قبل عالمی مالیاتی فنڈ کا ایک وفد پاکستان آئے گا جو 2 ہفتے اسلام آباد میں قیام کرے گا تاکہ آئندہ 4 سالہ پروگرام کے لیے معیشت کے اشاریوں کا جائزہ لے کر مالی فریم ورک کو حتمی شکل دی جائے، جس کے بعد حکومت اپنا آئندہ بجٹ پیش کرے گی۔ اس میں مالی استحکام کے لیے مزید سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ معیشت کی بحالی کے لیے کچھ فیصلے ہوچکے ہیں، انہی کے باعث آئندہ سال کے بجٹ میں وزراء کے لیے پیٹرول کی کٹوتی ہوگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وزراء کے لیے ماہانہ اوسطاً 20 سے 53 لاکھ روپے پیٹرول پر اخراجات اٹھتے ہیں، وزراء کو ماہانہ 350 لیٹر پیٹرول مہیا ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 170کھرب کا بجٹ 7 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے خدوخال طے کیے جارہے ہیں اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف جائزہ مشن کے ساتھ بھی بجٹ سازی سے متعلق مشاورت جاری ہے۔آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ محاصل بڑھائے جائیں۔ آئندہ بجٹ میں حکومت وفاقی اخراجات کے لیے 17 ٹریلین روپے رکھنا چاہتی ہے، اس کے علاوہ سود اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 9.5 ٹریلین روپے رکھے جائیں گے۔سب سے اہم اور بڑا فیصلہ یہ ہے کہ نگران حکومت کی معاشی اصلاحات جاری رکھی جائیں گی۔ نگران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدے کیے اور جو شرائط منظور کیں، وہ سب برقرار رکھی جائیں گی۔ یہ فیصلہ لینے کے بعد ایک نگران اور پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو جواب دہ منتخب حکومت میں فرق مٹ جائے گا۔ آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کیے گئے بجٹ میں عوام کے لیے وہی کچھ ہوگا جس کی اجازت آئی ایم ایف دے گا۔ آئی ایم ایف صنعتوں کے لیے گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے، اس فیصلے کے براہِ راست اثرات عام آدمی پر مہنگائی کی صورت میں مرتب ہوں گے۔ آئی ایم ایف یہ بھی کہہ رہا ہے کہ بجلی اور گیس ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ کے وقت غریب گھرانوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئی ایم ایف کی اس تجویز سے تو لگتا ہے کہ یہ غریب پرور عالمی ادارہ ہے، مگر صنعتوں کے لیے گیس اور بجلی مہنگی ہونے کی صورت میں ہر چیز کی لاگت بڑھ جائے گی تو اس کا اثر اُن غربا پر بھی پڑے گا جن کی زندگی پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بجٹ کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ بجٹ میں کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی، چھوٹ یا رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ ملکی معیشت اب آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے۔
آئی ایم ایف اب تک پاکستان کو انتہائی کڑی شرائط پر بارہا قرضے دے چکا ہے، اور ان قرضوں سمیت بین الاقوامی سطح پر لیے گئے قرضوں کا حجم 64 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ حکومت کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے سالانہ 22 ارب ڈالر درکار ہیں۔گزشتہ ماہ ہی پاکستان نے قلیل مدتی سطح پر 3 ارب ڈالر قرضے کا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام مکمل کیا تھا، جس سے ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد ملی، لیکن درپیش زمینی حقائق کی رو سے آنے والے وقت کے لیے پاکستان نے 6 سے 8 ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی درخواست دے دی ہے، اس درخواست پر حکومت اور آئی ایم ایف میں بات چیت چل رہی ہے، لیکن اس درخواست پر غور کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے بڑی واضح لائن لی ہے کہ سیاسی بے یقینی کے باعث پاکستانی معیشت کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں، ایسی صورتِ حال میں قرضوں کی واپسی مشکل ہوسکتی ہے۔ یہی بڑا چیلنج ہے۔ بیرونی قرض اور سود کی ادائیگی کے باعث ملکی معیشت سنبھل نہیں رہی، اسی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہے۔ حکومت کی حد سے زیادہ بے قاعدگی کی ایک شکل بدعنوانی ہے، یہی وجہ ہے کہ 2700 ارب روپے کے ٹیکس کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ تین سال کے سیلزٹیکس سے ساڑھے سات سو ارب روپے غائب ہیں جو کرپشن، فراڈ، لالچ اور جعل سازی سے ہڑپ ہوگئے اور صرف ایک ارب 60 کروڑ وصول ہوئے۔ حکومتی اخراجات میں بچت کے حوالے سے وزیراعظم نے ناصر کھوسہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جس کی سفارشات میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک ہزار ارب روپے سالانہ بچت کی جا سکتی ہے۔ اہم نکتہ یہ تھا کہ افسر شاہی کے اخراجات کم کیے جائیں۔ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام(UNDP) کے وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد کے جائزے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 17.4 ارب ڈالر اشرافیہ کی مراعات پر خرچ کیے جاتے ہیں جس میں ٹیکس چھوٹ، صنعتوں کے لیے بجلی گیس پر سبسڈی، مفت پیٹرول اور پلاٹ شامل ہیں۔ لیکن حکومت اس پر دھیان دینے کے بجائے عوام پر ہی سارا نزلہ گرا رہی ہے۔ حکومت تقریباً ہر ماہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں 26 ارب روپے وصول کرتی ہے، گویا بجلی اور گیس چوری کا سارا ملبہ صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اب حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا ہے کہ نان فائلرز کی موبائل سمیں ہی بند کردی جائیں۔ ایف بی آر نے 5 لاکھ 6 ہزار سے زائد افراد کی موبائل سمیں بند کرنے کے لیے انکم ٹیکس جنرل آرڈر جاری کیا ہے۔ اب انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کے موبائل فون کنکشن کسی بھی وقت بند کیے جا سکتے ہیں۔ گندم کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لیے اضافی ٹیکس ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے جبکہ بجٹ میں ٹریکٹرز اور کیڑے مار ادویہ پر ٹیکس چھوٹ ختم کیے جانے کا امکان ہے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں حکومت کی ملکیت 84 اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا جن میں سے 40 اداروں کو درجہ بندی کے تحت چلایا جائے گا جبکہ باقی تمام کی نجکاری پر متعلقہ وزارتوں کی سفارشات کے بعد غور کیا جائے گا۔ وہ تمام ادارے جو درجہ بندی میں نہ آسکے اُنہیں نجکاری کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ اِس وقت پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے)، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ایچ بی ایف سی)، زرعی ترقیاتی بینک، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، پاکستان انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ (پیکو)، بجلی کی پیداواری کمپنیاں (جنکو۔ ون، ٹو،تھری اورفور) کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (لیسکو، پیسکو، آئیسکو، میپکو، جیپکو، حیسکو، پیسکو، سیپکو) اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ لائف انشورنس، سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ اورپاکستان انشورنس کارپوریشن بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) نے نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000 کے سیکشن 5(B) کے مطابق پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ کی سفارشات کی بنیاد پر متعلقہ وزارت کی طرف سے مرحلہ وار نجکاری کو پانچ سالہ پروگرام (2024-29ء) کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیڈرل فُٹ پرنٹ صرف وفاقی حکومت کے تحت چلنے والے اسٹرے ٹیجک اور ضروری سرکاری اداروں یا اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز (ایس او ایز) تک ہی محدود ہوگا۔ پالیسی گائیڈ لائنز کی بنیاد پر نجکاری پروگرام میں فیصلوں کی رو سے اولین ترجیحات میں پی آئی اے، فرسٹ ویمن بینک، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پیکو اور جنکو ون،ٹو، تھری اور فور، جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں لیسکو، پیسکو، سیپکو، آئیسکو، میپکو، جیپکواورحیسکو، اسٹیٹ لائف انشورنس اور سندھ انجینئرنگ پہلے ہی نجکاری فہرست کا حصہ ہیں۔ اسی طرح او جی ڈی سی کے 32کروڑ سے زائد حصص وزارتِ توانائی کو منتقل کیے جائیں گے۔