1991ء میں احتساب کا قلم دان میرے سپرد تھا۔ جب میں نے ایک معاملے میں وہ نوٹ دیکھے اور پڑھے جو فاروق لغاری نے وفاقی وزیر آب و برقی کی حیثیت سے وزیراعظم بے نظیر کو بھیجے تھے، تو میرے دل میں فاروق لغاری کے لیے بے حد احترام پیدا ہوگیا۔
معاملہ یہ تھا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کراچی میں بجلی کی ترسیل کے نظام کی توسیع و تجدید کے لیے مدد دینا چاہتا تھا، اس سلسلے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن یعنی کے ای ایس سی کو ایشیائی ترقیاتی بینک کے وضع کردہ رہنما اصولوں اور مقررہ طریقِ کار کے مطابق مستند ماہر مشیر فرم کو مقرر کرنا تھا۔ اہلیت کی بنا پر میسرز لیہ میر کی فرم سرفہرست تھی، کے ای ایس سی کے ڈائریکٹرز کے بورڈ نے تکنیکی جائزہ رپورٹ منظور کرکے ایشیائی ترقیاتی بینک کو بھجوا دی تھی اور اس کی نقل برائے اطلاع فاروق لغاری وفاقی وزیر آب و برق کو بھی بھجوا دی تھی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک میں ان کی اپنی ایک سہ رکنی کمیٹی ہے جو مشیروں کو چنتی ہے۔ اس کمیٹی کے تینوں ارکان نے متفقہ طور پر تسلیم کیاتھا کہ میسرز لیہ میر کی پیش کش تکنیکی اعتبار سے بلکہ ہر اعتبار سے سب سے زیادہ پُرکشش ہے۔
جب ایشیائی ترقیاتی بینک نے کے ای ایس سی کو میسرز لیہ میر کے تقرر کی اجازت دے دی تو کے ای ایس سی نے میسرز لیہ میر کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور اپنی پیش کش کی جزئیات طے کریں۔ کے ای ایس سی کے دفتر میں میسرز لیہ میر کی پیش کش کے سربمہر لفافے کو ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندے کی موجودگی میں کھولا گیا تو معلوم ہوا کہ میسرز لیہ میر کی لاگت کا تخمینہ دوسرے سب تخمینوں سے کم تھا۔
اس مرحلے پر وزیراعظم کی پروجیکٹ جانچنے اور پیش رفت پر نظر رکھنے والی کمیٹی کے چیئرمین (جو براہِ راست وزیراعظم کے ماتحت تھے) بیچ میں کود پڑے اور حکم جاری کروا دیا کہ کے ای ایس سی کی ایک اور کمیٹی اس معاملے کی جانچ ازسرِنو کرے گی اور فی الحال اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ یہ حکم وزیراعظم سیکریٹریٹ کے سربراہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر نے فاروق لغاری، وفاقی وزیر اب و برق کو بھیجا۔
فاروق لغاری نے ایک توضیحی نوٹ بے نظیر کو بھیجا اور معاملے کی دوبارہ جانچ کی تجویز کی شدید مخالفت کی اور دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا:
’’ایسا کرنا ہرگز قرین دانش نہ ہوگا، اس سے پورے ادارے پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ لہٰذا کے ای ایس سی کو مقررہ طریق کار کے مطابق سب سے اہل مشیر فرم سے معاہدہ کرنے سے نہ روکا جائے‘‘۔
وفاقی وزیر آب و برق کی مذکورہ رائے کے باوجود کے ای ایس سی کے نئے منیجنگ ڈائریکٹر کے تحت ایک نئی کمیٹی سے معاملے کی دوبارہ جانچ کروائی گئی۔ دوسری کمیٹی نے پہلی کمیٹی کے فیصلے کو بدل دیا۔ جب یہ دوسری رپورٹ وفاقی وزیر آب و برق کے پاس پہنچی تو انہوں نے دوسری رپورٹ کو بھی 7 جنوری 1990ء کو وزیراعظم کے سیکریٹریٹ بھیج دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ صاف صاف یہ بھی لکھ دیا کہ:
’’پہلی جانچ جو کے ای ایس سی نے کی تھی اور جس کی تائید اور منظوری ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے کے ای ایس سی کو مل چکی ہے، وہ صحیح تھی، اس پر دوبارہ غور کی ہرگز ضرورت نہیں، اس کو ہرگز نہ بدلا جائے اور کے ای ایس سی کو اجازت و ہدایت دی جائے کہ وہ فی الفور میسرز لیہ میر سے مشاورتی معاہدہ کرلے‘‘۔
اس پر وزیراعظم سیکریٹریٹ نے مندرجہ ذیل حکم وفاقی وزارتِ آب و برق کو بھجوایا:
’’اگر کارپوریشن نے کوئی مشیر چن لیا ہے تو کارپوریشن کو وہی مشیر مقرر کرنے دیا جائے بلکہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو خودمختار ادارے کی حیثیت سے آزادانہ کام کرنے دیا جائے تاکہ کارپوریشن کے کام میں تاخیر و تعطل نہ ہو، اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا حکم سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وزیر آب و برق کی سمری مورخہ 7 جنوری 1990ء میں درج سفارشات کو وزیراعظم نے منظور کرلیا ہے۔ چنانچہ وزارتِ آب و برق نے اپنے وزیر کی اجازت سے کے ای ایس سی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو واضح ہدایات دیں کہ میسرز لیہ میر سے معاہدے کو آخری شکل دے دی جائے‘‘۔
وزیراعظم کے سیکریٹریٹ کو جب وزارت کی مذکورہ ہدایت کا پتا چلا تو سیکریٹریٹ نے اظہارِ برہمی کیا اور حکم دیا:
’’تدارک فوراً کیا جائے، اور بتلایا جائے کہ (وزیراعظم کی) ہدایت کو کیسے بدلا گیا؟ کس نے ہدایات بدلنے کی جرأت کی؟ جس نے بھی ایسی جرأت کی ہے اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے اور اس معاملے کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے، اور کے ای ایس سی کے نئے منیجنگ ڈائریکٹر سے کہا جائے کہ وہ اپنا نقطہ نظر خود کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کریں‘‘۔
25 جون 1990ء کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں فاروق لغاری نے اپنی وزارت کی طرف سے کی گئی کارروائی کا بھرپور دفاع کیا۔ لیکن وزیراعظم نے (جن کے پاس وزارتِ خزانہ کا قلمدان بھی تھا اور جو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی چیئرپرسن بھی تھیں) فیصلہ کیا:
’’چونکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی اعانت کو استعمال کے ای ایس سی کو کرنا ہے لہٰذا اسی کو چاہیے کہ وہ اپنے پانچویں پروجیکٹ برائے توسیع و ترقیِ نظام ترسیلِ برق کے لیے مشیر کے تقرر اور اس سے معاہدے کے معاملے کو ایشیائی ترقیاتی بینک کے صلاح مشورے سے آخری شکل دے دے۔ اس سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ گفت و شنید ایک دو رکنی کمیٹی کرے گی جو وفاقی سیکریٹری خزانہ اور منیجنگ ڈائریکٹر کے ای ایس سی پر مشتمل ہوگی۔ بہرحال اس منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے منظور شدہ مالی اعانت گنوائی ہرگز نہ جائے۔ اگر ایشیائی ترقیاتی بینک اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر آمادہ نہ ہو تو پھر معاہدہ میسرز لیہ میر سے ہی کرلیا جائے جیسا کہ کے ای ایس سی کے ڈائریکٹرز کے بورڈ اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پہلے فیصلہ کیا تھا‘‘۔
اس سے پہلے یکم جنوری 1990ء کو اسلام آباد میں مقیم ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندے نے وفاقی سیکریٹری خزانہ اور منیجنگ ڈائریکٹر کے ای ایس سی کو بتلادیا تھا کہ اگر کے ای ایس سی کی پہلی تجویز میں ردوبدل کے لیے کہا گیا تو ایسے ردوبدل پر ایشیائی ترقیاتی بینک ہرگز غور نہیں کرے گا۔ کے ای ایس سی کے نئے منیجنگ ڈائریکٹر نے یہاں تک کہا کہ مجھ کو ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر دفتر واقع منیلا میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا جائے، لیکن بینک نے ایسا موقع دینے سے بھی انکار کردیا۔
6اگست 1990ء کو قومی اسمبلی ٹوٹی، بے نظیر حکومت برطرف ہوئی، نئی نگراں حکومت قائم ہوئی، 9 اگست 1990ء کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزارتِ خزانہ کی طرف سے پیش کردہ سمری مورخہ 8 اگست 1990ء پرغور کیا گیا اور فیصلہ ہوا:
’’کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارتِ خزانہ کی سمری مورخہ 8 اگست 1990ء ملاحظہ کی، اور کے ای ایس سی کو حکم دیا کہ وہ چار دن کے اندر اندر میسرز لیہ میر سے معاہدہ طے کرکے اس پر دستخط کرے‘‘۔
آخرکار جیت سردار فاروق احمد خان لغاری کی ہی ہوئی۔ ہم نے فاروق لغاری کی نوٹنگ پر مبنی ایک صدارتی ریفرنس بے نظیر کے خلاف خصوصی عدالت میں بھیجا۔ اکتوبر 1993ء تک تو اس ریفرنس پر کوئی فیصلہ نہ ہوا لیکن اکتوبر 1993ء میں جیسے ہی بے نظیر دوبارہ وزیراعظم بن گئیں، یہ ریفرنس بھی ہمارے دوسرے ریفرنسوں کی طرح مسترد کردیا گیا۔ اس کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ میں بے نظیر کابینہ کے کسی اور ایسے وزیر کو نہیں جانتا جو بے نظیر سے اصولی جنگ اتنی دلیری اور جرأت سے لڑسکتا۔
(روئیداد خان، اوکسفورڈ)
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔