آزاد کشمیر میں کئی روز کے جان لیوا احتجاج، خونریز ہنگاموں، کاروباری مراکز اور ذرائع آمد و رفت کی بندش، موبائل اور انٹرنیٹ سروس کے تعطل، پولیس اور رینجرز سے مظاہرین کی پُرتشدد جھڑپوں اور نجی و سرکاری املاک کے نقصان کے بعد حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کردیا ہے اور بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں قابلِ لحاظ کمی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کے خصوصی مالیاتی پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ یہ رقم آزاد کشمیر حکومت آٹے اور بجلی کی رعایتی قیمتوں پر اپنے عوام کو فراہمی پر خرچ کرے گی۔ محکمہ خوراک اور برقیات آزاد کشمیر نے اس حوالے سے دو الگ الگ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیے ہیں جن کے مطابق 20 کلو آٹے کا تھیلا ایک ہزار روپے، یا 2 ہزار روپے فی من آٹا عوام کو فراہم کیا جائے گا۔ قبل ازیں آزاد جموں و کشمیر حکومت سالانہ 15 ارب روپے آٹے پر سبسڈی دیتی تھی جو اب نئے نرخوں پر آٹے کی فراہمی سے 30 ارب روپے سالانہ ہوجائے گی۔ محکمہ برقیات آزاد جموں و کشمیر نے بجلی کے نئے نرخوں کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کے تحت گھریلو صارفین کو ایک سے سو یونٹ بجلی 3 روپے، سو سے تین سو یونٹ تک 5 روپے اور تین سو یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے پر 6 روپے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے، جب کہ تجارتی صارفین کے لیے ایک سے تین سو یونٹ تک 10 روپے فی یونٹ اور اس سے زائد پر 15 روپے فی یونٹ کے نرخ مقرر کیے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کے اس اقدام کو ’’دیر آید، درست آید‘‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے معاملہ فہمی اور مسئلے کے حل کے لیے بلاجواز دیر سے جو بھاری جانی و مالی نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے اربابِ اقتدار کا یہ مستقل وتیرہ ہے کہ وہ اُس وقت تک سنجیدگی سے مسائل کے حل پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے۔ اس حقیقت سے کون ناواقف ہے کہ مہنگائی خصوصاً بجلی، گیس وغیرہ کے بلوں اور پیٹرول کی ناقابلِ برداشت قیمتوں نے عام آدمی کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور لوگوں کی ماہانہ آمدن کا بڑا حصہ ان اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے، جس کے بعد تعلیم، صحت اور دوسری ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا محال ہوجاتا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کا مؤقف تھا کہ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ جو چیز جہاں پیدا ہوتی ہے، وہاں کے عوام کا اس پر ترجیحی حق ہے، آزاد کشمیر میں پانچ چھ ہزار میگاواٹ بجلی منگلا اور دوسرے چھوٹے ڈیموں سے پیدا ہوتی ہے جب کہ وہاں کی ضرورت صرف دو سو میگاواٹ ہے، کشمیر میں بجلی چوری کی شرح بھی باقی ملک کے مقابلے میں بہت کم ہے، اور یہاں کے اسّی فیصد لوگ دیانت داری سے پورا بل ادا کرتے ہیں، ان سب حقائق کے باوجود ان سے بھی بجلی کے بھاری بل وصول کرنا اور طویل لوڈشیڈنگ سے دوچار کرنا آزاد کشمیر کے عوام سے زیادتی ہے۔ آزاد کشمیر میں اس معاملے پر ایک سال سے زیادہ عرصے سے پُرامن مطالبات اور احتجاج کا سلسلہ جاری تھا مگر اربابِ اختیار حسبِ معمول اس پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں تھے، چنانچہ لوگوں نے ’’عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے زیادہ منظم اور بھرپور انداز میں احتجاج کو آگے بڑھایا مگر حکام کے کانوں پر پھر بھی جوں نہ رینگی اور انہوں نے اس احتجاج کو بھی لاٹھی گولی کے ذریعے دبانا چاہا مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دوسری طرف ہمارے ازلی دشمن نے آزاد کشمیر کی حساس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صورتِ حال کو اپنے منفی مقاصد اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کو نقصان پہنچانے کے لیے پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو وزیراعظم کو مسئلے کی نزاکت کے پیش نظر ذاتی طور پر مداخلت کرنا پڑی اور مسئلہ حل ہوگیا۔ بہتر ہوتا یہ قدم قیمتی جانی و مالی اور قومی مفادات کو پہنچنے والے نقصان سے پہلے اٹھا لیا جاتا۔
اربابِ اختیار کا معاملات کو بگاڑنے سے متعلق طرزعمل آزاد کشمیر کے اس معاملے تک ہی محدود نہیں بلکہ کم و بیش ہر معاملے میں ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ آسان سے آسان معاملہ بھی آسانی سے سلجھنے نہ پائے جس کی تازہ مثال پاکستان خصوصاً پنجاب میں گندم کے کسانوں کی ہے۔ حکومت بار بار اعلانات کے باوجود اپنے مقرر کردہ نرخوں پر اُن کی فصل خریدنے پر تیار نہیں ہورہی اور انہیں گندم مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو کسانوں کو اونے پونے گندم فروخت کرنے پر مجبور کررہا ہے، جب کہ گزشتہ برس جب گندم حکومت کی ضرورت تھی تو کسانوں سے بازار کی قیمت سے خاصی کم پر ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے حکومت نے جبراً گندم اپنی مقررہ قیمتوں پر خریدی۔ اِس سال صورتِ حال برعکس ہے تو کسانوں کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے، اور جب کسان بورڈ اور جماعت اسلامی کی منظم قیادت میں کسان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں لاٹھیوں، گولیوں، تشدد اور گرفتاریوں سے خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ بہتر ہوگا پنجاب کی لاڈلی وزیراعلیٰ کسانوں کو سولر ٹیوب ویل اور کھالے پکے کرنے کے اربوں روپے کے منصوبوں کے سبز باغ دکھانے کے بجائے کسانوں کی اجناس پوری قیمت پر خرید لیں۔ کھادیں، زرعی ادویہ اور بیج وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کی مناسب اور مقررہ قیمتوں پر فراہمی یقینی بنائیں تاکہ کسان حکومتی احسانات کے زیر بار ہونے کے بجائے خودکفیل اور خوشحال ہوسکیں۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بہت اچھا کیا کہ آزاد کشمیر کے عوام کے لیے آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کردی، مگر انہیں یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ مہنگائی، آٹے، بجلی اور گیس کی ناقابلِ برداشت قیمتیں صرف آزاد کشمیر کے عوام ہی کا مسئلہ نہیں یہ پورے پاکستان کے غریب لوگوں کا مسئلہ ہے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں جب اِس سال کے اوائل میں بجلی کے غیر معمولی بلوں کے خلاف عوام نے گلی گلی اور گائوں گائوں میں احتجاج کیا تھا اور پھر اُس وقت کے درویش صفت امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی صدائے احتجاج پر لبیک کہتے ہوئے پورے ملک کے کونے کونے میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف نہایت بھرپور، مثالی، منظم، پُرامن اور بے مثال ہڑتال نے اُس وقت کی نگران حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حکمرانوں کا پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت اور سہولت کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا، مگر ماضی کی روایات کے عین مطابق عوام جب عام انتخابات کی گہما گہمی میں مصروف ہوگئے تو نگران حکمران بھی اپنے تمام اعلان بھول بھلا کر، اپنا وقت پورا کرکے گھروں کو سدھار گئے اور کمیٹی کی رپورٹ، سفارشات اور ان پر عمل درآمد سب کچھ طاقِ نسیاں کی نذر ہوگیا۔ موجودہ وزیراعظم سے ہماری گزارش ہوگی کہ وہ اس طرزِ حکمرانی پر سنجیدگی سے نظرثانی فرمائیں۔ جن حالات سے تنگ آکر آزاد کشمیر کے عوام ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ پر مجبور ہوئے ہیں، انہی حالات سے پوری پاکستانی قوم دوچار ہے۔ وزیراعظم ابھی سے اس جانب توجہ فرمائیں۔ پانی کے سر سے گزرنے کا انتظار کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ (حامد ریاض ڈوگر)