4 مارچ 1963ء کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی لاہور میں رہائش گاہ پر مولانا ہی کی زیرِ صدارت منعقدہ ایک اجلاس میں اسلامی نظریات اور تہذیبِ اسلامی کو فروغ دینے کی غرض سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس اجلاس میں مولانا مودودی کے علاوہ مولانا محمد ناظم ندوی، مولانا عبدالرحیم، مولانا ظفر احمد انصاری، چودھری غلام محمد اور میاں طفیل محمد صاحب شریک تھے۔
22 ستمبر 1963ء کو کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی افتتاحی تقریب میں مولانا نے اس اکیڈمی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
’’سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکرو فلسفۂ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے، اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور اس کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے۔ لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کرکے جو فلسفۂ حیات اہل ِ مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ ان معلومات کو مرتب کرکے جو طرزِفکر اور کائنات کے متعلق اور انسان کے بارے میں جو تصور انھوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انھوں نے اٹھائی ہے، وہ ساری کی ساری از اول تا آخر باطل ہے۔‘‘
ان اغراض و مقاصد کی روشنی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی 1963ء سے علمی و فکری کاوشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ اس وقت اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں درجِ ذیل کام انجام دیے جارہے ہیں: 1۔ تحقیق اور تصنیف، 2۔ مولانا مودودی کی کتب کے مستند مواد کا تحفظ اور اشاعت، 3۔ ریسرچ جرنل ’’تحصیل‘‘ اور ’’معارف مجلہ تحقیق‘‘، 4۔ پندرہ روزہ ’’معارف فیچر‘‘، 5۔ شعبہ تفہیم القرآن، 6۔ نوجوان تحقیق کاروں کی تیاری، 7۔ شعبہ نشرو اشاعت
پیشِ نظر کتاب ’’عصرِ حاضر میں اسلامی تہذیب کی علمی و ادبی جہتیں‘‘ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کا 60 سالہ یادگاری مجلہ بہ اعترافِ خدمات اسلامک ریسرچ اکیڈمی ہے جسے جنوبی ایشیا کی تاریخی، تہذیبی اور علمی اہمیت کے پیشِ نظر اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے اپنی 60 سالہ علمی خدمات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا ہے۔
اس یادگاری مجلے کے مرتب نوجوان محقق ڈاکٹر خالد امین (رکن، اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی و اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، جامعہ کراچی) ہیں، جنھوں نے بہت محنت اور خوبصورتی سے اسے ترتیب دیا ہے۔ یہ مجلہ اپنی ترتیب و تزئین میں خاصا تنوع اور نیا پن لیے ہوئے ہے جس کا اندازہ درجِ ذیل فہرستِ مقالات سے کیا جاسکتا ہے:
بین المذاہب مطالعات: خوش آئند رجحانات کے چند نادر پہلو/ عبدالرحیم قدوائی، مولانا ابو محمد مصلح: جنوبی ایشیا میں تحریک قرآن کے داعی/ معین الدین عقیل، قرآن کا تصورِ امن اور اس کے اساسی پہلو/ابوسفیان اصلاحی، مولانا حالی کی نثری تصنیف مولود شریف کی تدوینِ نو: جائزہ اور محاکمہ / ارشد محمود ناشاد، جدید قوانینِ بین الممالک: ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی خدمات /زیبا افتخار، تشکیل جدیدیت کے تہذیبی و تاریخی عناصر/ محمد رشیدارشد، بین المذاہب تعلقات میں میثاقِ مدینہ کا عصری اطلاق/ محمد سہیل شفیق، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ترجمہ قرآن: لسانی اور علمی انفرادیت / حافظ سراج الدین، سید ابوالاعلیٰ مودودی: مسئلہ فلسطین کا تاریخی تناظر/ نگار سجاد ظہیر، مکاتیب غلام رسول مہر بہ نام محمد حمزہ فاروقی (مسئلہ فلسطین کے حوالے سے)/ محمد حمزہ فاروقی، تاریخِ قضیہ فلسطین: علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور اقوام عالم / فیض الدین احمد، خطوط نعیم صدیقی بہ نام معین الدین عقیل / خالد امین، اردو زبان میں انگریزی قوانین کے تراجم کا آغاز/ رفیق یار خان یوسفی، کیا مغربی تہذیب آفاقی ہے؟/ مریم جمیلہ،مترجم: فیضان الحق، مذہب اور عروجِ سرمایہ داری: سولہویں اور سترہویں صدی کے تناظر میں/ اظہارالحق،
The poet of the East – Muhammad Iqbal – in a Turkish Setting/ Tanvir Wasti, Ziya Gokalp’s Intellectual Influence on the Independence of Modern Pakistan/ Burak Kurkcu, Flexile Dunes in Urdu press: Development of Urdu language culture from pre- to post- Mutiny/ Muhammad Zeshan Akhter۔
آخر میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی… علمی و فکری کاموں کا اجمالی تعارف، 4 مارچ 1963ء: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے قیام کی پہلی روداد (عکسی) اور مقالہ نگاروں کا تعارف دیا گیا ہے۔
امید ہے کہ ہماری ملّی اور فکری تاریخ کے مطالعے میں یہ یادگاری مجلہ اہلِ علم و فن میں پذیرائی کا مستحق ٹھیرے گا۔