غزہ کی مزاحمت:اسرائیلی پروپیپگنڈا مہم کی ناکامی

اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اسرائیلی سپاہیوں نے غزہ کے فلسطینیوں کو نہتا اور بے سہارا پاکر اپنی گھٹیا اور سفاک سوچ کی تسکین کی خاطر بے دریغ طاقت استعمال کی، زیادہ سے زیادہ جانی نقصان یقینی بنانے کی کوشش کی، اور چند دوسرے سپاہی صورتِ حال کی نوعیت دیکھتے ہوئے قتل و غارت پر مائل ہوئے۔ ماحول نے اُنہیں ایسا کرنے پر اُکسایا۔ جب ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو تو کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ اسرائیلی مسلح افواج نے جو گواہیاں ریکارڈ کیں اُن میں نہتے شہریوں کو قتل کرکے یا تکلیف پہنچاکر مسرت کے حصول کی بات بھی شامل ہے۔ متعدد فوجیوں نے بتایا کہ اُنہیں فلسطینیوں کی تباہی اور بربادی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ریکارڈ کی جانے والی اِن گواہیوں میں بعض انتہائی شرم ناک جملے بھی شامل ہیں۔ کسی نے بتایا کہ اُس نے ایک دہشت گرد کو مارا، پھر اُس کا سَر دھماکے سے اُڑا دیا۔ کسی کا کہنا تھا: اچھا ہوا کہ تمام اسپتال بھرے ہوئے تھے، یوں زیادہ سے زیادہ ہلاکتیں ممکن ہوپائیں۔ ایک فوجی نے بتایا کہ اُس کے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہکسی کو مارے بغیر اُس کی جنگی ڈیوٹی مکمل ہوجائے۔ یہ سب کچھ انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک تھا، مگر اسرائیلی قیادت اور فوج نے جس نوعیت کے آپریشن کی تیاری کی تھی اُس میں تو یہ سب ہونا ہی تھا۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ، مگر اِس حقیقت کو بہت حد تک نظرانداز کردیا گیا کہ یہ سب کچھ یونیفارم میں اور ڈسپلن کے تحت کیا گیا۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک منظم فوج نے تمام اصولوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے وہ سب کچھ کیا جس کی اُس سے کسی بھی طور توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ فوجیوں کی گواہیاں ریکارڈ کرنے والے ایک رابطہ کار نے اس بات پر شدید نکتہ چینی کی کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے بیشتر علاقوں میں انتہائی پست طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی اسرائیلی فوجیوں نے کیا وہ کسی فوج کے ہاتھوں نہیں ہونا چاہیے۔ فلسطینیوں کے جن گھروں پر اُنہوں نے قبضہ کیا اُنہیں انتہائی خستہ حالت میں چھوڑا۔ صفائی پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔ یہ سب فوج کی سطح پر انتہائی افسوس ناک ہے۔ خیر، اس رابطہ کار نے بھی فلسطینیوں کے 6300 مکانات کو مکمل مسمار کرنے کے عمل پر زیادہ افسوس کا اظہار نہیں کیا۔

اسرائیلی حکومت کی طرف سے آپریشن کاسٹ لیڈ سے قبل شروع کی جانے والی پروپیگنڈا مہم ’’ہسبارہ‘‘ کے ذریعے غزہ میں قتلِ عام اور تباہی کی ذمہ داری اسرائیلی قیادت اور بحیثیتِ مجموعی یہودی معاشرے کی روایت کے سَر منڈھنے کے بجائے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے مذہبی پیشواؤں اور دینی مدارس سے آنے والے یہودی طلبہ کی رجعت پسندی کے سَر منڈھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فلسطینی علاقوں میں قتل و غارت کا بازار اُن فوجیوں نے گرم کیا جو مذہبی انتہا پسندی سے متاثر تھے۔ نیویارک ٹائمز کے ایتھان برونرز نے یہ رائے دی کہ یہ سب قتل و غارت مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ تھی، اور یہ کہ عام اسرائیلی فوجی ایسا نہیں ہے۔ ایتھان برونرز نے جو کچھ لکھا اُس کا حاصل یہ تھا کہ غزہ میں جو قتل و غارت ہوئی اُس کے لیے اگر موردِ الزام ٹھیرانا ہے تو اُن سپاہیوں کو ٹھیرایا جائے جو شدید مذہبی رجحانات کے حامل ہیں۔ ایتھان برونرز اور اُس کے ہم خیال دیگر مصنفین اور تجزیہ کاروں کی کوشش یہ تھی کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کی پوری ذمہ داری چند مذہبی رجعت پسندوں پر ڈال دی جائے اور باقی فوج کو ہر اعتبار سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے۔ یہ نکتہ بھی خوب زور دے کر بیان کیا گیا کہ مغرب کے تربیت یافتہ سیکولر ذہن کے لوگ ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتے، اور یہ کہ اسرائیلی فوج میں مغرب کے تربیت یافتہ لوگ اِن تمام بُرائیوں سے پاک تھے۔ اِس حقیقت کو بیان کرنے کی زحمت کسی نے گوارا نہیں کی کہ غزہ میں آپریشن کاسٹ لیڈ کے نام پر وسیع پیمانے کی قتل و غارت کا منصوبہ تین سیکولر، مغرب کی تعلیم و تربیت یافتہ شخصیات نے مل کر بنایا تھا۔ یہ تین شخصیات تھیں: وزیراعظم ایہود آلمرٹ، وزیر دفاع ایہود بارک اور وزیر خارجہ زِپی لِونی۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کی ذمہ داری اِن تینوں کے کاندھوں پر نہیں تھی۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اسرائیلی فوج میں مذہبی عناصر بہت کم ہیں اس لیے پالیسیوں اور حکمتِ عملی پر اُن کے اثرات زیادہ نہیں۔ اور جب اسرائیلی فوج میں مذہبی عناصر برائے نام بھی نہیں تھے تب بھی اُس کے سپاہی بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے اور اُنہوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب کے حوالے سے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

آپریشن کاسٹ لیڈ میں حصہ لینے والے اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے اقبالِ جرم جیسے بیانات کے پہلے راؤنڈ کے بعد اسرائیلی فوج نے جامع تحقیقات کا اعلان کیا، مگر تحقیقات شروع کیے جانے کے صرف 10 دن بعد اِسے روک دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ غزہ کے طول و عرض میں اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے مظالم ڈھائے جانے کی باتیں محض افواہ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے کسی بھی فلسطینی کو نہ تو بے جا طور پر قتل کیا اور نہ ہی اُس پر تشدد کیا۔ ایہود بارک کے لیے یہ سب کچھ بہت خوش کُن تھا کیونکہ اب وہ بڑھک مار سکتا تھا کہ اسرائیلی سے زیادہ اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے والی فوج دنیا میں کوئی نہیں! اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے پریس بریف میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل کا قانونی ڈھانچہ مکمل طور پر جامع اور مستعد ہے اور فوجیوں کی طرف سے فرائض کی بجا آوری کے دوران قومی و بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کسی بھی خلاف ورزی کے حوالے سے بھرپور کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیلی فوج نے جس طور تحقیقات کی اور اُس کے جو بھی نتائج سامنے لائے گئے اُن سے بنیادی حقوق کے پاس داروں کی کسی بھی طور تشفی نہیں ہوئی بلکہ وہ اِس کے برعکس سوچنے پر مجبور ہوئے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فوج کبھی شفاف تحقیقات نہیں کراسکتی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے دعوے حقیقت کو ہر صورت سامنے لانے کی کوشش کے بجائے بنیادی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی سعی زیادہ ہیں۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے لکھا کہ غیر جانب دار، آزادانہ، بروقت اور مؤثر تحقیقات کے حوالے سے اسرائیلی حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں کیونکہ حقائق کچھ اور بیان کررہے ہیں، یعنی یہ کہ اسرائیلی حکومت یا فوج فلسطینیوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں سے متعلق حقیقت پسندانہ تحقیقات کرنا ہی نہیں چاہتی۔

اسرائیلی حکومت اور فوج نے فلسطینیوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے جس انداز سے تحقیقات کی اُس سے شکوک و شبہات کو مزید ہوا ملی۔ صرف چار فوجیوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تین فوجیوں کو جیل میں وقت گزارنا پڑا۔ سب سے زیادہ سزا ساڑھے سات ماہ قید کی تھی جو غزہ کے ایک شہری کا کریڈٹ کارڈ چرانے کی پاداش میں تھی! دو سپاہیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے نو سالہ بچی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ ان دونوں کو تین ماہ کی معطل سزائے قید دی گئی۔ اسرائیلی وزیرِ اطلاعات یولی ایڈلسٹائن نے ایک بیان میں کہا کہ میں اس بات پر بہت شرمندہ ہوں کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کے کریڈٹ کارڈ چرائے۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران کی جانے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بنیادی حقوق کی پاس دار تنظیموں کی رپورٹس سے ثابت ہوا کہ اسرائیلی حکومت نے اس آپریشن سے قبل جو بھی پروپیگنڈا کیا تھا وہ کامیاب نہ ہوسکا اور رائے عامہ پر معقول طریقے سے اثرانداز ہونے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’ہسبارہ‘‘ نے بیک فائر کیا۔ انسانی حقوق کی پاس داری کے نگراں اداروں کو دو باتوں نے مکمل طور متحرک کردیا۔ ایک تو یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں، اور دوسرے یہ کہ اسرائیلی حکومت و فوج نے کسی بھی سطح پر زیادتیوں کے ارتکاب کی مکمل تردید کی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک خصوصی رپورٹ ’’فیولنگ کونفلکٹ: فارن آرمز سپلائز ٹو اسرائیل اینڈ غزہ‘‘ کے زیرِ عنوان جاری کی جس میں اقوامِ متحدہ سے درخواست کی گئی کہ اسرائیل اور غزہ کو کسی بھی سطح پر بیرونی ذرائع سے اسلحے کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور یہ پابندی اُس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک یہ یقینی نہ بنالیا جائے کہ یہ ہتھیار کسی بھی فریق کی طرف سے جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ایمنسٹی نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ امریکا کی طرف سے اسرائیل کو فراہم کیے جانے والے فاسفورس شیل، ٹینکوں کے دھماکا خیز مواد اور گائیڈیڈ میزائلوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ایمنسٹی نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے ایک مدت سے اسرائیل کو محض ہتھیار ہی فراہم نہیں کیے بلکہ مزید ہتھیار کہیں اور سے خریدنے کے لیے مالیاتی ذرائع بھی فراہم کیے ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق کسی بھی ایسے ملک کو مالیاتی امداد نہیں دی جاسکتی جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا ہو۔ اس کے باوجود امریکا نے اسرائیل کو بہت بڑے پیمانے پر روایتی ہتھیار بھی فراہم کرنا جاری رکھا ہے اور امداد بھی بند نہیں کی۔ امریکا کے دیے ہوئے ہتھیاروں ہی کی مدد سے اسرائیلی فوج نے غزہ کے طول و عرض میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ ایمنسٹی نے اس رپورٹ میں بتایا کہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو بھی بیرونی ذرائع سے ہتھیار فراہم کیے جاتے رہے ہیں تاہم وہ اسرائیل کو دیے جانے والے ہتھیاروں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے اقوامِ متحدہ سے اسرائیل اور فلسطینی گروہوں کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ بہت معنی خیز اور ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ بنیادی حقوق کے دیگر اداروں نے اب تک اس بات پر زور دیا تھا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر اُس وقت تک پابندی عائد رکھی جائے جب تک وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا رہے۔ تب تک بنیادی حقوق کے کسی بھی گروپ نے اسرائیل کو فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کی اِتنی تفصیل جاری نہیں کی تھی اور کبھی جامع پابندی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے اِس معاملے کو اُچھالا اور بنیادی حقوق کے کئی ادارے اس حوالے سے متحرک ہوئے۔

یہ بات بتانے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں کہ امریکا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ بھی اُس کے پیچھے پڑگئی کہ اُس نے جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی تجاویز سامنے رکھی ہیں جن کا بنیادی مقصد اسرائیل کو دفاع کے حق سے محروم کردینا ہے۔ بنیادی حقوق کے لیے کام کرنے والے کسی بھی گروپ نے اسرائیل کی پروپیگنڈا مہم ’’ہسبارہ‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اس پر کاری ضرب اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے لگائی جس نے ایک رپورٹ میں کہا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ یو این ہیومن رائٹس کونسل نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے رچرڈ گولڈ اسٹون کو مقرر کیا تھا۔ جب گولڈ اسٹون نے اسرائیلی مظالم کے حوالے سے رپورٹ طشت از بام کی تب اسرائیلی حکومت پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگئی اور اُسے اس رپورٹ کے ترتیب کیے جانے پر حیرت بھی ہوئی کیونکہ رچرڈ گولڈ اسٹون خود بھی صہیونیت کے حامی ہیں (جاری ہے)