چھٹا باب :ما بعد تصور,وجودی ”تصور“ دوئم(2)

سارتر اور تصور کی نفی:
سارتر کے پہلے دو بڑے کام Imagination 1936 اور The Psychology of Imagination 1940 ’تصور‘ کرنے کے وجودی عمل کا مفصل بیان ہے۔ یہ وہ بنیادی تشکیلی متون تھے کہ جن کی بنیاد پر سارتر نے Being and Nothingness، Existentialism and Humanism کی ’وجودی تھیوریز‘ مرتب کیں، اور What is Literature میں اسے شامل کیا۔ امیجی نیشن میں سارتر نے ’عملِ تصور‘ کی چند جدید تھیوریز پر تنقید لکھی، اسے ہسرل نے مظہریاتی نکتہ نظر کے کمال پر پہنچایا تھا، جو کہتا ہے کہ عملِ تصور شعور کی سرگرمی ہے۔ہسرل نے اپنی کتاب Ideas میں جو 1913ء میں شائع ہوئی، اعلان کیا کہ افسانہ وہ ذریعہ ہے جہاں سے علم نے ’ابدی سچائیوں‘ کی راہ نکالی۔ اس طرزِ فکر کا سارتر پر گہرا اثر ہوا۔ اُس نے ہسرل کے طریقہ تحقیق سے اپنی Imagination کا نتیجہ اخذ کیا۔

ہسرل نے فکر کی جو لو جلائی ہے، ’تصور‘ کا مطالعہ کرنے والا اس کی باریکیاں نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس باب میں نئی کوشش ’تصور‘ کے بارے میں نیا وجدانی وژن پیدا کرسکتی ہے۔ یہاں ’’مظہریاتی علم نفسیات‘‘ کے لیے رستہ کھلا ہے۔

باوجود اس کے کہ Imagination اس حوالے سے اصل کام نہیں ہے مگر اس نے سارتر کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے مظہریاتی تجزیے کی بنیادیں Psychology of Imagination میں رکھ سکے، جس کا فرانسیسی عنوان L’Imaginaire: Psychologic Phénoménologique de L’Imagination ہے۔

سارتر نے اپنی دوسری کتاب کا مقصد شعور کی اُس عظیم کارگزاری کی تفہیم کو قرار دیا جو تصور کی خیالی دنیا خلق کرتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ عمل شعوری زندگی میں مظہریت کا وہ اظہار ہے جو ایک ارادی سرگرمی ہے۔ سارتر کہتا ہے کہ مظہریت پسند کے لیے ’تصور‘ کے عملی پہلو میں دلچسپی کا کوئی سامان نہیں، لیکن یہ آدمی کی اہمیت کا مظہر ضرور ہے۔ اس کا کام ان تصویروں کا بیان ہے جو ہمارے شعور میں ابھرتی ہیں۔ وہ اس قوتِ ’تصور‘ کی چار خاصیتیں بیان کرتا ہے۔

پہلی خاصیت یہ کہ تصور شعور کی سرگرمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تصویر کوئی ایسی چیز نہیں جو پہلے سے حافظے میں موجود ہو۔ یہ تخلیقی سرگرمی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم کسی درخت کا تصور کرتے ہیں تو حافظے میں محفوظ کسی شے کو نہیں دیکھ رہے ہوتے کہ جو ذہن میں پہلے سے موجود ہو، بلکہ ہم باقاعدہ خود ایک شے کی جانب ارادے کے ساتھ مظہری تجربہ کررہے ہوتے ہیں۔

لہٰذا تصویر لاشعور میں ودیعت کوئی تاثر نہیں کہ جو بعد میں علامتی طور پر ظاہر ہوئی ہو۔ تصویر اپنے اندر اور اپنے لیے ہی علامتی طور پر بامعنی ہوتی ہے۔ اس کے کوئی معنی پیشگی یا بعد کے فہم سے پیدا نہیں ہوتے۔ تصویر شعوری یا تصوراتی کارگزاری سے آزاد ہوتی ہے، جبکہ تصوراتی شعور اپنی اس شے کو اصل بناکر پیش کرتا ہے کہ جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔

یہ ہمیں تصویر کی دوسری خاصیت کی طرف لے جاتا ہے: بظاہر مشاہدہ۔ شعور کی تصوراتی پروجیکشن کہ جیسے جو کچھ وہ تصور کررہا ہے ’حقیقت‘ ہو حالانکہ ایسا نہ ہو۔ یہ ایک نام نہاد مشاہدہ ہے۔ لہٰذا یہ ہمیں کوئی نئی بات نہیں سکھاتا، کیونکہ اس کے پاس کچھ ایسا ہوتا ہی نہیں ہے کہ جو ہمارے پاس پہلے سے موجود نہ ہو۔ جب کہ ہمارے براہِ راست مشاہدے میں موجود شے ہمیں اجازت دیتی ہے کہ اُس کے بارے میں بتدریج غور و فکر سے علم میں اضافہ کیا جائے۔ تصور کرنا ایک الجھا دینے والا مظہر ہے، یہ چیزوں کو اُن کی غیر موجودگی میں پیش کرتا ہے، اور اس طرح کہ شاید یہ الجھاؤ اس کے یقینی خالی پن میں یقینی جگہ بنا پائے۔

تیسری خاصیت بے ساختگی ہے، کہ جب مشاہدے میں موجود شے کے معنی ٹھیری ہوئی حالت میں ہو کہ جب اُسے اپنا معروض معلوم بھی کرنا ہو، تو تصور وہ ایک بنیادی سرگرمی ہے جو بے ساختگی کے ساتھ اپنے اندر سے معنی پیدا کرتی ہے۔ تصویر بے ساختہ ہے اس اعتبار سے کہ کچھ ظاہر نہیں کرتی سوائے اپنے آپ کے۔ تصور کرنے کی یہ بے ساختہ خاصیت ایک جادوئی سرگرمی ہے کہ جس کے ذریعے کوئی کسی بھی شے پر اپنا پہلے سے قبضہ جمالیتا ہے کہ جو درحقیقت خود کو بتدریج پیش کرتی ہے اور کبھی مکمل طور پہ ایک ہی وقت میں سامنے نہیں آتی۔

کیونکہ تصور اپنے معنوں تک بغیر کسی ذریعے کے پہنچتا ہے، اور شعور اسے یہ آزادی دیتا ہے۔ یہ تصوراتی شعور اس قدر آزاد ہے کہ تصویر اور اس کے معنی باہم قابلِ شناخت بنالیتا ہے۔ اسے اس کی ذات سے باہر سے متعین نہیں کیا جاتا۔ تصور ایک بے ساختگی ہے آزاد موضوعیت کی، جس کا سارا انحصار اس کے اپنے آلات پر ہے۔ سارتر تسلیم کرتا ہے کہ اس طرح کی آزادی ایک قسم کی غلامی میں دھکیل سکتی ہے، شعور کی اپنی غلامی۔ ایسا تب ہوتا ہے جب تصور کی بے ساختگی کا سامنا دوسری بے ساختگی سے ہوجائے کہ جو اس کے اپنے ہی شعور کی پیداوار ہو۔ یہ مدمقابل بے ساختگی کسی خارجی ذریعے کا سبب نہیں ہوتی بلکہ اپنی ہی بے ساختگی میں انتشار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس طرح جب کوئی ذہن بیمار ہوتا ہے اسے عجیب عجیب سے خیالات آتے ہیں، برے خیالات آتے ہیں، تو وہ کسی خارجی عوامل کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے ہی تصوراتی شعور کی بے ساختگی میں بدنظمی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ یہ دراصل شعور میں بے ساختگی کی بے ساختگی سے برآمد ہوتے ہیں، کہ جو آپس میں الجھ جاتی ہیں جیسے عموماً ہمارے ساتھ خوابوں میں ہوتا ہے۔

چوتھی اور آخری خاصیت، سارتر کہتا ہے تصور کی مکمل بے معنویت یا لاشئیت ہے۔ تصور ادراک سے مختلف ہے اور اس بات کا ادراک تصوراتی شے پر ’ناچیز‘ کا حکم لگاتا ہے۔ سارتر ایک مثال دیتا ہے: زندہ، پُرکشش اور طاقت ور تصور اپنی ’شے‘ بطور ’ناچیز‘ پیش کرتا ہے۔

ایک تصوراتی دنیا آباد کرنا درحقیقت حقیقی دنیا کا انکار کرنا ہے۔ یہ تصوراتی دنیا خود کو تین مرکزی طریقوں سے ظاہر کرتی ہے: بطور عارضی غیر حقیقی پن، ایک خواب، افسانہ یا آرٹ کی صورت وغیرہ۔ اسے ارادے سے سست یا تیز کیا جاسکتا ہے۔ اسے الٹا بھی چلایا جاسکتا ہے۔ دہرایا بھی جاسکتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کی کئی صورتوں کے لیے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا، مکانی غیرواقعیت، ایک تصوراتی شے اور اُس کے پس منظر کا عالم۔ تیسرا، اندر کا غیر حقیقی پن، گمان کی نامعقول صورتیں۔ اس حوالے سے پکاسو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح سارتر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ’تصویر لازماً لا شے‘ ہے۔ اسے واقعیت سے گڈمڈ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ تصور کرنے کے لیے مجھے لازماً اس قابل ہونا چاہیے کہ اُس ’شے‘ کا بطور ’حقیقت‘ اور وہ دنیا جس میں یہ پائی جاتی ہے انکار کروں۔ مختصراً یہ کہ میں اس غیرحقیقی شے کو ’کچھ نہیں‘ قرار دے سکوں۔ سارتر اصرار کرتا ہے کہ ہمارا اپنے اندر یہ یقین پیدا کرنا بے کار ہے کہ ہمارا میلان کسی ’شے‘ کو حقیقت بناسکتا ہے۔ ہم لمحہ بھر کے لیے ایسا باور تو کرسکتے ہیں مگر ہم اس کا ’لا شے‘ واضح ہونا جھٹلا نہیں سکتے۔ سارتر کا تصویر کے لا شے ہونے کا مظہریاتی تجزیہ، جو اُس نے The Psychology of Imagination میں پیش کیا، بعد کے ’تصوراتی شعور کے خود آگاہ اظہارات‘ کا بنیادی قضیہ آرٹ، خواب، اور جنسی جذبے کے دائروں میں پیش کرتا ہے۔

خودفریب ذہن کی صورتیں
اگر تصور نفی کا عمل ہے تو یہ ایک دل فریب سرگرمی بھی ہے۔ یہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ یہ حقیقی دنیا کا انکار کرکے ہمیں تصور میں مسحور رکھتا ہے۔ دل فریبی کو سارتر تخیل کا جادو کہتا ہے۔ یہ جادو کسی شے پر قبضہ جمانے یا اس کے قبضے میں چلے جانے کا عمل ہے۔ جو حقیقت میں ہمیں نہ مل سکتا ہو غیر واقعیت میں بخش دیا جاتا ہے۔ اس طرح تصوراتی شعور سوچ کی اس پیداوار کا مقدر ہوجانا بیان کرتا ہے۔ ایک ایسی شے جس کی خواہش کی جائے اور اسے حاصل کیا جاسکے۔ سارتر اس لبھائے جانے کو کئی استعاروں میں پیش کرتا ہے۔ یہ اس کے مظہریاتی تجزیے میں نمایاں ہے۔ ہم یہاں انہیں ترتیب میں بیان کریں گے۔ استعاری صورتیں وجودی تصور کے اسلوبِ تحقیق کی وضاحت کرتی ہیں۔ کیسے ناظرین اسٹیج پر موجود ایک فنکار کی اداکاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں ایسے کہ جیسے وہ واقعی سچا کردار ہے؟ یہ کیسے ہوتا ہے کہ عجیب طرح سے بے یقینی میں تعطل سا آجاتا ہے جو ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم پورے جوش وجذبے سے ایک اداکار کی حرکتوں اور تصوراتی کرداروں کے مصائب پر شدید ردعمل دیتے ہیں؟ ان باتوں کا جواب سارتر کے نزدیک تخیلاتی دل فریبی ہے۔ ہم کچھ دیر کے لیے ایک حقیقی اداکار جو ایک حقیقی اسٹیج پر اداکاری کررہا ہوتا ہے، کے لیے اپنی شعوری سرگرمی کو غیر جانب دار کردیتے ہیں۔ ہم جادوئی انداز میں اسے اس تصوراتی کردار میں ڈھال لیتے ہیں کہ جو وہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ ہیملٹ میں وہ ڈنمارک کا شہزادہ نہیں ہوتا جو اُس کے اداکار میں حقیقت بن کر سامنے آتا ہے، بلکہ وہ ایک اداکار ہوتا ہے جو ایک شہزادہ بن کر غیر حقیقی ہوجاتا ہے۔ اس کے اشارے، اس کے الفاظ، اس کا لباس، اس کا میک اپ کچھ دیر کے لیے مشاہدے میں معطل ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ یوں ہوا کہ جیسے تصور نے اُن کی نفی کردی۔ انہیں ٹھوس حالت سے نکل کر ایک غیر موجود شخصیت بننے کی اجازت دے دی گئی کہ جس کا نام ہیملٹ ہے۔ تصور ہمیں یہاں پر ایک ایسی تجزیاتی وحدت میں لے آتا ہے کہ جو چہرے اور بولے جانے کی علامتوں کے ذریعے اُنہیں ایک اور زندگی میں لے جاتا ہے، ایک افسانوی کردار کی زندگی میں، کہ جسے وہ مختلف صورت دیتا ہے، اور اداکار خود اس تصوراتی تبدیلی کا تجربہ کرتا ہے اور اپنے شعور میں اصل ذات پر ایک غیرذات کا قابض ہونا دیکھتا ہے۔

تصور کا یہ لبھانا اور چھا جانا صرف ڈرامائی آرٹ میں نہیں پایا جاتا، اور نہ صرف غیر ذات تک ہی محدود ہے۔ سارتر ہمیں مصوری سے بھی مثالیں دیتا ہے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ جب گیلری میں ہم کنگ چارلز کی تصویر سے متاثر ہوتے ہیں تو ہمارا کینوس پر موجود لکیروں اور رنگوں کا مشاہدہ معطل ہوجاتا ہے اور ہم مرے ہوئے بادشاہ کی نام نہاد موجودگی متصور کررہے ہوتے ہیں، جو لمحہ بھر کے لیے کینوس پر قابض ہوتا ہے جیسے وہ واقعی یہاں پر زندہ موجود ہو۔ اسی طرح کا ایک نقطہ سارتر اپنے مضامین میں دیتا ہے جب وہ دلیل دیتا ہے کہ Guardi کے فن پارے ہمیں یہ تصور کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ شہر وینس کی اصل زندگی اور شان و شوکت کیا ہے حالانکہ ہم نے کبھی یہ شہر دیکھا تک نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس طرح کا تصوراتی عمل ایک شخص پر جادو کردیتا ہے اور چیزوں کو ان کی غیر موجودگی میں لا موجود کرتا ہے تو یقیناً اس کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ جب تصور ہمیں اصل دنیا کی پابندیوں سے ازاد کرتا ہے تو یہ ہمیں آسانی سے غیر حقیقی دنیا کا غلام بنا لیتا ہے۔ یہاں پر سارتر اصرار کرتا ہے کہ تصور کا فریب بالآخر اپنے تصوراتی وجود کے ساتھ ہی رہ جاتا ہے کہ جسے اس نے گھڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ خودفریبی کی صورت زوال پذیر ہوجاتی ہے، اور خودفریبی کی کوئی حد نہیں۔ انسان اپنے تصورات کی مذمت کرکے خود کو پاسکتا ہے۔

میڈاس
سارتر لکھتا ہے کہ اس کی ایک مثال میڈاس ہے:
’’جیسے بادشاہ میڈاس ہر شے کو چھو کر سونا بنادیتا تھا اسی طرح شعور ہر شے کو تصور میں ڈھال دیتا ہے۔ یہیں سے خواب کی ہلاکت خیزی شروع ہوتی ہے۔ شعور کا وہ کٹھن سفر کہ جس پر وہ خود کو روانہ کرتا ہے باوجود اس کے کہ وہ ایک غیرحقیقی دنیا بسانے جارہا ہوتا ہے۔‘‘

پگمیلین (Pygmalion)
خود پسند تصور کی خاصیت اس حقیقت سے ماخوذ ہے کہ انسان خود اپنی غلامی کا ابتدائی سبب ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہم اپنے افسانوں کے اداکار ہیں بلکہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ انسان وہ خلّاق ہے جو اپنی ہی تخلیقات میں مگن رہتا ہے۔ اس مشکل کو بیان کرنے کے لیے سارتر پگمیلین کے کردارکی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ایک ایسا کردار جس نے جدید فنکاروں کی توجہ پر حکمرانی کی۔ سب سے زیادہ جارج برنارڈ شا متاثر ہوا۔ پگمیلین نے نہ صرف یہ کہ یونانی اسطور سے اپنے اجداد ڈھونڈ نکالے بلکہ اناجیلی گولم تراش (بُت)سے بھی کام لیا۔ پگمیلین کی المیہ کہانی جدید تصور کی خرافات کا ایسا بیان ہے جو خواہشاتِ نفس کی افسانہ نگاری نظر آتی ہے۔ خاص طور پر ایک متن میں کہ جس کی سارتر یوں وضاحت کرتا ہے:

’’زندگی کی مدہوش سانسیں، جو ہم تصور میں لیتے ہیں، یہ ہماری اپنی بے ساختگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان سے رخ موڑ لیں تو وہ تباہ ہوجاتی ہیں، اور اگر انہیں مصنوعی طور پر زندہ رکھا جائے تب بھی وہ کسی لمحے فنا ہوجاتی ہیں۔ یہ خواہشات کو مطمئن نہیں کرسکتیں۔ لیکن کسی غیر حقیقی شے کی تعمیر مکمل طور پر بے کار بھی نہیں ہوتی۔ یہ محض وقتی طور پر حواس کو دھوکہ دینے کے کام آجاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک پیاسے پر سمندر کا اثر ہو۔ یہ بہرحال ایک سراب ہے۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ شے بطور تصور ایک خواہش ہے۔ یہ صرف ایک خلا کی صورت ہے۔

یہ خود فریب تصور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقت سے گریز کیا جائے۔ یہ ہمیں ہماری اپنی بنائی ہوئی ’دنیا سے بیزار‘ دنیا میں لے جاتا رہا ہے۔
(جاری ہے)