محمود خان اچکزئی کی قیادت میں نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات
فروری کے عام انتخابات کے بعد جوں جوں وقت گزر رہا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ فارم 45 اور فارم 47 پر شور شرابے کی آواز بظاہر اتنی آسانی سے دبنے والی نہیں۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں ایک جانب روزِ اوّل سے فارم 45 کے مطابق الیکشن کمیشن سے نتائج مانگ رہی ہیں، تو دوسری جانب سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کو جھاڑ پلاتے سنائی دے رہے ہیں کہ اگر فارم 47 کے متعلق منہ کھول دیا تو آپ منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہیں گے۔ نومنتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے اپنی حلف برداری کی تقریر میں ہی کہہ دیا تھا کہ فارم 45 اور 47 میں جو تضاد ہے اس پر ہم خاموش رہنے والے نہیں۔ مزاحمت میں زندگی ہے، ہم مزاحمت کا آغاز جلد کریں گے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں نومنتخب امیر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اپوزیشن رہنما سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، حامد خان ایڈووکیٹ، جب کہ جماعت اسلامی کے وفد میں امیرالعظیم، اسامہ رضی، قیصر شریف اور دیگر رہنما موجود تھے۔ ملاقات کا ایک نکاتی ایجنڈا حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بڑے سیاسی اتحاد کا قیام تھا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے ’تحریک تحفظِ آئین‘ میں جماعت اسلامی کو شمولیت کی باضابطہ دعوت دی اور اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ پُرہجوم پریس کانفرنس میں حافظ نعیم الرحمان سمیت تمام رہنما بہت محتاط نظر آئے۔ اتحاد میں شمولیت کو انہوں نے مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلے سے مشروط کیا، جب کہ حافظ نعیم الرحمان نے متعدد بار جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا واضح اعلان کیا۔
حافظ نعیم الرحمان ملکی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ میدانِ سیاست میں جتنی مار ان کی پارٹی نے کھائی ہے شاید ہی اور کوئی پارٹی اس کا نصف بھی برداشت کرپاتی۔ متحدہ مجلس عمل اور آئی جے آئی سمیت کتنے ہی اتحادوں کا قوم نے شیرازہ بکھرتے دیکھا۔ حالیہ انتخابات کے چند دن بعد تحریک انصاف کی قیادت نے جس میں وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور، حامد خان، اسد قیصر اور لطیف کھوسہ شامل تھے، جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت سے رابطہ کیا تاکہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کو جماعت اسلامی کا نام مل سکے، یوں اس کی پارٹی کی مخصوص نشستیں بھی مل جائیں گی، مگر چند ہی دنوں بعد تحریک انصاف کے قائدین نے اپنا مؤقف بدل لیا کہ ہم مرکز کے بجائے خیبر پختون خوا کی حد تک جماعت اسلامی کا نام استعمال کریں گے، جس پر جماعت اسلامی کی قیادت نے ان سے شکوہ کیا کہ آپ نے بات مرکز سمیت چاروں صوبوں کی ، کی تھی، اب مؤقف بدل رہے ہیں تو آپ فیصلے میں آزاد ہیں جس پر ہم نالاں نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف نے قلابازیاں کھائیں۔ مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہوتے ہوتے سنی اتحاد کونسل کو اپنی پسند قرار دے دیا جس کا سیاسی نقصان تو یہ ہوا کہ یہ لوگ مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، دوسرے یہ جماعت اسلامی کے لیے واضح اشارہ تھا کہ ان کا کوئی اصولی مؤقف نہیں رہتا… دن کو کوئی اور بات، رات کو کچھ اور۔ یوں جماعت اسلامی کی قیادت اس اپوزیشن اتحاد کے سیمینارز تک تو جانے میں اکتاہٹ محسوس نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد کے لیے بجا طور پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے جماعت اسلامی کے سیاسی وزن کو استعمال کرسکتے ہیں۔
اس سے قبل بھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین اشتراک کے معاملات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ حافظ نعیم الرحمان نے محتاط رویہ پریس کانفرنس میں اس لیے بھی اپنایا کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ تحریک انصاف کے ساتھ سابق ٹریک ریکارڈ کی بدولت کسی اتحاد میں شمولیت کا مشورہ نہیں دے گی اور نہ ہی جماعت اسلامی کے کارکن اور اراکین اب کسی نئے سیاسی اتحاد میں شمولیت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔
ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو حالیہ نتائج میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی ماضی میں عمران خان کی موجودگی میں ہوتی تھی۔ تحریک انصاف کی قیادت ان نتائج کو جواز بنا کر دراصل اپنے قائد قیدی نمبر 804 کی رہائی چاہتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے بھی میدانِ سیاست میں بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔ اتنی آسانی سے وہ ٹریپ ہونے والے نہیں۔ چند دن بعد جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس ہے جس کے بعد جماعت اسلامی کی پالیسی بھی سامنے آ جائے گی۔
اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کے بعد حافظ نعیم الرحمان نے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا جو فارم 45 اور 47 کی پامال حدود کا تعین کرے تاکہ انصاف کا بول بالا ہوسکے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں جب ڈالروں کے لالے پڑے ہوئے تھے تو ہمارے ایک ارب سے زائد ڈالر گندم کی خریداری کے نام پر باہر چلا گئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ ظالمانہ فیصلہ کس نے اور کس کی ایما پر کیا۔ پاکستان کا تقریباً 280 ارب روپیہ ڈوب گیا۔ موجودہ جعلی حکومت کو ہم نہیں مانتے، انتخابات کے نام پر تماشا کیا گیا، ملک میں سیاست آزاد نہیں ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تو فارم 45 موجود ہے، لے آئو تم بھی فارم 45۔ جوڈیشل کمیشن فارم 45 اور فارم 47 دیکھ کر فیصلہ کرلے۔ حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ ہم آئین و قانون کی بالادستی پر یقین کرنے والے لوگ ہیں لیکن اس آئین کو بار بار پامال کیا گیا۔ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، آرمی چیف کی جانب سے حدود برقرار رکھنے کا بیان خوش آئندہ ہے۔