اے این پی انٹرا پارٹی انتخابات کے نام پر نامزدگیاں :ایمل ولی صدر، اسفندیار ولی ”رہبر تحریک“

عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) کے سابق مرکزی صدر اسفند یار ولی خان جو عرصۂ دراز سے سیاسی منظر سے غائب تھے، انہیں رہبر تحریک کے منصب پر بٹھاکر اے این پی نے اُن کے فرزند سینیٹر ایمل ولی خان کو اُن کے جانشین کے طور پر پارٹی کا مرکزی صدر منتخب کرلیا ہے، ان کے ساتھ ان کی کابینہ کے دوسرے عہدیداروں کا بھی چنائو کرلیا گیا ہے، تاہم نئی کابینہ میں پارٹی کے سابق ترجمان اورسینیٹر زاہد خان، سابق وزیراعلیٰ اور سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور کے علاوہ کئی اور پرانے چہروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ پارٹی کے حالیہ انتخابات کی ایک اور نمایاں بات بریگیڈیئر(ر) محمد سلیم خان کی بطور مرکزی سیکرٹری جنرل پارٹی کے کسی اہم ترین عہدے پر کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کی حیثیت میں تعیناتی ہے۔ اس سلسلے میں اعلان کردہ شیڈول کے مطابق اتوار کے روز مرکزی الیکشن کمشنر میاں افتخار حسین کی صدارت میں باچا خان مرکز پشاور میں مرکزی کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں چاروں صوبوں سے پارٹی کی مرکزی کونسل کے اراکین نے شرکت کی۔ سینیٹر ایمل ولی خان کا نام برائے مرکزی صدارت امیر حیدر خان ہوتی نے تجویز کیا، جس کی مرکزی کونسل کے تمام ارکان نے اتفاقِ رائے سے منظوری دی۔ جب کہ اس موقع پر امیر حیدر خان ہوتی نے اے این پی کے سربراہ اسفند یارولی خان کو رہبر تحریک کا منصب دینے کی تجویز بھی دی جس کی تمام شرکاء نے متفقہ طور پر منظوری دی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل یہ منصب خان عبدالولی خان مرحوم کے لیے مخصوص تھا۔

قبل ازیں عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے مرکزی صدارت کے لیے سینیٹر ایمل ولی خان کا نام تجویز کرتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ لوگوں کی یہ خواہش اور خیال ہے (اور ان کی یہ خواہش ہی رہے گی) کہ شاید ہم ایک دوسرے سے جدا اور الگ الگ ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ نہ ہم الگ ہیں اور نہ کبھی الگ ہوں گے۔ آج سے 13، 14 سال پہلے میں نے ہی اپنے بھائی (ایمل ولی خان) سے کہا تھا کہ تیاری پکڑو، آج وہ مرحلہ آچکا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر کے عہدے کے لیے میں ایمل ولی خان کا نام تجویز کرتا ہوں۔‘‘ انہوں نے رہبر تحریک اسفند یار ولی خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملی مشر اسفندیار ولی خان علالت کے باعث کونسل کے اجلاس میں موجود نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے، ان کی سربراہی اور رہنمائی میں ہم سب نے مل کر بھرپور جدوجہد کی ہے جو ان کی رہبری میں آگے بھی جاری رہے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو جو خودمختاری حاصل ہوئی اور مالی اور انتظامی طور پر صوبے مضبوط ہوئے، اس سب میں اسفندیار ولی خان نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔ پختون خوا کو اپنی شناخت دلانے پر پوری قوم مشر اسفندیار ولی خان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ اے این پی دورِ حکومت میں تعمیر و ترقی کے سفر کا سارا کریڈٹ اسفندیار ولی خان کو ہی جاتا ہے، مرکزی صدر کی حیثیت سے اسفندیار ولی خان کا سفر آج مکمل ہوا، لیکن ان کے بغیر ہماری رہنمائی کوئی نہیں کرسکتا، ان کی رہنمائی ہوگی تو ہماری تحریک چلتی رہے گی۔ مرکزی کونسل کے سامنے تجویز پیش کرتا ہوں کہ مشر اسفند یار ولی خان آج کے بعد ’رہبرِ تحریک‘ ہوں گے۔ رہبرِ تحریک اسفندیار ولی خان عہدوں کے محتاج نہیں ہے لیکن ہم کو اور اس تحریک کو بطور ایک ملی مشر ان کی ضرورت ہے۔‘‘

نومنتخب مرکزی صدر عوامی نیشنل پارٹی ایمل ولی خان نے اپنے انتخاب کے بعد مرکزی کونسل کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’رہبرِ تحریک اسفندیار ولی خان نے جو کارنامے قوم کے لیے سرانجام دیے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ باچا خان اور خدائی خدمت گاروں، ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خوابوں کو اسفند یار ولی خان نے تعبیر سے روشناس کیا، پختون خوا کو پختون خوا بنانا عوامی نیشنل پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا، اپنی شناخت یقینی بنانے کے لیے ہمیں دہائیاں لگیں اور ہزاروں مشکلات کا سامنا کیا۔ اسفندیار ولی خان نے ’’خپلہ خاورہ خپل اختیار‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنایا، صوبائی خودمختاری اٹھارہویں آئینی ترمیم کا حصہ ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے، اٹھارہویں آئینی ترمیم پختونوں کے لیے زندگی کی بنیاد ہے۔ آج اٹھارہویں آئینی ترمیم خطرات سے دوچار ہے اور اس پر حملے ہورہے ہیں۔ اپنی پارٹی اور اکابرین سے وعدہ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی سر کے بدلے حفاظت کریں گے، جو بھی اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوشش کرے گا ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’باچا خان نے ہمیں سکھایا ہے کہ اپنی سرزمین پر غلامی کی زندگی گزارنا ہمیں منظور نہیں ہے، ہم پختون سرزمین پر کسی کے غلام نہیں، پختونوں کو غلامی کی جس نہج پر پہنچایا گیا ہے وہ سب کو معلوم ہے، وعدہ ہے کہ ہرقدم اپنی قوم کی بنیادی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائیں گے، تمام اداروں کو اپنے آئینی دائرۂ اختیار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ اگر تمام ادارے آئینی دائرۂ اختیار میں رہ کر کام کریں گے تو پاکستان آگے بڑھے گا۔ دفاعی ادارہ ہو، عدلیہ ہو، پارلیمان ہو یا کوئی اور ادارہ… جو بھی آئینی اختیارات سے تجاوز کرے گا پاکستان کے لیے مشکل ہوگی۔ پچھلے ستّر سال سے پاکستان کا ایک ادارہ نہ آئین کو مانتا ہے اور نہ اپنے آئینی اختیار کو، وہ الٹا ہمیں آئین کا درس دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان لوگوں کے لیے آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، جب دل چاہے اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنی بادشاہت شروع کردیتے ہیں۔ ہم نے جو نعرہ پشاور، صوابی، سوات اور چارسدہ میں لگایا تھا وہ پوری قوم کی آواز ہے، اب دفاعی اداروں کو دفاع کو ترجیح دینی ہوگی اور بارڈر اور بیرک واپس جانا ہوگا۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے نومنتخب مرکزی صدر ایمل ولی خان نے مرکزی کونسل کے اجلاس کے بعد ولی باغ میں رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان اور اپنی والدہ محترمہ کی قبروں پر حاضری دی اوران کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔

اے این پی جیسی جمہوریت اور ترقی پسند جماعت کی جانب سے مرکزی اور صوبائی عہدوں پر تعیناتی کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کے نام سے عہدوں کی بندربانٹ کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے اس سے ہماری سیاسی جماعتوں کی جمہوریت نوازی اور سیاست میں ان کی سنجیدگی قوم پر ایک بار پھر عیاں ہوگئی ہے۔ اے این پی جو ماضی میں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے ہماری لولی لنگڑی جمہوریت میں بطور ایک معتبر جماعت پہچانی جاتی تھی اب اس نے ایک طرف ملکی سیاست پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم اور جمعیت (ف) کے ناموں سے ناگ کی طرح پھن پھیلائے قابض سیاسی اشرافیہ کی تقلید کرتے ہوئے اپنے انٹراپارٹی انتخابات میں ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کو بھی داغِ مفارقت دیتے ہوئے مشرف بہ نامزدگی کردیا ہے تو دوسری جانب ہر حال میں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کے لیے تمام تر اصول (اگر کچھ تھے)قربان کرتے ہوئے پہلے مصنوعی طریقے سے زرداری فارمولا اپلائی کرکے اے این پی کے نومنتخب سربراہ سینیٹ میں پہنچ چکے ہیں اور اب انہوں نے اپنے ساتھ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر(ر) محمد سلیم خان کو مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر کرکے مقتدر حلقوں کو جہاں اپنی وفاداری کا واضح پیغام دیا ہے وہاں ان تک رسائی کے لیے ایک زینہ بھی فراہم کردیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اے این پی بریگیڈیئر(ر) محمد سلیم خان کی تعیناتی کو اسٹیبلشمنٹ سے کسی ممکنہ قربت کی پالیسی قرار دینے سے یہ کہہ کر انکاری ہے کہ بریگیڈیئر(ر) محمد سلیم خان کو ان کے فوجی پس منظر کی وجہ سے نہیں بلکہ اے این پی کے سابق رہنما افضل خان لالہ کا فرزند ہونے کے ناتے موجودہ عہدے پر تعینات کیاگیاہے۔ اگر اے این پی کے اس مؤقف کو درست مان لیا جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گاکہ افضل خان لالہ کا فرزند ہونے کے سوا آخر بریگیڈیئر صاحب کی پارٹی کے لیے خدمات کیا ہیں اور پارٹی کے کئی سرکردہ نامی گرامی رہنمائوں کو نظرانداز کرکے پارٹی میں ایک غیر مانوس چہرے کو ایک نمایاں پوزیشن دینے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ایمل ولی خان کو ملنے والے کسی بھی ممکنہ اعلیٰ حکومتی عہدے سے خودبخود ہوجائے گا۔