جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے تو مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ کے تقدس کے بڑے داعی بن کر کھڑے ہوتے
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی بلوچستان سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا ہے، اس کا شیڈول وہ بہت پہلے دے چکے تھے، اور اعلان کردیا تھا کہ پہلا جلسہ پشین میں منعقد کیا جائے گا۔ پشین کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے265 سے مولانا فضل الرحمان نے انتخاب لڑا اور جیت گئے۔ کیوں کہ اپنے حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان میں انہیں واضح شکست نظر آرہی تھی اور ہار بھی گئے۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے نہیں ہروایا ہے بلکہ مولانا فضل الرحمان کا بذاتِ خود اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ تھا۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی ضد تحریک انصاف نے شکست سے دوچار کیا، اور پورے خیبر پختون خوا میں جے یو آئی کو شکست ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ جے یو آئی پی ڈی ایم کا حصہ اور رہبر تھی، اور پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی۔ مولانا فضل الرحمان اگر یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ان کی اور پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی ہے تو یہ غلط بیانی ہے۔ مولانا اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان حکومت پر ضرب کہاں سے لگ رہی تھی۔ جو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک ِانصاف کی جیت کو اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت باور کراتی تھیں آج نون لیگ اور پیپلز پارٹی اسی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی ہیں۔ بلوچستان کے اندر تو منظرنامہ بہت ہی نرالا تھا، یہاں انہونیاں ہوئیں۔ چناں چہ 20 اپریل کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا پہلا جلسہ ضلع پشین کے تاج لالہ فٹ بال گرائونڈ میں منعقد ہوا۔ اسی میدان میں عید کے چوتھے روز تحریک تحفظ آئین پاکستان نے حکومت مخالف اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جلسہ کرکے تحریک کا آغاز کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں 2018ء کے انتخابات سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ”یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ سیاست دان سیٹوں پر نہ بکیں“۔ یقیناً تحریک انصاف نوازشریف کی حکومت کے خلاف استعمال ہوئی، اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ڈی ایم (جس میں نون لیگ، جے یو آئی، پشتون خوا میپ، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی شامل تھیں) استعمال ہوئی ہیں۔ چناں چہ موجودہ وفاقی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر قائم و کھڑی ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے انتخابی مراکز خیبر پختون خوا اور بلوچستان ہیں۔ خیبر پختون خوا میں جے یو آئی تحریک انصاف سے ہاری ہے۔ بلوچستان میں جے یو آئی اپنی حیثیت کے مطابق اِس بار بھی نشستیں حاصل کرچکی ہے۔ بعض حلقوں پر ہیرا پھیری اس کے ساتھ بھی ہوئی ہے، تاہم نوازی بھی گئی ہے۔ البتہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے لیے میدان مشکل بنایا گیا۔ یہاں تحریک انصاف کا بھی راستہ روکا گیا۔
مولانا فضل الرحمان نے پشین جلسے میں تقریر کا آغاز ہی فوج پر تنقید سے کیا اور کہا کہ پاکستان بنانے میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، ملک کو مشکل سے کبھی بھی فوج نے نہیں نکالا ہے، اگر نکالا ہے تو جے یو آئی نے کردار ادا کیا ہے۔ انہوں کہا کہ جعلی حکومت کو اقتدار میں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے سوال کیا کہ ”بتایا جائے بلوچستان اسمبلی کتنے میں خریدی ہے؟ بتایا جائے اسمبلی 70ارب روپے یا 100 ارب روپے میں خریدی ہے؟ یہ بھی بتایا جائے کہ سندھ اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں کتنے میں خریدی گئی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کو ہرانے کے لیے کتنے پیسے دیے گئے؟ بلوچستان اسمبلی ہو یا قومی.. یہ عوام کی نمائندہ نہیں ہیں“۔
دیکھا جائے تو جے یو آئی پر بلوچستان میں ٹکٹ فروخت کرنے کے الزامات ہیں۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر احمد خان کو جنرل نشست پر ٹکٹ دیا جانا بھاری رقوم کے عوض بتایا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے امریکی پالیسیوں اور جارحیت کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کرنے کی بھی بات کی ہے۔ یہی امریکہ عمران خان حکومت کی تبدیلی میں ایک عنصر تھا۔ خواہ لاکھ جھٹلایا جائے ”سائفر“ ایک حقیقت ہے۔ جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے تو مولانا فضل الرحمان اسٹیبلشمنٹ کے تقدس کے بڑے داعی بن کر کھڑے ہوتے۔ 9مئی کے واقعات کے بعد تو عمران مخالفین بشمول مولانا فضل الرحمان انہیں غدار ثابت کرنے میں پیش پیش تھے۔
زیادتیاں بلاشبہ عمران خان نے بھی کی ہیں۔ لہٰذا اب وقت ماضی کی کوتاہیوں کو فراموش کرنے کا ہے۔ حکومت سے باہر موجود سیاسی جماعتیں اگر واقعی چاہتی ہیں کہ ملکی سیاست میں مداخلت نہ ہو، آئین مقدم اور پارلیمنٹ بالادست ہو تو انہیں وقت ضائع کیے بغیر ایک ہی تحریک میں جڑ جانا ہوگا۔ وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ پوری کی پوری حکومتی مشنری ایک ہی ادارے کے تصرف میں ہے۔ احتساب کے ادارے، الیکشن کمیشن اور تمام سول ادارے شکنجے میں ہیں۔ انہیں جس طرح چاہے استعمال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی حکومت بلاشک و شبہ جعلی حکومت ہے۔ سرفراز بگٹی کی کامیابی کو نواب بگٹی کے پوتے گہرام بگٹی نے چیلنج کررکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گہرام کے خلاف قومی احتساب بیورو کو متحرک کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا سرفراز بگٹی کے مائی باپ کے اشارے پر ہی ہوا ہے۔ نیب ایک مقید ادارہ ہے۔ یہ موجود حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اشارئہ آبرو پر کام کرتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے 21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پر انتخاب ہوا۔ سردار اختر مینگل کی خالی کی ہوئی نشست پی بی 20 وڈھ خضدار، اور وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کی جانب سے خالی کی گئی بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 22 لسبیلہ پر انتخابات ہوئے۔ پی بی 50 قلعہ عبداللہ پر سپریم کورٹ نے دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا۔ چناں چہ پی بی20 پر بی این پی کے جہانزیب مینگل اور پی بی 22 پر نون لیگ کے نواب زادہ زرین مگسی کامیاب ہوئے۔ یہ نوجوان، جام کمال خان کے داماد ہیں۔ یہاں جام کمال خان نے درست فیصلہ نہیں کیا۔ جھل مگسی کے نواب خاندان کے خانوادے کے بجائے لسبیلہ میں اپنے خاندان سے کسی کو ٹکٹ دیا جاتا تو اس کی ستائش ہوتی۔ یہی لوگ جام کے ساتھ ہر قسم کے حالات اور ماحول میں رہتے ہیں۔ زرین مگسی سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی عامر علی مگسی کے بیٹے ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر خالد مگسی اور سابق گورنر ذوالفقار علی مگسی کے بھتیجے ہیں۔ زرین مگسی کو نون لیگ کا ٹکٹ دلایا گیا۔ پی بی 50قلعہ عبداللہ پر عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک خان اچکزئی دوبارہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مدمقابل پشتون خوا میپ کے امیدوار محمود خان اچکزئی کے بھتیجے میروائس اچکزئی تھے۔ پشتون خوا میپ نے دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ ”فارم 45 میں میروائس اچکزئی کو 14ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی مگر آر او کی ملی بھگت سے فارم47میں زمرک خان کو کامیاب کرایا گیا، کم از کم 30 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تبدیل کیے گئے، پانچ پولنگ اسٹیشنز سے عملے کو اغوا کیا گیا جس پر الیکشن کمیشن اسلام آباد نے بھی نوٹس لیا، مگر اس کے باوجود ان پولنگ اسٹیشنز پر ریٹرننگ افسر کی ملی بھگت سے زمرک اچکزئی کو ووٹ دلائے گئے۔ فارم47تین مرتبہ جاری کیا گیا۔ ضمنی انتخاب دوبارہ اسی انتظامیہ کی زیر نگرانی کرائے گئے جن پر 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے۔ آر او اور ڈی آر او دفتر پولنگ کے بعد چار گھنٹے مسلح افراد کے گھیرے میں رہا، نتائج لانے والے عملے کو یرغمال بنایا گیا“۔
حیرت انگیز طور پر زمرک اچکزئی نے دوبارہ الیکشن میں 72 ہزار ووٹ لیے جبکہ 8فروری کے انتخابات میں 45 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ زمرک اچکزئی کی جانب سے ایل ایم جی اور راکٹ لانچروں سمیت بھاری اسلحہ کی نمائش بھی ہوئی۔ ان کے مسلح لوگوں میں وہ افغان جنگجو بھی شامل تھے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے کے بعد فرار ہوکر قلعہ عبداللہ میں محمود خان اچکزئی کے مخالف قبائل کے ہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ مختلف سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ جے یو آئی نے اگرچہ ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، تاہم جے یو آئی کے رہنما نواز کاکڑ جو 8 فروری 2024ء کے انتخاب میں پارٹی کے امیدوار تھے اور دوسرے نمبر پر رہے، انہوں نے پشتون خوا میپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے برعکس جے یو آئی کے سینیٹر عبدالشکور غیبزئی اور اُن کا خاندان ہر لحاظ سے زمرک اچکزئی کے ساتھ کھڑے رہے، یہاں تک کہ مسلح جتھے بھی فراہم کردیے تھے۔