امریکی جامعات میں غربِ اردن کے مناظر

آزمائش میں شدت، کامیابی کے اشارے

سات ماہ کی مسلسل بمباری کے بعد بھی اب تک نہ دستِ قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ مستضعفین کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ… یعنی ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔ غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی مشقِ ستم اپنے عروج پر ہے اور فاقہ زدہ سوختہ جانوں کا معاشی قتلِ عام جاری ہے۔ دھاوے، چھاپے، گرفتاریوں اور غیر اعلانیہ کرفیو سے مقامی صنعت کو تالے لگ چکے ہیں۔ اب بیچارے فلسطینیوں کی گزر بسر زراعت اور مویشیوں پر ہے۔ یہی ’دولت‘ اب غنیم کا بنیادی ہدف ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل میں عبورِعظیم (Passover) کا تہوار منایا گیا جب شکرانے کے طور پر بھیڑ بکریوں کی قربانی دی جاتی ہے جس کے لیے غربِ اردن سے ریوڑ کے ریوڑ ہتھیا لیے گئے۔

اس ہفتے کی افسوس ناک خبر غزہ کے ممتاز ماہرِ تقویم الاعضا (Orthopedic Surgeon) کی المناک شہادت ہے۔ پچاس سالہ ڈاکٹر عدنان البرش غزہ کے الشفا اسپتال سے وابستہ تھے۔ انھیں دسمبر میں اسرائیلی فوج نے العودہ اسپتال سے گرفتار کیا جہاں وہ ہنگامی جراحی کرنے آئے تھے۔گرفتاری کے بعد ڈاکٹر صاحب کو اسرائیلی فوج نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں انھوں نے 19 اپریل کو دم توڑ دیا۔ اسرائیلی محکمہ جیل نے اُن کی موت کا اعلان 3 مئی کو کیا اور تادمِ تحریر اُن کا جسدِ خاکی وارثین کے حوالے نہیں کیا گیا۔ 7 اکتوبر کو غزہ خونریزی کے آغاز سے اب تک ڈاکٹروں سمیت غزہ کا 49 فیصد طبی عملہ مادرِ وطن پر قربان ہوچکا ہے، 1500 سے زیادہ ڈاکٹر اور نرسیں زخمی ہیں، جبکہ عملے کے 309 افراد اسرائیلی عقوبت کدوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔

غربِ اردن کی طرح امریکی جامعات کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں۔ نیویارک کی جامعہ کولمبیا اور جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلس (UCLA)چھائونی کا منظر پیش کررہی ہیں جہاں درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کرکے طلبہ سے ہاسٹل خالی کرا لیے گئے ہیں، جبکہ داخلی راستوں پر پولیس کے مسلح سپاہی تعینات ہیں، طالبات سمیت 2500 طلبہ گرفتار ہیں جن میں سے بہت سوں کے خلاف دہشت گردی کے پرچے کاٹے جاچکے ہں۔ سیکڑوں طلبہ کو معطل کرکے ان کے اخراج کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ اساتذہ کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ جامعہ کولمبیا نے ماڈرن عرب اسٹڈیز کے پروفیسر محمد عبدۃ کو برطرف کردیا۔

امریکی صدارت کے دونوں بڑے خواہش مند جو ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں، طلبہ کی احتجاجی تحریک کو کچل دینے کے لیے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ صدر بائیڈن نے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ ’’جامعات میں مظاہروں سے میری اسرائیل کے لیے حمایت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ آزادیِ اظہارِ رائے درست، لیکن قانون شکنی کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں‘‘۔ اُن کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس کی کارروائی دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ پولیس نے دہشت گردوں کے 300 حامیوں کو گرفتار کرکے قابلِ تعریف کارنامہ سر انجام دیا‘‘۔ ’’طلبہ بدمعاشی‘‘ کا موردِ الزام امریکی حکومت کو ٹھیراتے ہوئے سابق امریکی صدر، نریندرا مودی کی طرح بولے کہ ’’یہ سب بائیڈن کی بے قابو امیگریشن پالیسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آگئے ہیں۔‘‘

طلبہ تحریک کچلنے کے لیے امریکی کانگریس (پارلیمان) بھی سرگرم ہے۔ فلسطین کے حق میں مظاہروں اور دھرنوں کے ردعمل میں تعلیمی اداروں کو سیاسی سرگرمیوں سے پاک کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ کانگریس کے اسپیکر مائیک جانسن نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیمپس میں یہود دشمنی (Anti-Semitism)کو پھلنے پھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جامعات کی انتظامیہ یہودی طالب علموں کے تحفظ میں ناکامی پر جواب دہ ہوگی، خیمہ زنی ’’برداشت‘‘ کرنے والی جامعات کے سربراہوں کو کمیٹی کے سامنے طلب کیا جائے گا اور ’’نرمی‘‘ دکھانے والی جامعات کی وفاقی مدد معطل کردی جائے گی۔

پولیس گردی اور دھمکیوں کے باوجود طلبہ تحریک ٹھٹھرتی نظر نہیں آرہی۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے طلبہ ونگ کالج ڈیموکریٹس (College Democrats) نے جامعات میں مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ ملک بھر کے طالب علموں کی جانب سے فلسطین میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاج ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ امریکی طلبہ اس جنگ کو تباہ کن، نسل کُش اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں۔ بیان میں صدر بائیڈن کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا بینجمن نیتن یاہو سے پیار ریچھ کو گلے لگانے کے مترادف ہے، اور یہ حکمتِ عملی جنگ کے خاتمے کے خواہش مند تمام امریکیوں کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔

طلبہ تحریک کا تین نکاتی ہدف: وقف رقومات (Endowment Fund)کی اسرائیل نواز اداروں میں سرمایہ کاری بند کرنا، اسرائیلی جامعات سے علمی و تکنیکی تعاون کا خاتمہ اور اسرائیل کو نفع پہنچانے والے اداروں پر پابندیاں لگانا ہے جسے سیاسی اصطلاح میں BDSکہاجاتا ہے۔

ان اہداف کے حصول میں طلبہ کو جزوی کامیابی بھی ہورہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست رہوڈز آئی لینڈ (Rhodes Island) کی جامعہ براؤن (Brown University) نے اعلان کیا کہ ان کا کارپوریٹ بورڈ، وقف رقومات کی اسرائیل نواز کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کرنے پر غور کرے گا۔ بورڈ کے آئندہ اجلاس میں فلسطین نواز طلبہ کے نمائندے اپنی رائے پیش کریں گے جس کے بعد شفاف رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا۔ شیخ الجامعہ کرسٹینا پیکسن نے ایک بیان میں یقین دلایا کہ disinvestment کا فیصلہ جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کی امنگوں کے مطابق ہوگا۔ ایسے ہی اعلانات نیوجرسی کی جامعہ رٹجر (Rutger University)، بوسٹن کی جامعہ نارتھ ایسٹرن (NEU) اور جامعہ کیلی فورنیا ریورسائڈ (UCR)سے بھی ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ جامعہ پورٹ لینڈ (PSU) نے لڑاکا طیارے بنانے والے ادارے بوئنگ کا عطیہ لینے سے وقتی طور پر انکار کردیا۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے جامعہ کی سربراہ محترمہ این کَڈ نے ایک خط میں بتایا کہ جامعہ مئی میں ایک اجلاس منعقد کرے گی جس میں ہتھیار بنانے والے اس ادارے کے جامعہ سے تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔

حکومتی مخالفت کے علی الرغم اکثر جامعات میں اساتذہ طلبہ کی پشت پر ہیں۔ کولمبیا سے ملحق برنارڈ کالج کی سربراہ ڈاکٹر لاراروزنبری (Laura Rosenbury) نے فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے 50طلبہ کو معطل کرکے ہاسٹل سے نکال دیا۔ ردعمل کے طور پر کالج کی اکیڈمک کونسل نے ڈاکٹر صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرلی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طلبہ کے معاملے میں ایسی بے حس خاتون، سربراہی کی اہل نہیں۔ 77 فیصد اساتذہ نے تحریک کے حق میں ہاتھ بلند کیے۔

جامعہ ورمونٹ (University of Vermont) نے 19 مئی کو ہونے والے جلسۂ تقسیمِ اسناد کے لیے اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ کو بطور کلیدی مقرر مدعو کیا تھا۔ خیمہ زن طلبہ کو اسرائیل نواز سفارت کار کی جامعہ آمد پسند نہ تھی۔ طلبہ کے مطالبے پر گرین فیلڈ صاحبہ سے دعوت واپس لے لی گئی۔

اسی روز برطانیہ کے برکلیز (Barclays) بینک نے ’رضاکارانہ‘ وضاحت جاری کی، جس کے مطابق ’’بینک اُن اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں‘‘۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’برکلیز غزہ کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ہمیں وہاں ہونے والی خونریزی پر سخت تشویش ہے۔‘‘

ہفتۂ رفتہ جہاں دنیا نے امریکی طلبہ کی ثابت قدمی کا نظارہ دیکھا وہیں امریکی قیادت کی کمزوری بلکہ لاچاری اور مغربی دنیا کا اخلاقی دیوالیہ پن بھی کھل کر سامنے آگیا، یعنی ’’سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘‘۔

ہفتوں سے خبر گرم تھی کہ امریکہ نے غربِ اردن میں تعینات اسرائیلی فوج کی نسخِ یہودا (Netzah Yehuda) بٹالین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف وزریوں پر امریکی وزارتِ خارجہ نے ایک اعلیٰ اختیاراتی پینل تشکیل دیا جس نے پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔ 7 اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بٹالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس خبر پر اسرائیلی وزیراعظم بہت سیخ پا ہوئے اورامریکیوں کو انجامِ بد سے خوب ڈرایا۔ پیر 29 اپریل کو امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج کے جن پانچ یونٹوں پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا تھا ان میں سے چار نے شکایات کا مؤثر طریقے سے ازالہ کردیا ہے جبکہ پانچویں یونٹ کے بارے میں بھی اضافی معلومات جمع کرا دی گئی ہیں جن کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ بقول مولانا فضل الرحمان ’’کھودا پہاڑ نکلی چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی‘‘۔

اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع اور چیف آف آرمی اسٹاف کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے متوقع پروانۂ گرفتاری کو روکنے کے لیے عدالت دھمکیوں کی زد میں ہے۔ خبروں کے مطابق امریکی صدر بنفسِ نفیس عدالتی اہل کاروں پر دبائو ڈال رہے ہیں۔کانگریس کے اسپیکر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف پروانۂ گرفتاری کا اجرا ایک غیر اخلاقی و غیر قانونی قدم ہوگا جس سے امریکہ کے دفاعی مفادات پر بھی ضرب پڑے گی۔ انھوں نے یہ نوید بھی سنادی کہ آئی سی سی کو کارروائی سے روکنے کے لیے امریکی کانگریس میں قانون سازی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یکم مئی کو ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹروں کے مشترکہ وفد نے ICC حکام سے فون پر گفتگو کی۔ بات چیت کے دوران ججوں کو معاملے کی سنگینی سمجھنے کا مشورہ دیا گیا۔ امریکہ کے بعد G-7ممالک نے بھی پروانۂ گرفتاری کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال عدالت کے دائرۂ کار میں نہیں آتی۔

غزہ کی صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں۔ اہلِ غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی حکومت نے 6 ہفتے کی جنگ بندی اور غزہ سے جزوی واپسی کی پیشکش کی تھی لیکن اہلِ غزہ کے جواب سے پہلے ہی دینِ یہود جماعت کی رکن اور وزیر قبضہ گردی (Settlement) محترمہ عورت اسٹروک نے کہا ’’ہمارے جوان سب کچھ پیچھے چھوڑ کر حکومت کے طے کردہ اہداف کے لیے جانیں لڑا رہے ہیں اور ہم 22 یا 33 افراد کو بچانے کے لیے اس گرم خون کو کوڑے دان میں پھینک رہے ہیں۔ ایسی حکومت کو باقی رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ اپنی ساتھی کی مکمل حمایت کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ اور وزیرخزانہ جناب اسموترچ بولے کہ ’’قیدیوں کی رہائی کے لیے نیتن یاہو حکومت دہشت گردوں کو خطرناک ’تزویراتی مراعات‘ دینے پر آمادہ نظر آرہی ہے جو ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔‘‘

3 مئی کو نیتن یاہو نے دھمکی دی کہ اگر ایک ہفتے کے اندر قیدی رہا نہ ہوئے تو رفح پر زمینی حملہ کردیا جائے گا۔ غزہ سے جو جواب آیا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ’’آجا مورے بالما تیرا نتطار ہے‘‘۔ عین اسی وقت اپنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سابق آپریشن چیف، جنرل اسرائیل زیو نے کہا کہ رفح پر حملہ خود اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوگا۔ وزیراعظم نیتن یاہو اپنے قدامت پسند اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک خطرناک قدم اٹھا رہے ہیں۔ رفح حملے کا عسکری نتیجہ کچھ بھی ہو یہ ہمارے قیدیوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔

امریکی وزیرخارجہ امن بات چیت کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا ذمہ دار مستضعفین کو قرار دے رہے ہیں۔ سعودی عرب سے اسرائیل واپس پہنچنے پر انھوں نے کہا کہ مستضعفین کا سخت رویہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے اپنے قطری ہم منصب کو ’حکم‘ جاری کیا کہ اگر اہلِ غزہ امن معاہدہ قبول نہ کریں تو ان کے قائدین کو قطر سے نکال دیا جائے۔

بھولے بلینکن کو کون یہ سمجھائے کہ دھونس اور زور سے امن معاہدہ نہیں ہوتا بلکہ ہتھیار ڈلوائے جاتے ہیں، اور اگر مستضعفین کو ہتھیار ڈالنا ہوتے تو وہ عورتوں اور بچوں سمیت 35 ہزار افراد کی قربانی دیتے نہ اپنے ملک کو کھنڈر بنتا دیکھتے۔

آخر میں ایک امید افزا نوٹ پر نشست کا اختتام:

اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں نے اپنی الگ دنیا آباد کررکھی ہے۔ ان عقوبت کدوں میں حفظِ قرآن کے مدارس، نغمات کی مجلسوں، مشاعروں اور ادبی نشستوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ نظربند ادیب و شاعر تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک قیدی باسم خندقجی نے قصائص پر مشتمل ایک کتاب ’’قناع بلون السما‘‘ (آسمانی رنگ کا نقاب) لکھی جسے اِس سال کے عرب فکشن (Arabic Fiction) ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فاضل مصنف 20 سال سے قید ہیں۔

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
…………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔