قحط الرجال کا ماتم بہت پرانا ہے اور اس ماتم کی اپنی ایک معنویت ہے جو ہمیں بار بار اس سوال سے دوچار کرتی ہے کہ ہمارے درمیان بڑی شخصیات کیوں نمودار نہیں ہورہی ہیں؟
ایک دن ایک مجلس میں مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کا ذکرِ خیر ہورہا تھا کہ ایک صاحب نے کفِ افسوس مَلتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے بعد کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس صورتِ حال کو جماعت اسلامی کی ناکامی اور نااہلی قرار دیا۔ وہ بزرگ تھے اور مولانا مودودیؒ کے ساتھ کام کرنے کے دعویدار تھے، لیکن انہوں نے بات ایسی کہی تھی کہ جواب دینا ضروری ہوگیا تھا۔ چنانچہ ہم نے مؤدبانہ عرض کیا کہ مولانا مودودیؒ کوئی Instant جوہرجوشاندہ تو نہیں تھے کہ ہم جب چاہیں ایک کپ گرم پانی میں ایک چمچمہ جوہر جوشاندہ ڈال کر مولانا مودودیؒ تیار کرلیں۔ معلوم نہیں یہ جواب درست زیادہ تھا یا تیز زیادہ تھا لیکن بہرحال اس جواب کے بعد وہ صاحب خاموش ہوگئے اور گفتگو کا رخ تبدیل ہوگیا۔
اسلامی تاریخ اور اسلامی مفکرین میں مولانا مودودیؒ کا مقام کیا ہے؟ اس کا حتمی فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن مولانا کی فکر اور اس فکر کے عالمگیر اثرات اس امر پر دال ہیں کہ مولانا اُن شخصیات میں سے ایک تھے جو مشیتِ الٰہی کے تحت ایک خاص مشن لے کر پیدا ہوتی ہیں اور جو تاریخ اور تہذیب کا بوجھ اٹھاکرایک پورے عہد کا فرضِ کفایہ ادا کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی شخصیات کی نمود کا کوئی فارمولا نہیں ہوتا، اور نہ کوئی ایسا فارمولا وضع کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہاں ایک مولانا مودودیؒ پر ہی کیا موقوف ہے، ہم آج تک کوئی دوسرا اقبالؒ پیدا نہیں کرسکے ہیں، اور نہ دوسرے اقبال کی پیدائش کا دور دور تک کوئی امکان نظر آرہا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں کوئی دوسرا غالبؔ اور دوسرا میرؔ بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کام ایک پوری تہذیب، ایک پورا عہد نہیں کر سکا، وہ بے چاری جماعت اسلامی کیا کرے گی! اور یوں بھی مولانا جماعت اسلامی کی پیداوار نہیں تھے بلکہ جماعت اسلامی خود مولانا کی فکر کا نتیجہ تھی۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ صاحب کی بات بالکل ہی غلط تھی؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ قحط الرجال کا ماتم بہت پرانا ہے اور اس ماتم کی اپنی ایک معنویت ہے جو ہمیں بار بار اس سوال سے دوچار کرتی ہے کہ ہمارے درمیان بڑی شخصیات کیوں نمودار نہیں ہورہی ہیں؟
بے شک بڑی شخصیتوں کی تیاری کا کوئی فارمولا نہیں ہے، اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعض شخصیات ایک خاص مرحلے پر ایک خاص مشن کے ساتھ پیدا کی جاتی ہیں، لیکن بہرحال ان کی نمود پر تاریخ و تہذیب کا ایک عمل موجود ہوتا ہے اور کچھ ایسے اسباب اور عوامل ہوتے ہیں جو اس شخصیت کی تعمیر اور ظہور کی پشت پر محرکات کی حیثیت سے کام کررہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی شخصیتیں بھی بہرحال نہ خلا میں جنم لیتی ہیں اور نہ خلا میں پروان چڑھتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان محرکات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو بڑی شخصیتوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بڑی شخصیتوں کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جن کے ساتھ کوئی ’’ماورائیت‘‘ تو وابستہ نہیں کی جاتی یا نہیں کی جاسکتی لیکن بہرحال ان کی بڑائی اور عظمت میں کوئی کلام نہیں ہوتا۔ خیر آیئے! اب ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے عہد میں بڑی شخصیتیں کیوں پیدا نہیں ہورہی ہیں، اور وہ کیا مسائل ہیں جو بڑی شخصیتوں کی تعمیر و تشکیل کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟
اس سلسلے میں ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ زمانہ ہی بونوں کا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قحط الرجال صرف برصغیر یا صرف اسلامی دنیا کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر صورتِ حال ہے۔ یہ رائے کچھ ایسی غلط نہیں۔ بڑی شخصیتیں واقعتاً کہیں نظر نہیں آرہیں، لیکن سرِدست ہمارا مسئلہ پوری دنیا نہیں بلکہ برصغیر یا زیادہ سے زیادہ اسلامی دنیا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں سلیم احمد نے اپنے قطعہ میں ایک اہم بات کہہ دی ہے:
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جا رہا ہوں ایک نکتے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
انفرادی جبر کی یلغار اور اس کے نتیجے میں ’’اجتماعی آدمی‘‘ کی موت ہمارے عہد کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کا زیربحث موضوع سے بہت گہرا تعلق ہے، کیوں کہ ہر معاشرے اور خاص طور پر مذہبی معاشرے میں بڑی شخصیت دراصل ایک اجتماعی شخصیت ہوتی ہے۔
ہمیں سرسید سے ایک ہزار اختلافات ہیں، لیکن سرسید بہرحال ایک بڑی شخصیت تھے۔ لیکن وہ بڑی شخصیت ازخود نہیں بن گئے تھے بلکہ اُن کے اندر موجود ’’اجتماعی آدمی‘‘ نے انہیں بڑا آدمی بنایا تھا۔ سرسید نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل کا غلط اندازہ لگایا۔ ان کا تجزیہ بھی غلط تھا اور انہوں نے جو نتائج نکالے، وہ بھی غلط تھے، لیکن سرسید کی آرزو بڑی تھی اور اس کی نسبت سے اُن کی فکر کا کینوس بھی بڑا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ سرسید کے لیے کوئی ’’دوسرا وجود‘‘ نہیں تھی۔ اس ملت کے جو دکھ درد تھے، وہ سرسید کے اپنے دکھ درد تھے، اور ملت کا حال اور مستقبل سرسید کا اپنا حال اورمستقبل تھا۔ تعلق کی اسی نوعیت نے سرسید کو سرسید بنایا۔ اکبر الٰہ آبادی سرسید کے اینٹی تھیسس تھے، لیکن وہ سرسید سے کم بڑی شخصیت نہیں تھے۔ اکبر کی شخصیت اور شاعری بہت سے تعصبات کی نذر ہوگئی، ورنہ اُن کا شاعرانہ ٹیلنٹ علامہ اقبال کی سطح کا تھا۔ اپنی تہذیبی اساس پر اصرار اور مغربی فکر کی تنقید اکبر اور علامہ اقبال کے درمیان قدرِ مشترک کا درجہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں اکبر کو کئی حوالوں سے اقبال پر اوّلیت حاصل ہے۔ لیکن یہاں جو بات زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ سرسید کی طرح اکبر الٰہ آبادی کا اجتماعی آدمی بھی بہت توانا تھا۔ اس کی توانائی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اسے اگرچہ معلوم تھا کہ ’’آئی ہوئی ٹلتی نہیں ہے‘‘، لیکن اس کے باوجود وہ آخری وقت تک مزاحمت سے دست بردار نہ ہوا۔ اقبال کے یہاں اجتماعیت کا دائرہ وسیع اور اس کی معنویت زیادہ عمیق ہو گئی ہے، لیکن اقبال کی شخصیت اور شاعری کی اصل قوت اُن کا اجتماعی آدمی ہی ہے۔ مولانا مودودی کی فکر اور خاص طو رپر اُن کے یہاں مغرب کی تنقید اقبال کی فکر کے بعض گوشوں ہی کا تسلسل ہے۔ فرق یہ ہے کہ اقبال کے یہاں جو چیز اِجمالی ہے، وہ مولانا کے یہاں تفصیل میں ڈھل گئی ہے۔ لیکن جہاں تک اجتماعی آدمی کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے مولانا اور اقبال میں کوئی فرق نہیں۔
دنیا گزشتہ تیس پینتیس سال سے ایک نام نہاد عالمگیریت (Globalization) کی جانب بڑھ رہی ہے۔ بہت سے لوگ اس صورتِ حال پر بغلیں بجا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے ایک عہدِ زریں میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ عالمگیریت میں ’’اجتماعیت‘‘ کا ایک ایسا تصور موجود ہے جس سے اچھے اچھے متاثر و مرعوب ہوئے جارہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اجتماعیت انفرادیت اور انفرادی زندگی کو ایک جبر میں تبدیل کیے دے رہی ہے۔ اس اجتماعیت میں فرد کی حیثیت انسان کی نہیں بلکہ ایک ’’صارف‘‘ کی ہوگی جو زیادہ سے زیادہ خریدنے اور صَرف کرنے میں آزاد ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ صورتِ حال پہلے ہی پیدا ہوچکی ہے۔ عالمگیریت کا غوغا اپنی جگہ، لیکن اس عالمگیریت نے جو مسائل پیدا کیے ہیں انہوں نے انسان کو انفرادی زندگی میں الجھا کر رکھ دیا ہے اور اب اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیںکہ وہ اجتماعی زندگی کے مسائل و معاملات پر حقیقی معنوں میں غور کرسکے یا خود کو حقیقی معنوں میں اجتماعی زندگی کے ساتھ Identify کرسکے۔
زمین میں لگا ہوا پودا ایک وسیع کینوس کا حصہ ہوتا ہے، لیکن گملے میں لگے ہوئے پودے کی دنیا گملے تک محدود ہوتی ہے۔ مغربی فکر نے مغربی معاشروں میں افراد کو گملوں کے پودوں میں تبدیل کیا ہے اور اب وہ یہی عمل ہمارے یہاں بھی کررہی ہے۔ وہ ہمیں ہمارے ماضی، حال اور مستقبل ہی سے نہیں، اطراف و اکناف سے بھی بے نیاز کررہی ہے۔ مغرب کا تصورِ آزادی فرد کی ناک سے آگے نہیں جاتا۔ اس قدر آزادی کے دائرے میں ہر فرد آزاد تو ہے مگر دوسرے سے بے تعلق بھی ہے، اور یہ بے تعلقی بہت جلد لاتعلقی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم گملے اور زمین میں لگے ہوئے پودے کی مثال کی جانب لوٹتے ہیں۔ ایک گملے میں لگے ہوئے پودے کی نشوونما کے امکانات محدود ہی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس زمین میں اپنی جڑیں پیوست رکھنے والا پودا نشوونما کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم گزشتہ ساٹھ سال میں اجتماعی آدمی کی تحلیل کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور یہ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا ہے اور اس کا دائرہ روز بہ روز وسیع ہورہا ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ بات بڑی حد تک قرین قیاس ہے کہ ہم بڑی شخصیتیں کیوں پیدا نہیں کرپا رہے۔
بڑی شخصیت کی تعمیر میں صلاحیت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صلاحیت انسان کے تناظر میں اس کی آرزو اور اس کے ذہنی کینوس کے حوالے ہی سے بروئے کار آتی اور نتائج پیدا کرتی ہے۔ انسان کا تناظر اور ذہنی کینوس وسیع ہو اور آرزو بڑی ہو تو اوسط درجے کی صلاحیت بھی بڑے نتائج پیدا کرسکتی ہے، لیکن صلاحیت بہت ہو مگر آرزو چھوٹی اور تناظر محدود ہو تو کوئی بڑا کارنامہ سامنے نہیں آتا۔ البتہ انسان کی اپنی زندگی اچھی گزر جاتی ہے۔ وہ پیسہ کما لیتا ہے، شہرت حاصل کرلیتا ہے اور معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔
انفرادی جبر کی یلغار اور اجتماعی آدمی کی موت زیربحث موضوع کے حوالے سے واحد مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ اور اسباب بھی ہیں جو آدمی کو ایک سطح سے اوپر اٹھنے سے روک رہے ہیں۔ لیکن بہرحال انفرادی جبر کی یلغار اہم ترین مسئلہ ہے۔ ہمیں اپنا حال اور مستقبل بدلنا ہے تو اس مسئلے سے مؤثر انداز میں نمٹنا ہوگا، ورنہ ہم ابھی تو بونے پیدا کررہے ہیں، کچھ دنوں بعد بالشتیے پیدا کرنے لگیں گے۔