حکومت اسٹیبلشمنٹ ٹکرائو…نئے کھیل کا آغاز؟

پنجاب میں محسن نقوی سمیت کئی غیر سیاسی لوگ فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں

پاکستان کی سیاسی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ایک طرف حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان سمیت حکومتی مخالفین کے درمیان ٹکرائو کی سیاست ہے تو دوسری طرف نئے کھیل میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی یا بداعتمادی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے جو بھی حکومتی بندوبست کررکھا ہے اسے چلانے میں کئی طرح کے سیاسی اور معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ نوازشریف نے وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کردیا ہے جو اُن کے سمدھی بھی ہیں۔ اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تقرری کیا شہبازشریف کا فیصلہ ہے یا یہ نوازشریف کا فیصلہ ہے جو شہبازشریف کی مرضی کے بغیر کیا گیا ہے؟ اسی طرح یہ خبریں بھی عام ہیں کہ اسحاق ڈار کی تقرری پر اسٹیبلشمنٹ نوازشریف اور شہبازشریف سے خوش نہیں اور ان کو لگتا ہے کہ اسحاق ڈار کی تقرری سے ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مرضی آپ کی نہیں بلکہ ہماری یعنی نوازشریف کی چلے گی۔ اسحاق ڈار بنیادی طور پر معاشی وزارت چاہتے تھے لیکن اُن کو اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر یہ وزارت نہیں دی گئی بلکہ وزیر خارجہ بنادیا گیا۔ لیکن اسحاق ڈار کی سوئی معیشت پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور وہ نئے وزیر خزانہ کے معاملات میں بھی مداخلت کررہے تھے۔ اسحاق ڈار کو ایف آئی سی ایس پر بھی تحفظات تھے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کونسل بناکر عملاً حکومت اور وزارتِ خزانہ کو کمزور کیا گیا ہے۔ نوازشریف کا مؤقف ہے کہ وفاق میں شہبازشریف کے مقابلے میں اسحاق ڈار اُن کی مؤثر نمائندگی کریں گے اور اُن کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ نوازشریف نے اپنے بھائی شہبازشریف کو بھی یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ان کے وزیراعظم ہونے کے باوجود اصل طاقت میرے پاس ہے اور فیصلے بھی میرے ہی ہوں گے جن پر عمل کرنا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔ اسحاق ڈار کی تقرری شہبازشریف کی مرضی کے بغیر ہوئی ہے لیکن ان کی مفاہمت پر مبنی پالیسی ہی نے نوازشریف کو طاقت ور یا فیصلہ کن بنایا ہوا ہے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر نوازشریف نے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو وزیراعظم کا سیاسی امور کا مشیر مقرر کردیا ہے اور اُن کا یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ یعنی اب نوازشریف کی سیاست کے کارڈ عملی طور پر اسحاق ڈار اور رانا ثنااللہ کی صورت میں وفاقی سیاست میں دیکھنے کو ملیں گے۔ رانا ثنا اللہ کی تقرری بھی نوازشریف کا کارڈ ہے، اور اصل وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وزیر داخلہ کے طور پر محسن نقوی کے پاس نہ صرف تمام تر اختیارات ہیں بلکہ وہ وزیراعظم سے بھی بالادست ہیں۔ نوازشریف محسن نقوی کے وفاقی سطح پر بڑھتے ہوئے کردار سے بھی نالاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے محسن نقوی کو اوپر بٹھاکر ہمیں عملاً کمزور وکٹ پر کھڑا کردیا ہے۔ اس لیے رانا ثنا اللہ مرکز میں بیٹھ کر محسن نقوی کی نگرانی کریں گے اور کوشش یہی کی جائے گی کہ محسن نقوی کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار کو محدود کیا جائے۔ نوازشریف سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے اور اس کی اصل قصوروار اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے ان کی سیاست کو خراب کیا ہے۔ اسی طرح نوازشریف کو یہ بھی گلہ ہے کہ پنجاب میں ان کی بیٹی مریم نواز کو وزیراعلیٰ تو بنادیا گیا ہے مگر محسن نقوی سمیت کئی اور غیر سیاسی لوگ پنجاب کی سیاست میں اہم ہیں اور فیصلوں کا بڑا اختیار بھی ان ہی کے پاس ہے۔ نوازشریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی دبائو کا شکار ہے۔ نوازشریف کو یہ بھی گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے لوگ عمران خان کی حمایت کررہے ہیں اور اُن کے ساتھ کئی سطح پر معاملات طے کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ نوازشریف سمیت کئی افراد مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ان کی براہِ راست حمایت کرنے کے بجائے ان پر تنقید کرکے ماحول کو خراب کررہے ہیں۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کا یہ جو مؤقف تھا کہ حکومت پوری محنت کے ساتھ نہ صرف معیشت کی بحالی پر توجہ دے گی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرے گی،لیکن حکومت کی داخلی سیاست یا مسلم لیگ (ن) میں اِس وقت جو داخلی بحران ہے، اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ جو لوگ بھی مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہے ہیں ان کو براہِ راست نوازشریف کی حمایت حاصل ہے، وگرنہ رانا ثنا اللہ یا جاوید لطیف خود سے حکومت مخالف بیانات نہ دیتے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ ایک طرف شہبازشریف کی بے بسی دیکھ رہی ہے تو دوسری طرف نوازشریف کی مخالفت پر مبنی سیاست کو بھی دیکھ رہی ہیں۔ نوازشریف اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ پیپلزپارٹی نے کیوں حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا اور کیوں اختیارات لے کر ذمہ داریوں میں حصے دار بننے سے انکارکردیا۔ نوازشریف کا مؤقف ہے کہ اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ اور آصف علی زرداری ایک پیج پر ہیں اور ہمیں بحران کی صورت میں حکومت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ نوازشریف کی ایک لڑائی جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے اسی کی تیاری کے لیے انہوں نے پارٹی معاملات پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوازشریف بہت جلد پارٹی صدارت دوبارہ سنبھال لیں گے اور اہم حکومتی یا پارٹی عہدوں میں تقسیم کو بنیاد بناکر وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو اہم نشستوں پر لائیں گے۔ یعنی بنیادی طور پر نوازشریف خود شہباز شریف، اور مریم نواز حمزہ شہباز کو بیک فٹ پر رکھنا چاہتے ہیں اور خود فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے حامیوں کو پیچھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ یہ بات پہلے بھی لکھی جاچکی ہے کہ نوازشریف عملی طور پر یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ان کے سیاسی جانشین شہبازشریف نہیں بلکہ مریم نواز ہوں گی۔ نوازشریف کی لاہور میں بیٹھ کر پنجاب میں اپنی بیٹی کی حکومتی سرپرستی بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ ان کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیں، دورکرنا چاہتے ہیں ۔ اس فیصلے کی وجہ سے حمزہ شہباز نہ صرف نالاں ہیں بلکہ ان کی سیاسی دوری بھی حکومت اور پارٹی سے واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر کچھ لوگ واضح طورپرپوزیشن لے چکے ہیں۔ ایک گروپ نوازشریف کی طرف جھکائو رکھتا ہے تو دوسرا گروپ شہبازشریف کی طرف ہے، جبکہ تیسرا گروپ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ نوازشریف کو اندازہ ہے کہ اگر ان کی بیٹی کو مستقبل کی سیاست کرنی ہے تو انہیں اپنی پارٹی کے معاملات کو ایک نئی شکل دینی ہوگی، اور یہ کمزور یا مفلوج حکومت جو دی گئی ہے اس سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت جو پہلے ہی کم ہے مزید کم ہوگی جو مریم نواز کی سیاست کے لیے نئے خطرات پیدا کرے گی۔ شہبازشریف کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اپنے بھائی یا بھتیجی کی سیاست سے خود کو علیحدہ رکھتے ہیں تو ایسی صورت میں خاندان تقسیم ہوگا یا پارٹی معاملات میں مزید خرابیاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے شہبازشریف کی کوشش ہے کہ یا تو نوازشریف خاموش رہیں اور ہمیں حکومت کرنے دیں، وگرنہ دوسری صورت میں وہ لندن چلے جائیں تاکہ ہم یہاں حکومتی نظام بہتر طور پر چلاسکیں۔ شہبازشریف کو احساس ہے کہ اگر پارٹی یا حکومتی امور میں نوازشریف کا کردار یا ان کی مداخلت بڑھتی ہے تو اس سے نہ صرف ان کی حکومت کے لیے نئی مشکلات پیدا ہوں گی بلکہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہوں گے جو ان کی مستقبل کی حکومت یا سیاست کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہوگی۔ شہبازشریف کے ذہن میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لیے محسن نقوی، فصیل واوڈا اور پیپلزپارٹی کی صورت میں مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ان کو گلہ ہے کہ عمران خان کی سیاست کے خاتمے کے لیے جو بڑے فیصلے کرنے ہیں اس پر بھی اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر تقسیم ہے۔ شہبازشریف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے کچھ معاملات عمران خان سے طے ہوتے ہیں تو اس کی بھاری قیمت ان کی حکومت کو بھی دینی پڑے گی۔

اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف عمران خان کی سیاست یا ان کی مزاحمت ان کے لیے دردِسر بنی ہوئی ہے اور جوبھی کوششیں پسِ پردہ ہورہی ہیں اُن میں عمران خان ان کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ایک بار پھر عالمی میڈیا میں اپنے ایک کالم کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے سربراہ پر براہِ راست الزام لگایا ہے کہ مجھ کو اگر قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ذمہ دار فوج کے سربراہ ہوں گے اور میں کسی بھی سطح پر کوئی ڈیل نہیں کروں گا چاہے مجھے جان کی قربانی ہی دینی پڑے۔ عمران خان کا مضمون ظاہر کرتا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بحالی یا سمجھوتے کی کوئی سیاست آسان نہیں ہوگی۔ سابق جنرل نعیم لودھی نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا ایک فارمولا دیا ہے کہ عمران خان اگر دو برس تک اس حکومت کو تسلیم کرلیں تو ان کے لیے بھی سیاسی راستہ نکل سکتا ہے۔ لیکن خبریں یہی ہیں کہ عمران خان نے دو برس کی خاموشی کا فارمولا بھی مسترد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی عملًا عمران خان کے حوالے سے تحفظات بڑھ رہے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ بات چیت کا مکمل ہونا آسان نہیں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بار اور بینچ یا عدلیہ سمیت میڈیا اور سول سوسائٹی کی سطح پر بھی ان کی مخالفت میں خاصی شدت دیکھنے کو مل رہی ہے جو ان کے لیے نئی مشکلات پیدا کررہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سوشل میڈیا پر چلنے والی ادارہ جاتی مخالف مہم پر بھی نالاں ہے اور سمجھتی ہے کہ اس مہم کا مقصد بھی ہمیں دبائو میں لانا ہے ۔

عمران خان کی اسی مزاحمت نے مولانا فضل الرحمن کو بھی نئی طاقت دی ہے۔ ایک طرف وہ موجودہ سیاسی بندوبست کو چیلنج کررہے ہیں، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ لوگ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو مل کر ایک بڑی اور مشترکہ جدوجہد کی طرف لانے کی کوشش کررہے ہیں جو یقینی طور پر حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ خود عمران خان بھی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت شدید دبائو کا شکار ہے، ایسے میں ان کی ڈیل یا سمجھوتے کے لیے جلد بازی ان کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ عمران خان کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ حکمران اتحاد کی تشکیل دبائو، ڈر اور خوف کی بنیاد پر کی گئی ہے، اور یہ بندوبست سیاسی اور معاشی استحکام ممکن نہیں بناسکے گا۔ اسٹیبلشمنٹ پر ایک دبائو سیاسی اور کاروباری دنیا سے بھی آرہا ہے کہ موجودہ حالات میں جو سیاسی تعطل ہے، یہ عمران خان سے بات کیے بغیرختم نہیں ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سطح پر یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ملک کی ضرورت استحکام اور مفاہمت کی سیاست ہے۔ لیکن مفاہمت اور استحکام کی سیاست کو یقینی بنانے کے بجائے تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریق آپس میں الجھ کر رہ گئے ہیں، کوئی یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ ہماری ذاتی لڑائیوں نے ریاستی مفاد سمیت عام آدمی کے مفاد کو بہت زیادہ نقصان پہنچادیا ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں عوام اور اُن کے مفادات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اورایسے لگتا ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں،ہم خود ہی اپنے سیاسی دشمن بن گئے ہیں، کیونکہ جب ہم خود اپنی دشمنی میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں تو ہماری ترقی کا عمل بھی ہم سے روٹھ کر اور زیادہ دور چلاگیا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کوئی ایک فریق نہیں بلکہ ہم سبھی ہیں جو ایڈونچرز یا سیاسی مہم جوئی کی بنیاد پر ملک کے لیے نئے خطرات پیدا کررہے ہیں جس کا علاج تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ اسی مہم جوئی کے تحت حالیہ دنوں میں ملک میں گندم کا ایک بڑا اسیکنڈل سامنے آیا ہے۔ وفاقی حکومت اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کے لیے اس کو سابقہ نگران حکومت، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب پر ڈال رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ اس اسکینڈل کی بنیاد پر ہم اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر اپنے اوپر موجود دبائو کو کم کرسکتے ہیں ۔ اس لیے گندم اسکینڈل بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بڑے ٹکرائو کا سبب بن سکتا ہے۔