تعلیم پر اجرت

ضمیر کے علاوہ علم ودانش اور دماغی قوت وذہانت بھی ایک ایسی مقدس اورقیمتی چیز سمجھی جاتی تھی جس کو ہرکس وناکس کے ہاتھ اونے پونے فروخت نہیں کیاجاتاتھا۔ جو لوگ اس بارے میں بلند مقام پر تھے وہ تو کسی قیمت پر بھی ان کو فروخت کرنا پسند نہیں کرتے تھے، اوراس کو اللہ کا بیش قیمت عطیہ اور امانت سمجھتے تھے۔ خصوصًا کفروفسق کی بلاواسطہ یابالواسطہ اعانت وتقویت میں اس کو صرف کرنا ، یاکسی غلط نظام کا آلۂ کار بننا تو بہت بڑی خیانت اور دین فروشی سمجھتے تھے۔

اسی ذہنیت اورسیرت کے ایک بزرگ مولانا عبدالرحیم صاحب رام پوریؒ (م ۱۲۳۴ھ) تھے۔ روہیل کھنڈ کے انگریز حاکم مسٹر ہاکنس نے ان کو بریلی کالج کی تدریس کے لیے ڈھائی سو روپے مشاہرے کی (جو ۱۹۵۷ء سے پہلے بڑی حیثیت رکھتاتھا) پیش کش کی، اور وعدہ کیا کہ تھوڑی مدت میں اس مشاہرے میں اضافہ اور ترقی ہوجائے گی۔ انھوں نے عذر کیا کہ ریاست سے ان کو دس روپے ماہ وار ملتے ہیں ، وہ بند ہوجائیں گے۔ہاکنس نے کہا کہ میں تو اس وظیفے سے پچیس گنا زیادہ پیش کرتاہوں، اس کے مقابلے میں اس حقیر رقم کی کیاپروا ہوسکتی ہے۔ انھوں نے اس کے بعد یہ عذر کیا کہ میرے گھرمیں بیری کا ایک درخت ہے، اس کی بیری میٹھی اورمجھے مرغوب ہے۔ اس نے کہا کہ رام پور سے آنے کا انتظام ہوسکتاہے، آپ بریلی میں بیٹھے ہوئے بھی اپنے گھر کی بیری کھاسکتے ہیں۔ مولانا نے فرمایا: ایک بات یہ بھی ہے کہ میرے طالب علم جو رام پور میں درس لیتے ہیں، ان کا درس بند ہوجائے گا، اورمیں ان کی خدمت سے محروم رہ جاؤں گا۔ انگریز کی منطق نے اب بھی ہار نہیں مانی۔ اس نے کہا کہ میں ان کے وظائف مقرر کرتاہوں، وہ بریلی میں آپ سے اپنی تعلیم جاری رکھیں اوراپنی تکمیل کریں۔ آخر اس مسلمان عالم نے اپنی کمان کا آخری تیرچھوڑا، جس کا انگریز کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ فرمایا:
’’یہ سب صحیح ہے، تعلیم پر اُجرت لینے کے متعلق میں قیامت میں اللہ کو کیاجواب دوں گا‘‘۔
ہندوستان کے فاتح نے اب اپنی شکست تسلیم کرلی اور مولانا نے نواب احمد علی خاں، والیِ رام پور کے دس روپے ماہ وار پر اپنی زندگی گزار دی،رحمۃ اللہ علیہ۔
(مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ ۔،انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر، ص:۲۹۰)

غریبی میں ہوں محسود امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری!
حذر اس فقر و درویشی سے جس نے
مسلماں کو سیکھا دی سر بزیری